پوری دنیا اس وقت آفاقی فساد سے دوچار ہے اور اس آفاقی فساد کی تین سطحیں ہیں۔ تین سطحوں میں سب سے اونچی سطح سیاسی سطح ہے اور وہ یہ ہے کہ سیاسی سطح پر (معاذ اللہ) اللہ کو بے دخل کر دیا جائے یعنی اللہ حاکم نہیں بلکہ حاکم عوام ہیں۔ موجودہ دور کا سب سے بڑا شرک اوربغاوت یہی عوامی حاکمیت ہے اور اسکی دجالیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ریاست سے، سیاست سے، حکومت سے، قانون سے بے دخل کر دو کیونکہ ریاست کا کسی مذہب کیساتھ کوئی تعلق نہیں۔
مذہب صرف انفرادی معاملہ ہے یعنی مسجدوں میں نماز پڑھو، مندروں میں پوجا کرو، چرچ اور سینگاگز اور گردواروں میں عبادت کرو، تمہیں آزادی ہے لیکن ریاست کی سطح پر عوامی حاکمیت ہوگی اور یہ موجودہ دور میں خدا کیخلاف سب سے بڑی بغاوت ہے اور اسی کا دوسرا نام ’’سیکولرازم‘‘ ہے۔ آفاقی فساد اور دجالیت کی دوسری سطح معاشی ہے اوریہ بھی یونیورسل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا کا پورا معاشی نظام سود اور جوئے پر مبنی ہے جبکہ ازروئے قرآن سود بدترین گناہ اور اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیخلاف اعلان جنگ ہیـ۔ دوسری چیز جوا ہے۔ آج دیکھ لیجئے تمام کاروبار، فنانس مارکیٹس اور سٹاک ایکسچینج میں پورے کا پورا جوا ہے۔ اس میں مزید دو چیزیں قحبہ گری اور منشیات بھی شامل ہیں۔ آج کی دنیا میں عصمت فروشی کو بھی جائز سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اب عصمت فروش خواتین کومغرب میں ’’سیکس ورکر‘‘کہا جارہا ہے ایسے ہی نشہ آور چیزوں کا استعمال اور فروخت بھی جائز ہے۔ معاشی سطح پر یہ چار چیزیں سود، جوا، فحاشی اور منشیات دجالیت کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ تیسری سطح سماجی ہے کہ شرم و حیا اور عصمت و عفت کے تصورات سب دقیانوسیت ہے۔ آزاد جنسی تعلقات استوار کرنے میں کوئی حرج نہیں عورت اپنے حسن کی نمائش کرے اسے کوئی نہیں روک سکتا اور آج ہمارا ایلیٹ طبقہ پورے کا پورا مغرب پرست بن چکا ہے اور اُسی تہذیب کو اختیار کیے ہوئے ہے جو شرم و حیا سے عاری ہے اور آج ہمارے معاشرے میں مکمل آزادی کے پرچارک پوری طرح فعال ہیں کہ عورتوں کو مکمل آزادی دی جائے اور انکے مردوں کے برابر ہونے کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔
اب یہ جان لیجئے کہ درج بالا تینوں سطحوں کا منبع (Source ) کہاں ہے؟ یہ ابلیس لعین ہے اور اس وقت اس ابلیس لعین کے سب سے بڑے ایجنٹ یہود ہیں جنہیں قرآن پاک نے مغضوب اور لعین قرار دیا ہے یہ عوامی حاکمیت اور سیکولرازم کا فتنہ دراصل انہی یہود کا ایجاد کردہ ہے اور یہ قوم دنیا میں بے حد قلیل ہے اسی لیے اس نے سیکولرازم کی بنیاد پر یہ قرار دیا کہ ایک ملک کے رہنے والے برابر کے شہری ہیں‘ اگر بنیاد مذہب ہوتا تواس میں یہود کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہوتی۔
