دنیا کی تیسری عالمی جنگ زمین پر نہیں خلا میں ہوگی 2030 تک دنیا بھر میں موجود تمام جنگی سازو سامان جہاز ، ٹینک ، توپ ، میزائل حتیٰ کہ ایٹم بم بھی بے کار ہونے والے ہیں اور فوجی بھی صرف سیٹلائٹ پر لڑنے والے ہی کارآمد ہوں گے دنیا میں موجود 9 ایٹمی طاقتوں میں سوائے پاکستان کے تقریباً تمام ہی کسی نہ کسی ذریعے سے خلا میں جاچکے ہیں۔ امریکہ‘ چین اور روس ماضی کی بہ نسبت اب اپنا دفاعی بجٹ پچاس فیصد تک بڑھا کے خلا پر خرچ کر رہے ہیں۔ گزشتہ پندرہ سالوں سے امریکہ اور چین ایسے جن خلائی ہتھیاروں کے تجربات کر رہے تھے اب وہ کامیابی کے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں جس میں پہلے زمین سے راکٹ فائر کر کے خلائی سیارے کو تباہ کرنے کے تجربات ہوئے 2007 میں چین نے اپنا خلائی سیارہ تباہ کر کے امریکہ کو چیلنج میں مبتلا کیا تھا اب خلا میں موجود ہتھیاروں سے زمین پر موجود جہازوں ، میزائلوں اور جنگی کمپیوٹر ٹیکنالوجی کو جلا کر تباہ کرنے کے تجربات جاری ہیں خلائی جنگی ہتھیاروں میں لیزر اور کیمیاوی ہتھیار شامل ہیں مختلف ممالک نے جو پلوٹینم بم اور ہائیڈروجن بم بنارکھے ہیں خلائی ٹیکنالوجی کی طاقت سے ان کو چلنے سے پہلے ہی ناکارہ کر دیا جائے گا اور ایٹمی حملے کا حکم جاری کرنے والی کمپیوٹر ٹیکنالوجی کو ہی خلائی شعائوں سے جلا کر راکھ کر دیا جائے گا چین اور امریکہ کی یہ جنگ سائبر حملوں خلائی ہتھیاروں، لیزر برقی لہروں اور توانائی کی شعائوں سے ہو گی اور خلا میں دھڑا دھڑ بھیجے جانیوالے ان ہتھیاروں سے زمینی موسمی اثرات پر بھی کنٹرول حاصل کیا جانے والا ہے جس سے کسی بھی خطے میں سخت سردی سخت گرمی یا مصنوعی سمندری طوفان بھیجا جاسکے گا اس جدید خلائی نظام سے کسی بھی قسم کے زمینی جنگی جہازوں اور میزائلوں کو خلائی لیزر شعائوں سے تباہ کیا جاسکے گا۔ چین 1996 سے یہ تجربات کر رہا ہے جبکہ امریکہ اور روس اس سے بھی کئی سال قبل یہ آغاز کر چکے تھے سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد روس اپنے خلائی مشن میں کچھ پیچھے رہ گیا تھا لیکن صدر پیوٹن کے دور میں روس نے بھی دوبارہ اپنی خلائی ٹیکنالوجی پر کام شروع کر دیا تھا اس وقت بھی خلا میں روس کے 100 کے قریب مشن موجود ہیں۔اس جدید ریسرچ اور ٹیکنالوجی نے تمام روایتی جنگوں کا خاتمہ کر دینا ہے۔ اس جدید ریسرچ پر کام کرنے والے ملک تو اب خلائی جنگ سے بھی آ گے کے تجربات کر رہے ہیں جن میں سیارہ شکن ہتھیار بنائے گئے ہیں روس اور چین ان کے کامیاب تجربات بھی کر چکے ہیں چین نے دس سال قبل ریڈار پر نظر نہ آنے والا اپنا سیٹلائٹ جیٹ بنا لیا تھا اور چین ہی نے اپنی 500-ZkZM رائفل کو لیزر کلاشن کوف میں تبدیل کر کے اسے AK 47 کا نام دیا تھا یہ لیزر کلاشن کوف ایک کلو میٹر کے اندر موجود کسی بھی فوجی کے کپڑوں کو نظر نہ آنے والی شعائوں سے آگ لگا سکتی ہے اس لیزر کلاشن کوف سے کسی بھی پٹرول والی مشینری کو بھی آگ لگائی جا سکتی ہے۔۔۔ آسٹریلیا کے جنگلات میں لگنے والی آگ کے متعلق بھی قیاس آرائیاں ہیں کہ وہ کسی لیزر ٹیکنالوجی کا تجربہ تھا متحدہ عرب امارات میں ہونے والی بارشیں جن کی پشین گوئی کسی موسمی سسٹم پر موجود نہیں تھی جس سے دبئی ایئر پورٹ تک بند کرنا پڑ گیا تھا وہ بھی کسی موسمی تجربے کا شاخشانہ قرار دی جاتی ہیں جس کے بعد عرب امارات نے بھی اسی سال اکتوبر میں جاپان کے تعاون سے اپنا ہوپ خلائی مشن مریخ پر بھیجا اور اسرائیل کو عرب ریاستوں نے تسلیم کرنا شروع کر دیا۔ اب بعض سائنسی ذرائع کووڈ 19 کو بھی کسی حیاتیاتی ہتھیار کے تجربے سے منسوب کر رہے ہیں۔ یہ واقعات کسی بڑی جنگ سے قبل حیاتیاتی ، موسمیاتی اور خلائی ہتھیاروں کے تجربات کی طرف مسلسل اشارہ کرتے ہیں اسی لیے امریکہ اور چین کے مابین اب خلائی دفاعی معاہدے ہوتے ہیں۔حالیہ لداخ میں بھارتی فوجیوں پر چین کی طرف سے کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کی بعض خبریں بھی گردش میں ہیں کہ لداخ میں موجود بھارتی فوجی اچانک بیمار ہو کر اپنی چوکیاں خالی کرنے پر مجبور ہو گئے تھے لیکن اِن کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کی تصدیق ابھی کوئی ملک نہیں کر سکتا کیونکہ چین اور انڈیا میں ایٹمی ہتھیاروں کے پہلے استعمال نہ کرنے کا معاہدہ موجود ہے اور انڈیا کی جوہری ہتھیاروں کی پالیسی یہ ہے کہ جب تک اْن پر کیمیاوی یا بائیولوجیکل حملہ نہ کیا جائے وہ اپنے جوہری ہتھیار استعمال نہیں کریں گے اس لیے اگر چین لداخ میں اپنے کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کا اقرار کرتا ہے تو انڈیا کی طرف سے پھر آخری آپشن کے طور پر ایٹمی حملے کا اسے خطرہ موجود ہے لیکن 2030 تک چین اپنی اْس خلائی طاقت کے استعمال پر عبور حاصل کر جائے گا جس کے تحت خلائی ہتھیاروں سے زمینی ایٹمی حملوں کو بھی آسانی سے ناکارہ کر دیا جائے گا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024