مشہور مزاح گو شاعر انور مسعود صاحب نے عوام کی حالتِ زار کو ایک شعر میں بیان کر دیا ہے۔ بجلی ، گیس ، فون اور پانی کے بلوں کی بھرمار نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے۔ ہر ماہ ان میں بلاجواز اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ حیرت ، مسرت اور پریشانی سے لوگوں کا ’’ہاسا‘‘ نکل جاتا ہے۔ منشی پریم چند نے کسی افسانے میں ایک دکھیاری ماں کا ذکر کیا ہے جو اپنی اولاد کی ناجوازیوں سے تنگ آ کر آسمان کی طرف د یکھ کر کہتی ہے ’’بھگوان!۱ میری کوکھ سے ایسی ناخلف اولاد کو ہی جنم لینا تھا؟‘‘ اب خلقِ خدا آسمان کی طرف نظریں جمائے کہتی ہے۔ یا ربّ کائنات ، کیا ہمارے مقدر میں ایسے حکمران ہی لکھ دئیے گئے ہیں ! گو وہ لطیفہ خاصا گھِس پٹ گیا ہے مگر حسبِ حال ہے ، کسی نے سرکاری افسر سے پوچھا، گورنر کالا باغ اور جنرل موسیٰ میں کیا فرق محسوس کرتے ہو؟ بولا۔ وہ کسی کی سُنتا نہیں یہ سمجھتا نہیں ہے سابقہ حکمرانوں اور موجودہ اہل حشم میں اگر فرق ہے تو صرف اتنا سا ہے۔
چلیے مان لیتے ہیں کہ سابق حکمران کرپٹ تھے۔ انہوں نے لوگوں کا خیال نہ رکھا صرف اپنی تجوریاں بھریں۔ بیرون ملک جائیدادیں بنائیں، اندرونِ ملک کئی محلات کھڑے کیے۔ جاتے جاتے آنے والوں کیلئے مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر گئے۔جو کانٹے انہوں نے بچھائے تھے وہ موجودہ کو پلکوں سے چننے پڑ گئے ہیں۔ مولانا کو صرف یہ غم ہے کہ اب حلوے مانڈے نہیں مل رہے۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ موجودہ حکمران ایماندار ہیں (عمران خان کی ذات تک تو یہ درست بھی ہے) انہوں نے سرکاری خزانے سے ناجائز طور پر پھوٹی کوڑی تک بھی نہیں لی۔ مال حرام لینا تو در کُجا اس کی طرف دیکھنا بھی گناہِ کبیرہ سمجھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کیا اتنا کافی ہے؟ ہمیں اس موقع پر ایک واقعہ یاد آیا ہے۔ ایک مجسٹریٹ کی سالانہ خفیہ رپورٹ میں کارکردگی کے بارے میں ڈپٹی کمشنر ملک کرم داد نے لکھا HE IS TOTALLY HONEST BUT ALAS! THAT IS ALL ایسی ایمانداری کیا کیا فائدہ ہے جو لوگوں کے کام نہ آ سکے۔ عوام کے مسائل حل نہ کر سکے۔ انکے مصائب میں کمی نہ لا سکے۔ اُنکی امیدوں ، امنگوں آرزئوں اور ارادوں کی ترجمان نہ ہو۔ اسی لیے کہا گیا ہے (INEFFICIENCY IS THE WORT FORM OF CORRUPTION) ایک شخص چاہے کتنا ہی ایماندار ، مخلص اور راست باز کیوں نہ ہو، جب تک وہ اپنے ماتحتوں پر کڑی نگاہ نہیں رکھتا۔ ان کی حرکات و سکنات کو عقابی نگاہ سے نہیں دیکھتا، جزا و سزا کے عمل کو بروئے کار نہیں لاتا، اس وقت تک ادارے کی کارکردگی محل نظر رہے گی اور تنقید کی زد میں آتی رہے گی۔
-2 عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ وہ 22 کروڑ لوگوں کے ملک کا حاکم تو بن گیا ہے لیکن اپنی مرضی کی ٹیم منتخب نہیں کر سکتا۔ شاید ٹیم ممبران کو نکالنا بھی مشکل ہے۔ اسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ اسے سادہ اکثریت بھی نہیں ملی۔ کچھ ایسی پارٹیوں کو ساتھ ملانا پڑ گیا ہے جن کا ماضی مشکوک ہے۔ حال میں موقعہ پرستی کا عنصر غالب ہے۔ جب بھی خان پر اپوزیشن پارٹیوں کا دبائو بڑھتا ہے یہ اپنا نرخ بڑھا دیتی ہیں۔ ان کا صرف ایک ہی مطعِ نظر رہا ہے۔ ’’نرخ بالا کُن کہ ارزانی ہنوز ‘‘
ان لوگوں نے سابقہ حکومتوں کو بلیک میل کیا ، اب خان انکے نشانے پر ہے۔ اگر PTI کو اسمبلی میں ازخود سادہ اکثریت حاصل ہو جاتی تو صورتحال یقیناً بہتر ہوتی۔