یہ یہود ہی تھے جنہوں نے 1776ء میں ایک نیو ورلڈ آرڈر کا نعرہ لگایا یاد رہے کہ یہی سال امریکہ کی آزادی کا سال ہے اور یہی وہ سال ہے جب یہودیوں نے یورپ میں سود خوری کی اجازت حاصل کی۔ اس سے قبل یورپ میں سودی کاروبار کی اجازت نہ تھی اور یہود نے یہ سب کچھ پوپ کیخلاف بغاوت کر کے حاصل کیا۔ پوپ کیخلاف بغاوت کا اوّلین مظاہرہ ’’چرچ آف انگلینڈ‘‘ کا قیام اور پھر بعد میں ’’بینک آف انگلینڈ‘‘ کا بننا تھا۔ انگلینڈ میں ان کامیابیوں کے بعد یہودیوں نے کہا تھا کہ ’’یہ ہمارا اسرائیل ہے اور ہمیں تو یہاں جنت مل گئی‘‘ ہم یہاں آ گئے اور یہاں ہم برابر کے شہری ہیں۔‘‘ بینک آف انگلینڈ کے بعد یہودیوں نے پہلے پورے یورپ میں اور پوری دنیا میں بینکنگ کا نظام قائم کیا اور بینکوں کاجال بچھا دیا۔ اس پر علامہ اقبال نے فرمایا …؎
ایں بنوک ایں فکر چالاک یہود
نور حق ازسینۂ آدم ربود
یعنی بینکوں کا جال یہود کے مکار فکر کا نتیجہ ہے اور اللہ نے انسان کے اندر جو نور روح کی صورت میں پھونکا تھا اسے معطل کرایا! 1897ء میں سوئٹزر لینڈ کے شہر برسلزمیں یہودیوں نے باقاعدہ طور پر \\\"Protocols of the Elders of Zion\\\" مرتب کیے اور اس میں منصوبہ بنایا کہ شرم و حیا کی ساری اقدار ختم کر کے انسانوں کو اپنی شہوات اور خواہشات کا غلام بنا دیا جائے تاکہ یہ انسان سے حیوان بن جائیں اور دجالیت کے منبع اور سرچشمہ قوم یہود نے اپنے پروگرام کیمطابق سب کچھ کر دکھایا ہے۔ اب نوٹ کیجئے کہ اس دجالیت کی منبع اور سرچشمہ قوم یہود کے مستقبل میں اہداف کیا ہیں۔
مستقبل کے اہداف کے پیچھے اصل دماغ صہیونیوں کا (Zionists) کا ہے اور صیہونی دو قسم کے ہیں‘ ایک یہود اور دوسرے عیسائی ہیں۔ عیسائیوں میں بھی ایک فرقہ Evengelist یہود کا آلہ کار ہے اور سابق صدر جارج بش بھی اسی فرقے کا پیروکار ہے اوراس نے ایک بار کہا تھا کہ مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ جنگ کرو اور اسکے اسی عقیدے نے اسے امریکہ کے تمام صدور کے مقابلے میں جنگجو صدر بناد یا تھا اور اسی مقصد کیلئے اس نے Twin Tower کو گرانے کا ڈرامہ رچایا اور پہلے افغانستان اور پھر عراق پر حملہ کردیا۔ بہرحال ان دونوں فرقوں کا ایجنڈا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایک بہت بڑی جنگ کی جائے جسے احادیث میں ’’الملحمۃ العظمیٰ‘‘ یا ’’الملحمۃ الکبریٰ‘‘ کہا گیا ہے۔
اسے بائبل کی زبان میں ’’ہر مجدون‘‘ (Armageddon) بھی کہا جاتا ہے اور غزہ پر بار بار کی اسرائیلی وحشت اور بربریت اُسی جنگ کی ریہرسل ہے۔ یہودی اس جنگ کے ذریعے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کو قائم کرنا چاہتے ہیں اور گریٹر اسرائیل میں مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک شامل ہیں۔ پھر یہ مسجد اقصیٰ اور قبۃ الضحرہ (Dome of the Rock) کو شہید کرنا اور پھر اس جگہ پر تھرڈ ٹمپل یعنی ہیکل سلیمانی کو تعمیر کرنا ہے اور اس میں تخت داود کو لا کر رکھنا ہے جو اس وقت انگلستان میں ’’ویسٹ منسٹرایبے‘‘ میں رکھا ہوا ہے۔ یہ وہ تخت ہے جس پر حضرت داؤد علیہ السلام کی تاجپوشی کی گئی تھی اور صیہونیت کا چوتھا اور آخری مقصد اور ہدف عالم اسلام کے تمام وسائل بالخصوص تیل پر قبضہ کرنا ہے۔ صیہونیت کے تمام اہداف ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ مگر ان شاء اللہ مستقبل میں ’’گریٹر اسرائیل‘‘ ہی یہودیوں کا Greater Graveyardیعنی عظیم قبرستان بنے گا۔
