سیا سی افق پر محاز آرائی کے خدشات
سجادترین
پا کستان کے سیا سی افق پر نئی محاز آرائی شروع ہو نے کے خدشات بڑھ رہے ہیںاپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری 23 دسمبر کو وطن واپس آرہے ہیں جس کے بعدپیپلز پارٹی حکمران جماعت کے خلاف اپنے مطالبات منوانے کے لیے حکمت عملی کو موثر انداز میں آگے بڑھائے گی۔آصف علی زرداری پانچ سال تک صدر رہنے کے بعد 2013ءمیں سبکدوش ہوئے تھے۔ گزشتہ سال انہوں نے ایک جلسے سے خطاب کے دوران بظاہر ملکی سیاست میں ریاستی اداروں کی مبینہ مداخلت پر اسے تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور اس کے چند روز بعد ہی وہ اچانک بیرون ملک چلے گئے تھے پیپلز پارٹی کا موقف رہا کہ سابق صدر کے بیان کی سیاق و سباق سے ہٹ کر تشریح کی گئی اور بیرون ملک جانے کا ان کے اس بیان سے کوئی تعلق نہ تھا۔اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ سابق صدر کے ملک میں واپس آنے سے پیپلزپارٹی کے وہ اپنے چار مطالبات حکومت سے منوانے کے لیے دباو¿ میں اضافہ کر سکیں گے۔پیپلز پارٹی کے ان چار مطالبات میں قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کا قیام، پاناما لیکس کی تحقیقات کے لیے اپنے تیار کردہ بل کی منظوری، چین پاکستان اقتصادی راہداری سے متعلق کل جماعتی کانفرنس میں کیے گئے فیصلوں کا اطلاق اور ملک کا کل وقتی بااختیار وزیرخارجہ تعینات کرنا شامل ہیں۔ بعض تجزیہ نگاروں کی رائے ہے کہ سابق صدر آصف علی زرداری کی وطن واپسی کو آئندہ انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کی تیاری کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیئے۔ اگر پیپلزپارٹی اور حزب مخالف کی دوسری بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف حکومت کے خلاف مل کر کوئی حکمت عملی بناتی ہیں تو وزیراعظم نواز شریف کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔"پاناما لیکس کا معاملہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے تحریک انصاف اور کسی حد تک پیپلز پارٹی نے بھی عوام میں ایک شعور اجاگر کیا ہے وفاقی دارلحکو مت کے سیاسی حلقوں کی رائے ہے کہ حکومت کی کوشش ہو گی کہ وہ پیپلزپارٹی کو تحریک انصاف کے ساتھ نہ ملنے دے۔"حکومت ان مطالبات کے ردعمل میں کہتی آرہی ہے کہ پیپلزپارٹی کو سیاست میں اس کے بقول مثبت کردار ادا کرتے ہوئے انسداد بدعنوانی کی قانون سازی سمیت ملکی ترقی جیسے اقدامات میں حکومت کا ساتھ دینا چاہیے۔ وزیر داخلہ کہہ چکے ہیں کہ محترمہ بینظیر بھٹو کا نام پاناما پیپرز میں ہے اگر شہید محترمہ بینظیر بھٹو کا نام پاناما پیپرز میں بدعنوانی کے حوالے سے آیا ہے تو وزیرداخلہ کو چاہیے کہ حزبِ اختلاف کا سینیٹ میں پاس کردہ بل فوری طور پر قومی اسمبلی سے بھی منظور کرائیں اور جو بھی بدعنوانی کا مرتکب پایا جاتاہے اسے پکڑ کر قوم کے سامنے لایا جائے۔