-3 وہ لوگ جو اپنے آپ کو ’’بادشاہ گر‘‘ کہتے رہے ہیں اور حکومت کی تشکیل میں اپنی کوششوں ، کاوشوں اور مالی قربانیوں کا ذکر کرتے نہیں تھکتے ان کا بھی مخصوص ایجنڈا ہے۔یہ عناصر پارٹی پر ویسے ہی زرکثیر خرچ نہیں کرتے۔ ہر مالی قربانی کے پیچھے کوئی نہ کوئی حکمتِ عملی ہوتی ہے۔
ہزار مصلحتوں کو شمار کرتے ہیں
بت ایک زخم جگر اختیار کرتے ہیں
سادہ الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خان شیطان اور گہرے سمندر کے درمیان پھنس گیا ہے۔ ہمارے دوست ملک صاحب کہنے لگے
WITH OPPOSITION RUDLY PUSHING, ADN THERE SELF SEEKERS GENTCY PULLING, GOVT FINDS ITSELF IN GREAT TROUBLE
دام ہر موج میں ہے حلقہِ صدِ کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک
-4 بات دراصل بجلی ، گیس اور پانی کے ناقابلِ برداشت بلوں کی ہو رہی تھی اس میں گو حکومت کا زیادہ قصور تو نہیں ہے پھر بھی ایک مناصب حکمتِ عملی سے محکمانہ ناجوازیوں کو روکا جا سکتا ہے۔ مستقبل کا مورخ جب تاریخ لکھے گا تو سابقہ سب حکومتوں کو موردِ الزام ٹھہرائے گا۔ سب کو علم ہے کہ پن بجلی بہت سستی پڑتی ہے لیکن تیل اور گیس سے چلائے جانیوالے بجلی گھروں کی لاگت بہت زیادہ ہے۔ ایوب خان کی کتاب ’’فرینڈز ناٹ ماسٹر‘‘ پڑھیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ بنیادی غلطی اس سے ہوئی۔ اسے تمام ماہرین نے مشورہ دیا کہ تربیلا سے پہلے کالا باغ ڈیم شروع کیا جائے۔ اس ڈیم کی افادیت مسلم ہے۔ اس نے ذاتی وجوہ سے تربیلا کو ترجیح دی۔ بعد میں کالا باغ ڈیم سیاست کی بھینٹ چڑھ گیا۔ ضیاء الحق بنانا چاہتا تھا مگر جنرل فضل حق کی ایک دھمکی سے ڈر گیا۔ جنرل مشرف نے بھی ڈنگ ٹپائو کام کیا۔ میاں نواز شریف اور محترمہ کی حکومتیں تو خیر اس قابل ہی نہ تھیں جو کام ایک مطلق العنان حکمران نہ کر سکے وہ سیاسی حکومتوں کے بس کا روگ نہیں تھا۔ ہمارے پاس 72 برس کے عرصے میں دو قابلِ ذکر ڈیم ہیں جبکہ اسی اثناء میں ہندوستان اور چین سینکڑوں ڈیم بنا چکے ہیں۔
قیاس کُن زگلستانِ من بہار مرا
-5 ایک تو بجلی اور گیس بوجوہ مہنگی ہیں۔ پھر ان کے محکموں کے اہلکاروں کی ناجوازیوں نے غریبوں کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ بجلی اور گیس کی چوری عام ہے۔ اہلکار لوگوں کو باقاعدہ ترغیب دیتے ہیں۔ ’’بگ بزنس‘‘ تو اسکے بغیر چل ہی نہیں سکتی دوسرا مسئلہ INFLATED BILLS کا ہے۔ اگر آپ واپڈا کے SDO کے دفتر میں جائیں تو باہر سینکڑوں لوگ ہاتھ میں بل پکڑے کھڑے ہونگے۔ ایک کمرے کا گھر ، ایک پنکھا اور بلب۔ ایک چولہا، بل تنخواہ کے چوتھے حصے کے برابر۔ DOUBLE GEOPARDY ایک تو دیہاڑی ضائع ہوئی اور دوسرا وعدہ فروا پر ٹرخا دیا جانا۔ اسکے علاوہ ان دو محکموں نے پیسے بٹورنے کا ایک نادر طریقہ تلاش کیا ہے۔ بل اکثر اس وقت موصول ہوتے ہیں جب آخری تاریخ گزر چکی ہوتی ہے یا آخری دن ہوتا ہے۔ اسکی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ گیس کمپنی نے بلوں کی وصولی کا ٹھیکہ ایک پرائیویٹ کمپنی کو دے رکھا ہے۔ اسکے ہرکارے مخصوص حکمتِ عملی سے کام لیتے ہوئے ہر وقت بل نہیں پہنچاتے۔ یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ بل دینے والا پیچھے پیچھے پھرتا ہے اور لینے والے غائب ہوتے ہیں۔ چند دکاندار پرنٹ آئوٹ نکالنے کے سو روپیہ وصول کرتے ہیں لوگ ذہنی مریض بنتے جا رہے ہیں۔ سارا مہینہ یہ ’’دھڑکو‘‘ لگا رہتا ہے کہ INFCATED BILL کا ’’سکائی لیب‘‘ کب گرے گا۔ محکمہ گیس بالخصوص اور بجلی کے ارباب بست و کشاد سے گزارش ہے کہ ان مفروضات پر خصوصی توجہ فرمائیں! وگرنہ خدانخواستہ یہ نہ ہو جس کا ذکر منشی پریم چند نے کیا تھا۔
’’ہرن راہ فرار نہ پا کر شکاری کی طرف لپکا۔‘‘
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024