مذہب صرف انفرادی معاملہ ہے یعنی مسجدوں میں نماز پڑھو، مندروں میں پوجا کرو، چرچ اور سینگاگز اور گردواروں میں عبادت کرو، تمہیں آزادی ہے لیکن ریاست کی سطح پر عوامی حاکمیت ہوگی اور یہ موجودہ دور میں خدا کیخلاف سب سے بڑی بغاوت ہے اور اسی کا دوسرا نام ’’سیکولرازم‘‘ ہے۔ آفاقی فساد اور دجالیت کی دوسری سطح معاشی ہے اوریہ بھی یونیورسل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت دنیا کا پورا معاشی نظام سود اور جوئے پر مبنی ہے جبکہ ازروئے قرآن سود بدترین گناہ اور اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیخلاف اعلان جنگ ہیـ۔ دوسری چیز جوا ہے۔ آج دیکھ لیجئے تمام کاروبار، فنانس مارکیٹس اور سٹاک ایکسچینج میں پورے کا پورا جوا ہے۔ اس میں مزید دو چیزیں قحبہ گری اور منشیات بھی شامل ہیں۔ آج کی دنیا میں عصمت فروشی کو بھی جائز سمجھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اب عصمت فروش خواتین کومغرب میں ’’سیکس ورکر‘‘کہا جارہا ہے ایسے ہی نشہ آور چیزوں کا استعمال اور فروخت بھی جائز ہے۔ معاشی سطح پر یہ چار چیزیں سود، جوا، فحاشی اور منشیات دجالیت کے اجزائے ترکیبی ہیں۔ تیسری سطح سماجی ہے کہ شرم و حیا اور عصمت و عفت کے تصورات سب دقیانوسیت ہے۔ آزاد جنسی تعلقات استوار کرنے میں کوئی حرج نہیں عورت اپنے حسن کی نمائش کرے اسے کوئی نہیں روک سکتا اور آج ہمارا ایلیٹ طبقہ پورے کا پورا مغرب پرست بن چکا ہے اور اُسی تہذیب کو اختیار کیے ہوئے ہے جو شرم و حیا سے عاری ہے اور آج ہمارے معاشرے میں مکمل آزادی کے پرچارک پوری طرح فعال ہیں کہ عورتوں کو مکمل آزادی دی جائے اور انکے مردوں کے برابر ہونے کے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔
اب یہ جان لیجئے کہ درج بالا تینوں سطحوں کا منبع (Source ) کہاں ہے؟ یہ ابلیس لعین ہے اور اس وقت اس ابلیس لعین کے سب سے بڑے ایجنٹ یہود ہیں جنہیں قرآن پاک نے مغضوب اور لعین قرار دیا ہے یہ عوامی حاکمیت اور سیکولرازم کا فتنہ دراصل انہی یہود کا ایجاد کردہ ہے اور یہ قوم دنیا میں بے حد قلیل ہے اسی لیے اس نے سیکولرازم کی بنیاد پر یہ قرار دیا کہ ایک ملک کے رہنے والے برابر کے شہری ہیں‘ اگر بنیاد مذہب ہوتا تواس میں یہود کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہوتی۔