پیپلزپارٹی کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر کا موقف ہے کہ سپریم کورٹ کے انکوائری کمیشن کی جانب سے چوہدری نثار کو ذمہ دارقرار دے دیا گیا ہے لیکن چوہدری نثار نے پریس کانفرنس کے ذریعے حزبِ اختلاف کے خلاف بیان بازی کر کے جان چھڑانے کی کوشش کی ہے، حالانکہ انہیں فوری طور پر مستعفی ہوجانا چاہیے تھا۔ کو ئٹہ کمیشن کی رپورٹ سا منے آ نے کے بعد ایک ئنی محاز آرائی شروع ہو گی ہے اور اپوزیشن کے ہاتھ ایک نیا ایشو آگیا ہے کو ئٹہ کمیشن کی رپورٹ پر پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کا موقف قریب قر یب ہے اور اب ودنوں جماعتوں کومشتر کہ موقف اختیار کا موقع مل رہا ہے اگر اس موقع پر بھی دونوں جماعتوں نے مشتر کہ حکمت عملی اختیار نہ کی تو حکو مت پر دباﺅ نہیں بڑھایا جا سکے گا پیپلزپارٹی نے بھی حکو مت کے خلاف تحر یک چلانے کے لیے ہوم ورک شروع کر دیا ہے جبکہ دوسری جانب حکو مت نے بھی پیپلزپارٹی کی احتجاجی تحر یک چلا نے کے اعلانات کا جائزہ لینا شروع کردیا ہے ایک وفاقی وزیر نے بتا یا کہ اگر پیپلزپارٹی نے حکو مت کے خلاف کوئی احتجاجی تحر یک شروع کی تو حکو مت کا پیپلزپارٹی کے ساتھ وہ رویہ نہیں ہو گا جو پی ٹی آئی کے ساتھ ر ہا ہے بلکہ حکو مت آہینی ہاتھ سے پیپلزپارٹی کی تحر یک کا مقا بلہ کرے گی اس کے علاوہ حکو مت نے پیپلزپارٹی بعض اہم رہنماوں کے خلاف کرپشن کے کیسز بھی بنا نے کے لیے جائزہ لے رہی ہے لیکن بلاول بھٹو کے ساتھ جو نئی ٹیم ہے اس میں کو ئی شخص ایسا نہیں ہے جس پر کر پشن کے الزا مات ہوں پیپلزپارٹی نے ایک جا نب ایوان کے اندر حکومت کو آڑے ہاتھوں لینے کے لیے بلاول بھٹو کو قو می اسمبلی میں لانے کے لیے تیا ریاں مکمل کر لی ہیں ،دوسری جانب سابق صدر کی وطن واپسی سے نئے اہداف کے تعین کی نشاندہی ہونے لگی ہے۔ پیپلزپارٹی کے رہنماوں کی اکثر یت کی رائے ہے کہ سید خورشید شاہ بطور اپوزیشن لیڈر اپنا وہ کردار ادا نہیں کر سکے جو ان کو کر نا چاہیے تھا۔ اس لیے پیپلزپارٹی کی مر کز ی قیادت نے اپوزیشن لیڈر تبدیل کر نے کا فیصلہ کیا ہے۔ پیپلزپارٹی 27 دسمبر کو حکو مت کےخلاف تحریک چلانے کااعلان کر نے والی ہے جب پارٹی تنظیم مکمل نہیں ہے اب ایک ہفتہ میں تنظیم سازی کیسے کی جائے گی شہید بے نظیر بھٹو نے جس انداز میں احتجاجی تحریکیں چلائی ہیں ان کا بھی جائزہ لیا جا رہا ہے اور اسی انداز میں بھی تحریک چلانے پر غور کیا جارہا ہے پیپلزپارٹی میں یہ بحث بھی چل رہی ہے کہ احتجاجی تحر یک کے پہلے مر حلہ میںعوامی جلسے کئے جائیںاور دوسرے مرحلہ میں احتجاجی مظاہر ے کئے جاہیں جبکہ تیسر ے مر حلہ میں دہر نا سیاست کی جائے۔ پیپلزپارٹی انتخا بات تک اپنے کارکنوں کو محترک کر نے کی منصو بہ بندی بھی کر رہی ہے۔
اس دوران حکومت کی یہ مسلسل کوشش ہے کہ مارچ2018 تک حالات کو ہر طرح قابو میں رکھا جائے اور سینیٹ انتخابات میں اکثریت حا صل کی جائے وفاقی دار لحکو مت کے سیاسی پنڈتوں کی رائے ہے کہ مفاہمت کے چارہ گر آصف علی زرداری کی آمد کے بعد حکو مت پس پردہ پیپلزپارٹی سے مذاکرات بھی شروع کرسکتی ہے اور ان مذاکرات کے نتیجہ میں پیپلزپارٹی کے کچھ مطا لبات تسلیم بھی کئے جا سکتے ہےں۔ آصف علی زرداری کی آمد سے قبل بلاول بھٹو زرداری نے پارٹی کو کا فی متحرک کر دیا ہے پا کستان کے غر بیوں اور مفلوک الحال لوگوں نے ایک بار پھر اپنی نجات دہندہ پیپلزپارٹی سے امیدیں وابستہ کر لی ہیں پیپلزپارٹی کو بھی ایک پھر اپنے بنیادی منشور پر عمل کر نے کے لیے حکمت عملی بنا نا ہو گی ۔ملک کے غر یب طبقے نے آج تک پیپلزپارٹی سے کبھی بے وفائی نہیں کی کیو نکہ پیپلزپارٹی کی قیادت نے بھی غر بیوں کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دیا ہے۔