ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان میں بیک وقت تین اہم خوبیاں ہیں۔ وہ ہاتھ پائوں چلانے کی ماہر ہیں۔ ہاتھ پائوں چلانے کے ساتھ ساتھ اُنکا دماغ بھی خوب چلتا ہے۔ جواب دلیل سے دینے کی صلاحیت بہت کم لوگوں میں ہوتی ہے۔ لوگوں نے فردوس عاشق اعوان کو گزشتہ ہفتہ ایک ہی وار میں آٹھ ٹائلیں توڑتے دیکھا ہے۔ میں نے ستمبر 1997 ء میں پہلی مرتبہ گنگا رام ہاسپٹل میں نواز شریف کی موجودگی میں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو دیکھا۔ انہوں نے تب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی کو شش کی، میں ذرا جھجکی کیونکہ میں علم و ادب کے گہوارے میں پلی بڑھی ہوں۔ جنگ و جدل میں بھی تمیز تہذیب اور نرمی شائستگی ورثے میں ملی ہے مگر ڈاکٹر فردوس دوستی کرنے اور تعلقات بڑھانے میں یدِطولیٰ رکھتی ہیں۔ 10دسمبر 1997ء کو وہ میرے برتھ ڈے کیک اور چار لیڈی ڈاکٹرز کے ساتھ میری برتھ ڈے وشِ کرنے میرے نوائے وقت آفس آ گئیں۔یوں دوستی کی ابتدا ہو گئی۔ وہ ایک سیاسی ورکر کے طور پر نواز شریف کے قریب ہو گئیں۔ اسکا کریڈٹ وہ ہمیشہ مجھے دیتی رہی ہیں۔ میری اُنکے حوالے سے کچھ خبروں، انٹرویوز اور کالمز نے اُنکا سیا سی قد کاٹھ بڑھا دیا تھا۔ انہوں نے دو لیڈی ڈاکٹرز کی پٹائی کر دی تھی۔ عام آدمی کو حیرت ہو گی کہ اب وہی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نواز شریف کی بیٹی مریم نواز کی ہر محاذ پر کھنچائی کرتی نظر آرہی ہیں۔ مجھے بھی اُس وقت پہلی بار دھچکا لگا جب وہ ق لیگ میں شامل ہوئیں۔ ایم پی اے سے ایم این اے بنیں اورچوہدری پرویز الہٰی، چوہدری شجاعت حسین کے قریب ہو گئیں۔ ابصار عبد العلی نے اُنہیں پریس انسٹیٹیوٹ میں چیف گیسٹ بلایا تھا۔ اُس وقت وہ وزیر اطلاعات تھیں۔ اس تقریب میں مجھے ابصار عبدالعلی مرحوم نے گیسٹ سپیکر مدعو کیا تھا۔ میں نے اُنہیں اپنی سیاسی کتاب کی تقریب رو نمائی میں بطور ِ چیف گیسٹ مدعو کیا تھا۔ مجید نظامی مرحوم نے ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سے کہا کہ بی بی آپکی جتنی بھی مصروفیات ہیں مگر آپ نے اپنی محسنہ عارفہ صبح خان کی کتاب کی تقریب ضرور شریک ہو نا ہے۔ آپ کو یہاں تک پہنچانے میں عارفہ بی بی کا بڑا ہاتھ ہے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے ادب سے ہنس کر کہا نظامی صاحب آپکا حکم سر انہوں پر …عارفہ میری دوست ہی نہیں، محسنہ بھی ہیں پھر آپکا حکم ٹالنے کی میں کیسے جسارت کر سکتی ہوں۔ مجید نظامی مرحوم بھی ڈاکٹر فردوس کی فرما برداری کے قائل ہو گئے۔ 