یہ یہود ہی تھے جنہوں نے 1776ء میں ایک نیو ورلڈ آرڈر کا نعرہ لگایا یاد رہے کہ یہی سال امریکہ کی آزادی کا سال ہے اور یہی وہ سال ہے جب یہودیوں نے یورپ میں سود خوری کی اجازت حاصل کی۔ اس سے قبل یورپ میں سودی کاروبار کی اجازت نہ تھی اور یہود نے یہ سب کچھ پوپ کیخلاف بغاوت کر کے حاصل کیا۔ پوپ کیخلاف بغاوت کا اوّلین مظاہرہ ’’چرچ آف انگلینڈ‘‘ کا قیام اور پھر بعد میں ’’بینک آف انگلینڈ‘‘ کا بننا تھا۔ انگلینڈ میں ان کامیابیوں کے بعد یہودیوں نے کہا تھا کہ ’’یہ ہمارا اسرائیل ہے اور ہمیں تو یہاں جنت مل گئی‘‘ ہم یہاں آ گئے اور یہاں ہم برابر کے شہری ہیں۔‘‘ بینک آف انگلینڈ کے بعد یہودیوں نے پہلے پورے یورپ میں اور پوری دنیا میں بینکنگ کا نظام قائم کیا اور بینکوں کاجال بچھا دیا۔ اس پر علامہ اقبال نے فرمایا …؎
ایں بنوک ایں فکر چالاک یہود
نور حق ازسینۂ آدم ربود
یعنی بینکوں کا جال یہود کے مکار فکر کا نتیجہ ہے اور اللہ نے انسان کے اندر جو نور روح کی صورت میں پھونکا تھا اسے معطل کرایا! 1897ء میں سوئٹزر لینڈ کے شہر برسلزمیں یہودیوں نے باقاعدہ طور پر \\\"Protocols of the Elders of Zion\\\" مرتب کیے اور اس میں منصوبہ بنایا کہ شرم و حیا کی ساری اقدار ختم کر کے انسانوں کو اپنی شہوات اور خواہشات کا غلام بنا دیا جائے تاکہ یہ انسان سے حیوان بن جائیں اور دجالیت کے منبع اور سرچشمہ قوم یہود نے اپنے پروگرام کیمطابق سب کچھ کر دکھایا ہے۔ اب نوٹ کیجئے کہ اس دجالیت کی منبع اور سرچشمہ قوم یہود کے مستقبل میں اہداف کیا ہیں۔
مستقبل کے اہداف کے پیچھے اصل دماغ صہیونیوں کا (Zionists) کا ہے اور صیہونی دو قسم کے ہیں‘ ایک یہود اور دوسرے عیسائی ہیں۔ عیسائیوں میں بھی ایک فرقہ Evengelist یہود کا آلہ کار ہے اور سابق صدر جارج بش بھی اسی فرقے کا پیروکار ہے اوراس نے ایک بار کہا تھا کہ مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ جنگ کرو اور اسکے اسی عقیدے نے اسے امریکہ کے تمام صدور کے مقابلے میں جنگجو صدر بناد یا تھا اور اسی مقصد کیلئے اس نے Twin Tower کو گرانے کا ڈرامہ رچایا اور پہلے افغانستان اور پھر عراق پر حملہ کردیا۔ بہرحال ان دونوں فرقوں کا ایجنڈا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایک بہت بڑی جنگ کی جائے جسے احادیث میں ’’الملحمۃ العظمیٰ‘‘ یا ’’الملحمۃ الکبریٰ‘‘ کہا گیا ہے۔
اسے بائبل کی زبان میں ’’ہر مجدون‘‘ (Armageddon) بھی کہا جاتا ہے اور غزہ پر بار بار کی اسرائیلی وحشت اور بربریت اُسی جنگ کی ریہرسل ہے۔ یہودی اس جنگ کے ذریعے ’’گریٹر اسرائیل‘‘ کو قائم کرنا چاہتے ہیں اور گریٹر اسرائیل میں مشرق وسطیٰ کے تمام ممالک شامل ہیں۔ پھر یہ مسجد اقصیٰ اور قبۃ الضحرہ (Dome of the Rock) کو شہید کرنا اور پھر اس جگہ پر تھرڈ ٹمپل یعنی ہیکل سلیمانی کو تعمیر کرنا ہے اور اس میں تخت داود کو لا کر رکھنا ہے جو اس وقت انگلستان میں ’’ویسٹ منسٹرایبے‘‘ میں رکھا ہوا ہے۔ یہ وہ تخت ہے جس پر حضرت داؤد علیہ السلام کی تاجپوشی کی گئی تھی اور صیہونیت کا چوتھا اور آخری مقصد اور ہدف عالم اسلام کے تمام وسائل بالخصوص تیل پر قبضہ کرنا ہے۔ صیہونیت کے تمام اہداف ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ مگر ان شاء اللہ مستقبل میں ’’گریٹر اسرائیل‘‘ ہی یہودیوں کا Greater Graveyardیعنی عظیم قبرستان بنے گا۔