1997ء سے 2020ء تک میں نے فردوس عاشق اعوان کا سیا سی سفر دیکھا۔ جس میں ڈاکٹر فردوس نے نواز شریف کا قرب حاصل کیا اور ایم پی اے بنیں۔ چوہدری پرویز الہیٰ کا اعتماد حاصل کیا۔ پھر جنرل پرویز مشرف کے انتہائی قریب رہیں۔ اسکے بعدآصف زرداری کے دور میں اُنکے ساتھ کھڑی رہیں۔ میں نے اس دوران دو مرتبہ اُنھیں اپنے سیاسی پروگراموں میں اپنے چینل پر بُلایا تو ڈاکٹر فردوس نے کمال مہارت سے پیپلز پارٹی کی حمایت اور خدمات میں فصاحت کے دریا بہائے۔ بعد میں تحریک انصاف میں شامل ہو گئیں اور الیکشن بھی لڑا لیکن تھوڑے مارجن سے ہار گئیں۔ 1997ء سے 2020ء وہ ایم پی اے، ایم این اے کے علاوہ وزارتیں بھی انجوائے کرتی رہیں۔ اُنکی سیاسی حریف مریم اورنگ زیب ہیں لیکن مریم اورنگ زیب کی ڈاکٹر فردوس عاشق کے آگے دال نہیں گلتی۔ ڈاکٹر فردوس کے تازہ ترین بیان کہ پی ڈی ایم کا چپّو دو بچوں کے ہاتھ میں ہے۔ ڈاکٹر فردوس ویسے یہ بات بھول گئیں کہ مریم نواز عمر اوررتبے میں اُن سے بڑی ہیں۔ مریم نواز میڈیکل میں ڈاکٹر فردوس سے سینئر ہیں اور اس لحاظ سے بھی سینئر ہیں کہ وہ دو بچوں کی نانی ہیں۔ پی ڈی ایم کے زیادہ فیصلوں پر مریم نواز حاوی ہونے کی کو شش کرتی ہیں۔ جب بلاول بھٹو اپنی بہن آصفہ بھٹو کی ذہانت اور مستقبل کے حوالے سے بات کر رہے تھے تو مریم نواز کے چہرے پر ایک طنزیہ مسکراہٹ تھی یعنی وہ آصفہ بھٹو کو اپنی سیاسی حریف سمجھ رہی تھیں۔ پی ڈی ایم جو گیارہ جماعتوں کا مجموعہ ہے۔ ان تمام جماعتوں کا یہی منشور ہے کہ حکومت گِرا کر وہ قابض ہو جائیں۔ لوگوں نے تبدیلی کی خاطر عمران خان کو ووٹ دیا تھا۔ عوام سے اُمیدیں چھین لی گئیں۔ حکومت کی تمام تر نا اہلیوں، نالائقیوں اور ناکامیوں کے باوجود ایک اچھی اپوزیشن سامنے نہ آ سکی۔ گیارہ جماعتوں کے ملغوبے میں سب ایک سے بڑھکر ایک سیاستدان ہے جن کی زندگیاں سیاست میں بسر ہوئیں ہیں۔ اگر چہ سب سینئر ترین سیاستدانوں کے سامنے مریم نواز اوربلاول بھٹو جو نئیر ترین سیاستدان ہیں۔ 32 سالہ بلاول بھی ماں کی گود سے سیاسی رموز سے واقف چلاآ رہا ہے جبکہ مریم نواز بھی اپنے سکول کے زمانے سے سیاسی گہوارے میں رہی ہیں۔ 1980ء سے 2020ء مریم نواز بھی مسلسل سیا ست کے اُتار چڑھائو دیکھتی اور جانتی آ رہی ہیں۔دوسری طرف بلاول بھٹو کا تعلق ہے ہی سیاسی خانوادے سے …دونوں کو خاندان اور دولت کی طاقت حاصل ہے۔ خاندانی لیبل کے بغیر دونوں زیرو ہیں۔ اس لئے پی ڈی ایم کی کشتی ڈوبتی نظرآ رہی ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024