ممبئی میں ہونے والی ہلاکتوں پر حکومت ِ پاکستان نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا ۔ دہشت گردی کے اس واقعہ کی پرُ زور مذمت کی۔ ہلاکتوں پر دُکھ اور افسوس کا بھر پور اظہار کیا اور پس ماندگان سے اظہارِ ہمدردی ۔ حکومتِ پاکستان نے بھارت کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔ دہشت گردی کے واقعات ابھی جاری تھے کوئی تفتیش مکمل تو کجا شروع بھی نہ ہونے پائی تھی ۔ روایا ت کے مطابق بھارت نے ایک بار پھر ان واقعات کا الزام پاکستان پر دھرا ۔ وزیر اعظم من موہن سنگھ نے جو نرم خو اور نرم گفتار ہونے کی شہرت رکھتے ہیں دھمکی آمیز لہجے میں بیان کیا کہ دہشت گردی کا سرا پڑوسی ملک میں جا نکلتا ہے جس کی پوری قیمت ادا کرنا ہو گی۔وزیرِِ خارجہ پرنابھ مکر جی دیگر قائیدین بالخصوص بھارت کی میڈیا نے سخت بغض اور عناد بھرا رویہ اختیار کیا ۔ عوام کے جذبات کو بھڑکایا۔بعض کوتاہ عقل، عاقبت نااندیش رہنمائوں اور میڈیا کے نمائندوں نے اپنی حکومت سے پاکستان پر حملہ کر دینے کا مطالبہ کیا ۔ ان دو پڑوسی ملکوں کے درمیان جنگ کیا رُخ اختیار کر سکتی تھی، اندازہ لگالینا دشوار نہ ہونا چاہئے۔جوہری قوت سے لیس پاکستان او ربھارت کے درمیان جنگ کا مشورہ کوئی دیوانہ ہی اپنی حکومت کو دے سکتا ہے ۔ مقابلہ میں پاکستان میں حکومت اور میڈیا دونوں نے بلوغت اور سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ۔ دونوں حکومتوں کو تعاون اور سکون کا مشورہ دیا اور عوام الناس کو بھڑانے کی بجائے سمجھایا کہ جنگ کس قدر ہولنا ک اور خطرناک ہو سکتی ہے۔
بھارت حکومت کے جنگی جنون کی ایک وجہ اس وقت انٹیلی جنس کی مکمل ناکامی پر عوام کا شدید ردعمل ہو سکتا ہے۔ عوام بھنائے ہوئے تھے کہ اتنا بڑا واقعہ ہو جائے جس میں 200 کے قریب لوگ ہلاک ہو جائیں اور انٹیلی جنس ایجنسیز سوتی رہ جائیں۔ مرکزی حکومت کے خلاف ممبئی میں شدید مظاہرے ہوئے۔ عوامی ردِ عمل کے سامنے سر جھکانے کے علاوہ حکومت کے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا ۔ وفاقی وزیرِ داخلہ ، انٹیلی جنس چیف ، مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اُن متعدد لوگوں میں شریک تھے جن کو استعفیٰ دینا پڑا ( ہر چند کہ اس قسم کی کوئی روایت ابھی تک ہمارے ملک میں قائم نہیں ہو سکی) پھر بھی عوام کا غیض و غضب مکمل طور پر قابو میں نہ آیا۔ اس کے علاوہ ریاستی اور کچھ عرصہ بعد وفاقی انتخابات کا سامنا بھی حکمران کا نگریس الحاق کو تھا۔حکومت کمزور ہونے کا تاثر نہ دینا چاہتی تھی اور ثابت کرنے پر مصر تھی کہ پاکستان جیسے ملک کو بھارتی حکومت اچھی طرح سبق سکھا سکتی ہے۔ یہ اور بات کہ ممبئی سے پہلے بھی بھارت دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ 40 ہزار سے زائد بھارتی باشندے دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔ ہلاک شدگان کی یہ تعداد محض عراق سے کم ہے ورنہ کسی اور ملک میں اتنے افراد دہشت گردوں کے ہاتھوں لقمئہ اجل نہیں بنے۔ بھارت کے 17 صوبوں اور 803 اضلاع میں سے 231 میں علیحدگی اور دہشت گردی کی تحریکیں چل رہی ہیں ۔ انتہا پسند بھارت میں بھی موجود ہیں ۔ جن کے ہاتھوں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی زندگی کو ہر لمحہ خطرات لاحق رہتے ہیں ۔ ایسا نہیں کہ دیگر اقلیتیں بہت سکو ن کی زندگی گزار رہی ہیں۔ آئے دن مسیحی لوگوں، ان کی عبادت گاہوں پر حملے اور قتل و غارت کوئی ان دیکھے واقعات نہیں ۔ دلت اور شودر طبقہ علیحدہ ان \\\"اونچی ذات\\\" کے لوگوں سے طرح طرح کے مظالم کا شکار رہتے ہیں ۔ لیکن یہ ایسے واقعات ہیں جن پر مغربی اقوام امریکہ یا یورپی یونیں پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا نہ اُنہیں تکلیف ہوتی ہے۔ پاکستان میں مساجد پر حملے دہشت گردی کے واقعات سے ہزاروںبے گناہ لقمئہ اجل بنے ۔ امریکہ کو کوئی تکلیف نہیںہوئی۔ اسلام آباد کا میرٹ ہوٹل کہیں زیادہ بری طرح تباہ ہوا لیکن امریکہ اور دیگر مغربی قائیدین کی زبان سے ہمدردی کے دو بول بھی مشکل ہی سے ادا ہو سکے۔
اقوامِ مغرب \\\" مسلم پاکستان کے مقابلہ میں غیر مسلم بھارت \\\" کو ہمیشہ ترجیحی سلوک کا حقدار سمجھتی رہی ہیں ۔ بھارت کچھ بھی کرے وہ راستی پر اور پاکستان کچھ نہ بھی کرے توقصور وار ۔ اسرائیل اور بھارت ایٹمی قوتیں بن جائیں تو انسانی حقوق کے علمبر داروں کو کوئی پریشانی نہیں ۔ اگر پاکستان مدافعانہ طور پر جوہری دھماکہ کرے تو گردن زدنی اور سنگین اقتصادی پابندیوںکا حقدار۔ بھارت بلوچستان میں افراتفری پھیلا کر حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرے تو مغرب نظر انداز کر دے۔ یہ\\\" سیکولرجمہوری \\\" ملک پاکستان کے شمال مغربی حصہ میں دہشت گردی کے فروغ میں روپیہ پانی کی طرح بہائے تو اس سے کوئی مواخذہ نہ ہو۔ مقابلہ میں پاکستان کی رفاحی تنظیم جو کلیتاً فلاح عامًہ کے کاموں میں مصروف ہو(جیسے تعلیم ، صحت وغیرہ) تو اسے دہشت گرد قرار دیکر ہر قسم کی پابندی کا نشانہ بنا دیا جائے خود ہی الزام تراشی کریں خود ہی فیصلہ سُنا دیں۔
؎ہوئے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
مبئی کے واقعات کے بعد ڈھیروں رہنما بھارت یاترا کے لئے دہلی تشریف لائے۔ بھارت کی دلجوئی کی ،پاکستان کو شدید الفاظ میں ہدفِ تنقید بنایا اور قرار دیا کہ پاکستان کی سر زمین بھارت کے خلاف حملہ میں استعمال ہوتی ہے۔ اور یہ کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ شفاف طریقہ پر تعاون کرنا چاہئے۔ اور جو لوگ اس حملہ میں شرکت یا اعانت کے مرتکب ہوئے ہیں اُنھیں قانون کے کٹہرے میں لانا چاہئے تاکہ اس قسم کے اقدامات کا سدِباب ہو سکے۔ اور یہ خطہ دہشت گردوں سے محفوظ رہے۔ امریکہ کی وزیرِ خارجہ کونڈالیزا رائس اور رچرڈ بائوچر سب سے پہلے برصغیر کے دورے پر پہنچے۔ وزیر خارجہ نے بیان دیا کہ ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ پاکستان کی سر زمین دہشت گردی کے ارتکاب کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ بھارت کے بعد وہ اسلام آباد بھی آئیں اور پاکستان کو درست اقدامات بہ سرعت کرنے کی تلقین فرمائی۔ مراد یہ تھی کہ پاکستان بھارت کے حسب منشااور حسب خواہش اقدام کرے اور جن جن لوگوں کو بھارت کہے انہیں گرفتار کرکے بھارت کے حوالے کرے۔ جس ہرح جنرل مشرف کے دور میں پاکستانیوں کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا جاتا رہا ہے۔اُسی طرح لوگوں کو گرفتار کر کے امریکہ کے سٹریٹجیک ساتھی بھارت کے حوالے کیا جائے کہ بھارت خود کو خطہ میں امریکہ جتنی اہمیت دیتا ہے۔ اور سمجھتا ہے کہ جو امریکہ کر سکتا ہے وہی بھارت بھی کر سکتا ہے۔ جن لوگوںکو گرفتار کیا جانا مطلوب ہواُن کے خلاف شہادت فراہم کرنے کی ضرورت نہ امریکہ نے محسوس کی نہ بھارت محسوس کرتا ہے ۔ بس حکم کی تعمیل ہونی چاہئے۔سیکر ٹری رائس بھارت کے بعد مختصر سے قیام کے لئے اسلام آباد بھی آئیں۔ یہاں بھی اُنہوں نے دہلی والے بیانات کا اعادہ کیا ۔ صرف الفاظ میں تھوڑی بہت ترمیم نظر آئی۔ امریکہ پہنچ کر ایک انٹر ویو میں محترمہ نے فرمایا کہ نا قابلِ تردید شہادت موجودہے کہ پاکستان کی سرزمین اس حملہ کے لئے استعمال ہوئی البتہ پاکستان کی حکومت یا کسی ایجنسی کے ملوث ہونے کی شہادت موجود نہیں ۔ رائس صاحبہ کے بعد حالیہ صدارتی انتخاب میں ریپبلیکن پارٹی کے امیدوارجان میکین پاکستان تشریف لائے ۔ انھوں نے بھی \\\" پاکستان کی سرزمین کو دہشت گردوں نے استعمال کیا\\\" والی بات ذرا ذیادہ شدت سے دہرائی۔موصوف نے بھی فوری ، موثر ، شفاف اور بھارت کے اطمینان کے مطابق کاروائی پر زور دیا اور اس کو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے بہتری کے واسطے لازمی ٹھیرایا۔سنیٹر مکین کے ساتھ دو اور سینٹر بھی تشریف لائے تھے۔ سب کی رائے مشترک تھی۔ مکین صاحب نے واشنگٹن لوٹ کر ارشاد فرمایا کہ بھارت کو پاکستان میں کاروائی کا حق پہنچتا ہے۔ سینیٹر نے یہ بیان غالباً اس وجہ سے دیا ہو گا کہ امریکہ کو بھی تو پاکستان کے داخلی علاقوں میں کاروائی کرتے ایک زمانہ بیت گیا ۔ جاسوس طیارے ہمارے شمال مغربی علاقوں پر بلا روک ٹوک میزائیلوں سے حملے کرتے ہیں اور اس طرح سینکڑوں پاکستانیوں کو ہلاک کر چکے ہیں جن میںخواتین اور بچوں کی بھی خاصی بڑی تعداد شامل ہے۔ کوئی قابلِ ذکر غیر ملکی ہدف ان طیاروں کو شاید ہی ملتاہو۔ہلاکتیں تقریباً تمام کی تمام پاکستانیوں ہی کی ہوئی ہیں ۔ ہماری حکومت محض احتجاج کر کے اپنا فرض نبھاتی رہتی ہے اور بس۔ سینیٹر مکین کے بعد برطانیہ کے وزیر اعظم گارڈن برائون کابل ، اسلام آباد اور دہلی کے دورہ پر تشریف لائے۔ مضمون اس دورے کا بھی بیشتر دوروں والا تھا۔ انھوں نے بھی پاکستان کو تلقین کرنا ضروری سمجھا کہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا جائے۔ مزید فرمایا کہ گرفتار شدگان سے برطانوی عہدے داروں سے تفتیش کی اجازت دی جائے۔ موصوف کے لہجہ سے لگتا تھا کہ 60/62 سال گزر جانے کے بعد بھی وہ گویا پاکستان کو ایک برطانوی نو آبادی سمجھ رہے ہیں۔ جتنا غیرمعقول یہ مطالبہ تھا اتنی ہی سرعت سے حکومتِ پاکستان نے اسے مسترد کیا۔ ایک خاص بات جو براون صاحب کے قیام کے دوران ہوئی یہ تھی کہ بھارت کی فضائیہ نے دو بار پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔ ہماری فضائیہ جو چوکس متعدد اور پہلے سے الرٹ تھی فوراًحرکت میں آئی اور بھرتی طیارے واپس لوٹ گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فضائی خلاف ورزی کی مزمت پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک نے نہیں کی ۔ گارڈن براون اس وقت اسی علاقہ میں تھے ۔ پھوٹی زبان سے اس کے متعلق ایک لفظ نہ کہہ سکے ۔
ہمیں نصیحت اور لعن طعن کرنے والوں میں تازہ ترین اضافہ سنیٹرجان کیری کا ہوا جو ان دنوں برصغیر کے دورہ پر ہیں۔ اپنی بھارتی یاترا کے دوران سنیٹر کیری نے ممبئی واقعات کی ذمہ داری لشکرِ طیبہ پر ڈالی ہے۔ امریکی قائدین اور برطانوی وزیر اعظم گارڈن براون قریب قریب یک زبان ہو کر ایک بات دہرائے جاتے ہیں ۔کیری نے دہلی قیام کے دوران یہ بھی کہا کہ لشکرِ طیبہ کی تشکیل I.S.I کے ہاتھوں ہوئی ہر چند کہ لشکر کی تازہ دہشت گردی میں I.S.I کا کوئی ہاتھ بہیں ہے۔ سنیٹر کیری نے پاکستانی قیادت کو مشورہ دیا کہ I.S.I کو لگام دیں اور اُسے سول کنٹرول کے تابع کیا جائے ۔ بڑی سادگی سے کیری صاحب نے کہا کہ اُن کے ملک میں ایسی خفیہ تنظیمیں حکومت کانگریس اور امریکی عوام کے تابع ہیں۔
کاش سنیٹر کیری ایسے بیان دینے سے پہلے اپنی تاریخ کے چند اوراق پلٹ کر پڑھ لیتے ۔ زیادہ دیر کی بات نہیں C.I.A ایسے اقدامات کرتی رہی ہے جس کی عام امریکی شہریوں کو بھاپ تک نہیں لگی۔ عام امریکی شریف النفس اور ہمدرد ہوتے ہیں۔ وہ اپنی اس خفیہ تنظیم کی حرکات کو کبھی بھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ C.I.A ایران ، چلی ، انڈو نیشیا اورکیوبا جیسے ممالک میںقتل ، عمد قتل جیسے مکروہ اور بھیانک اقدامات میں ملوث رہی ہے۔ اس کے علاوہ نیکاراگوا جیسے ممالک میں رقوم فراہم کر کے جنگ وجدل کا اہتمام کیا ۔ ایک اور حقیقت کا ادراک اور اعتراف سنیٹر کیری اور ان کے \\\" ہم نوائوں\\\" کو کرنا ہو گا۔ ہوسکتا ہے I.S.I کا کوئی ہاتھ لشکر طیبہ جیسی تنظیم کے ساتھ رہا ہو لیکن یہ سب سویت یونین کی افغانستان میں مداخلت کے وقت ایک حکمتِ عملی کے تحت ہوا اور یہ کا م C.I.A کے علم اور مدد کے ساتھ ہوا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس تنظیم کا تعلق خطرناک جہادی تنظیموں سے امریکہ کی آنکھوں کے سامنے اور آشیرباد سے ہوا۔ آج لشکر طیبہ کے وجود کی ذمہ داری I.S.I پر ڈال دینا بہت سہل نظر آتا ہے۔ اور ایسے مشورے اُس سے بھی آسان کہ اس تنظیم کو سول کنٹرول کے ماتحت ہونا چاہئے۔ 1950 سے آج تک پاکستان اور ایسے ہی ممالک میں جمہوری حکومتوں کو کوتاراج کر کے فوجی عامروں کے لئے راستہ صاف کرنا اور خفیہ ایجنسیز کے ذریعہ سول انتظامیہ کو غیر مستحکم کرنے کے اقدامات کے بعد اب ہمیں پندونصائح سے سرفراز کرنے والوں کو ذرا بھی خیال نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں کسے کہہ رہے ہیں۔
اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
امریکی قائدین کو گریبان میں جھانک کر اپنے ماضی پر نظر ڈالنی چاہئے اور دیانت داری سے فیصلہ کرنا چاہئے کہ اس خطہ میں ایسی دہشت گرد تنظیموں کے قیام میں خود امریکہ کا کتنا حصہ ہے ۔ پھر اُتنی ہی دیانت داری سے ان کے خاتمے میں ہم سے تعاون کریں۔ محض الزام تراشی کافی نہیں ہے ۔
بھارت حکومت کے جنگی جنون کی ایک وجہ اس وقت انٹیلی جنس کی مکمل ناکامی پر عوام کا شدید ردعمل ہو سکتا ہے۔ عوام بھنائے ہوئے تھے کہ اتنا بڑا واقعہ ہو جائے جس میں 200 کے قریب لوگ ہلاک ہو جائیں اور انٹیلی جنس ایجنسیز سوتی رہ جائیں۔ مرکزی حکومت کے خلاف ممبئی میں شدید مظاہرے ہوئے۔ عوامی ردِ عمل کے سامنے سر جھکانے کے علاوہ حکومت کے پاس کوئی اور چارہ نہ تھا ۔ وفاقی وزیرِ داخلہ ، انٹیلی جنس چیف ، مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اُن متعدد لوگوں میں شریک تھے جن کو استعفیٰ دینا پڑا ( ہر چند کہ اس قسم کی کوئی روایت ابھی تک ہمارے ملک میں قائم نہیں ہو سکی) پھر بھی عوام کا غیض و غضب مکمل طور پر قابو میں نہ آیا۔ اس کے علاوہ ریاستی اور کچھ عرصہ بعد وفاقی انتخابات کا سامنا بھی حکمران کا نگریس الحاق کو تھا۔حکومت کمزور ہونے کا تاثر نہ دینا چاہتی تھی اور ثابت کرنے پر مصر تھی کہ پاکستان جیسے ملک کو بھارتی حکومت اچھی طرح سبق سکھا سکتی ہے۔ یہ اور بات کہ ممبئی سے پہلے بھی بھارت دہشت گردی کا شکار رہا ہے۔ 40 ہزار سے زائد بھارتی باشندے دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔ ہلاک شدگان کی یہ تعداد محض عراق سے کم ہے ورنہ کسی اور ملک میں اتنے افراد دہشت گردوں کے ہاتھوں لقمئہ اجل نہیں بنے۔ بھارت کے 17 صوبوں اور 803 اضلاع میں سے 231 میں علیحدگی اور دہشت گردی کی تحریکیں چل رہی ہیں ۔ انتہا پسند بھارت میں بھی موجود ہیں ۔ جن کے ہاتھوں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی زندگی کو ہر لمحہ خطرات لاحق رہتے ہیں ۔ ایسا نہیں کہ دیگر اقلیتیں بہت سکو ن کی زندگی گزار رہی ہیں۔ آئے دن مسیحی لوگوں، ان کی عبادت گاہوں پر حملے اور قتل و غارت کوئی ان دیکھے واقعات نہیں ۔ دلت اور شودر طبقہ علیحدہ ان \\\"اونچی ذات\\\" کے لوگوں سے طرح طرح کے مظالم کا شکار رہتے ہیں ۔ لیکن یہ ایسے واقعات ہیں جن پر مغربی اقوام امریکہ یا یورپی یونیں پر کوئی بوجھ نہیں پڑتا نہ اُنہیں تکلیف ہوتی ہے۔ پاکستان میں مساجد پر حملے دہشت گردی کے واقعات سے ہزاروںبے گناہ لقمئہ اجل بنے ۔ امریکہ کو کوئی تکلیف نہیںہوئی۔ اسلام آباد کا میرٹ ہوٹل کہیں زیادہ بری طرح تباہ ہوا لیکن امریکہ اور دیگر مغربی قائیدین کی زبان سے ہمدردی کے دو بول بھی مشکل ہی سے ادا ہو سکے۔
اقوامِ مغرب \\\" مسلم پاکستان کے مقابلہ میں غیر مسلم بھارت \\\" کو ہمیشہ ترجیحی سلوک کا حقدار سمجھتی رہی ہیں ۔ بھارت کچھ بھی کرے وہ راستی پر اور پاکستان کچھ نہ بھی کرے توقصور وار ۔ اسرائیل اور بھارت ایٹمی قوتیں بن جائیں تو انسانی حقوق کے علمبر داروں کو کوئی پریشانی نہیں ۔ اگر پاکستان مدافعانہ طور پر جوہری دھماکہ کرے تو گردن زدنی اور سنگین اقتصادی پابندیوںکا حقدار۔ بھارت بلوچستان میں افراتفری پھیلا کر حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرے تو مغرب نظر انداز کر دے۔ یہ\\\" سیکولرجمہوری \\\" ملک پاکستان کے شمال مغربی حصہ میں دہشت گردی کے فروغ میں روپیہ پانی کی طرح بہائے تو اس سے کوئی مواخذہ نہ ہو۔ مقابلہ میں پاکستان کی رفاحی تنظیم جو کلیتاً فلاح عامًہ کے کاموں میں مصروف ہو(جیسے تعلیم ، صحت وغیرہ) تو اسے دہشت گرد قرار دیکر ہر قسم کی پابندی کا نشانہ بنا دیا جائے خود ہی الزام تراشی کریں خود ہی فیصلہ سُنا دیں۔
؎ہوئے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
مبئی کے واقعات کے بعد ڈھیروں رہنما بھارت یاترا کے لئے دہلی تشریف لائے۔ بھارت کی دلجوئی کی ،پاکستان کو شدید الفاظ میں ہدفِ تنقید بنایا اور قرار دیا کہ پاکستان کی سر زمین بھارت کے خلاف حملہ میں استعمال ہوتی ہے۔ اور یہ کہ پاکستان کو بھارت کے ساتھ شفاف طریقہ پر تعاون کرنا چاہئے۔ اور جو لوگ اس حملہ میں شرکت یا اعانت کے مرتکب ہوئے ہیں اُنھیں قانون کے کٹہرے میں لانا چاہئے تاکہ اس قسم کے اقدامات کا سدِباب ہو سکے۔ اور یہ خطہ دہشت گردوں سے محفوظ رہے۔ امریکہ کی وزیرِ خارجہ کونڈالیزا رائس اور رچرڈ بائوچر سب سے پہلے برصغیر کے دورے پر پہنچے۔ وزیر خارجہ نے بیان دیا کہ ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ پاکستان کی سر زمین دہشت گردی کے ارتکاب کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ بھارت کے بعد وہ اسلام آباد بھی آئیں اور پاکستان کو درست اقدامات بہ سرعت کرنے کی تلقین فرمائی۔ مراد یہ تھی کہ پاکستان بھارت کے حسب منشااور حسب خواہش اقدام کرے اور جن جن لوگوں کو بھارت کہے انہیں گرفتار کرکے بھارت کے حوالے کرے۔ جس ہرح جنرل مشرف کے دور میں پاکستانیوں کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا جاتا رہا ہے۔اُسی طرح لوگوں کو گرفتار کر کے امریکہ کے سٹریٹجیک ساتھی بھارت کے حوالے کیا جائے کہ بھارت خود کو خطہ میں امریکہ جتنی اہمیت دیتا ہے۔ اور سمجھتا ہے کہ جو امریکہ کر سکتا ہے وہی بھارت بھی کر سکتا ہے۔ جن لوگوںکو گرفتار کیا جانا مطلوب ہواُن کے خلاف شہادت فراہم کرنے کی ضرورت نہ امریکہ نے محسوس کی نہ بھارت محسوس کرتا ہے ۔ بس حکم کی تعمیل ہونی چاہئے۔سیکر ٹری رائس بھارت کے بعد مختصر سے قیام کے لئے اسلام آباد بھی آئیں۔ یہاں بھی اُنہوں نے دہلی والے بیانات کا اعادہ کیا ۔ صرف الفاظ میں تھوڑی بہت ترمیم نظر آئی۔ امریکہ پہنچ کر ایک انٹر ویو میں محترمہ نے فرمایا کہ نا قابلِ تردید شہادت موجودہے کہ پاکستان کی سرزمین اس حملہ کے لئے استعمال ہوئی البتہ پاکستان کی حکومت یا کسی ایجنسی کے ملوث ہونے کی شہادت موجود نہیں ۔ رائس صاحبہ کے بعد حالیہ صدارتی انتخاب میں ریپبلیکن پارٹی کے امیدوارجان میکین پاکستان تشریف لائے ۔ انھوں نے بھی \\\" پاکستان کی سرزمین کو دہشت گردوں نے استعمال کیا\\\" والی بات ذرا ذیادہ شدت سے دہرائی۔موصوف نے بھی فوری ، موثر ، شفاف اور بھارت کے اطمینان کے مطابق کاروائی پر زور دیا اور اس کو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کے بہتری کے واسطے لازمی ٹھیرایا۔سنیٹر مکین کے ساتھ دو اور سینٹر بھی تشریف لائے تھے۔ سب کی رائے مشترک تھی۔ مکین صاحب نے واشنگٹن لوٹ کر ارشاد فرمایا کہ بھارت کو پاکستان میں کاروائی کا حق پہنچتا ہے۔ سینیٹر نے یہ بیان غالباً اس وجہ سے دیا ہو گا کہ امریکہ کو بھی تو پاکستان کے داخلی علاقوں میں کاروائی کرتے ایک زمانہ بیت گیا ۔ جاسوس طیارے ہمارے شمال مغربی علاقوں پر بلا روک ٹوک میزائیلوں سے حملے کرتے ہیں اور اس طرح سینکڑوں پاکستانیوں کو ہلاک کر چکے ہیں جن میںخواتین اور بچوں کی بھی خاصی بڑی تعداد شامل ہے۔ کوئی قابلِ ذکر غیر ملکی ہدف ان طیاروں کو شاید ہی ملتاہو۔ہلاکتیں تقریباً تمام کی تمام پاکستانیوں ہی کی ہوئی ہیں ۔ ہماری حکومت محض احتجاج کر کے اپنا فرض نبھاتی رہتی ہے اور بس۔ سینیٹر مکین کے بعد برطانیہ کے وزیر اعظم گارڈن برائون کابل ، اسلام آباد اور دہلی کے دورہ پر تشریف لائے۔ مضمون اس دورے کا بھی بیشتر دوروں والا تھا۔ انھوں نے بھی پاکستان کو تلقین کرنا ضروری سمجھا کہ دہشت گردوں کو گرفتار کیا جائے۔ مزید فرمایا کہ گرفتار شدگان سے برطانوی عہدے داروں سے تفتیش کی اجازت دی جائے۔ موصوف کے لہجہ سے لگتا تھا کہ 60/62 سال گزر جانے کے بعد بھی وہ گویا پاکستان کو ایک برطانوی نو آبادی سمجھ رہے ہیں۔ جتنا غیرمعقول یہ مطالبہ تھا اتنی ہی سرعت سے حکومتِ پاکستان نے اسے مسترد کیا۔ ایک خاص بات جو براون صاحب کے قیام کے دوران ہوئی یہ تھی کہ بھارت کی فضائیہ نے دو بار پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔ ہماری فضائیہ جو چوکس متعدد اور پہلے سے الرٹ تھی فوراًحرکت میں آئی اور بھرتی طیارے واپس لوٹ گئے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس فضائی خلاف ورزی کی مزمت پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک نے نہیں کی ۔ گارڈن براون اس وقت اسی علاقہ میں تھے ۔ پھوٹی زبان سے اس کے متعلق ایک لفظ نہ کہہ سکے ۔
ہمیں نصیحت اور لعن طعن کرنے والوں میں تازہ ترین اضافہ سنیٹرجان کیری کا ہوا جو ان دنوں برصغیر کے دورہ پر ہیں۔ اپنی بھارتی یاترا کے دوران سنیٹر کیری نے ممبئی واقعات کی ذمہ داری لشکرِ طیبہ پر ڈالی ہے۔ امریکی قائدین اور برطانوی وزیر اعظم گارڈن براون قریب قریب یک زبان ہو کر ایک بات دہرائے جاتے ہیں ۔کیری نے دہلی قیام کے دوران یہ بھی کہا کہ لشکرِ طیبہ کی تشکیل I.S.I کے ہاتھوں ہوئی ہر چند کہ لشکر کی تازہ دہشت گردی میں I.S.I کا کوئی ہاتھ بہیں ہے۔ سنیٹر کیری نے پاکستانی قیادت کو مشورہ دیا کہ I.S.I کو لگام دیں اور اُسے سول کنٹرول کے تابع کیا جائے ۔ بڑی سادگی سے کیری صاحب نے کہا کہ اُن کے ملک میں ایسی خفیہ تنظیمیں حکومت کانگریس اور امریکی عوام کے تابع ہیں۔
کاش سنیٹر کیری ایسے بیان دینے سے پہلے اپنی تاریخ کے چند اوراق پلٹ کر پڑھ لیتے ۔ زیادہ دیر کی بات نہیں C.I.A ایسے اقدامات کرتی رہی ہے جس کی عام امریکی شہریوں کو بھاپ تک نہیں لگی۔ عام امریکی شریف النفس اور ہمدرد ہوتے ہیں۔ وہ اپنی اس خفیہ تنظیم کی حرکات کو کبھی بھی پسندیدگی کی نگاہ سے نہیں دیکھتے۔ C.I.A ایران ، چلی ، انڈو نیشیا اورکیوبا جیسے ممالک میںقتل ، عمد قتل جیسے مکروہ اور بھیانک اقدامات میں ملوث رہی ہے۔ اس کے علاوہ نیکاراگوا جیسے ممالک میں رقوم فراہم کر کے جنگ وجدل کا اہتمام کیا ۔ ایک اور حقیقت کا ادراک اور اعتراف سنیٹر کیری اور ان کے \\\" ہم نوائوں\\\" کو کرنا ہو گا۔ ہوسکتا ہے I.S.I کا کوئی ہاتھ لشکر طیبہ جیسی تنظیم کے ساتھ رہا ہو لیکن یہ سب سویت یونین کی افغانستان میں مداخلت کے وقت ایک حکمتِ عملی کے تحت ہوا اور یہ کا م C.I.A کے علم اور مدد کے ساتھ ہوا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس تنظیم کا تعلق خطرناک جہادی تنظیموں سے امریکہ کی آنکھوں کے سامنے اور آشیرباد سے ہوا۔ آج لشکر طیبہ کے وجود کی ذمہ داری I.S.I پر ڈال دینا بہت سہل نظر آتا ہے۔ اور ایسے مشورے اُس سے بھی آسان کہ اس تنظیم کو سول کنٹرول کے ماتحت ہونا چاہئے۔ 1950 سے آج تک پاکستان اور ایسے ہی ممالک میں جمہوری حکومتوں کو کوتاراج کر کے فوجی عامروں کے لئے راستہ صاف کرنا اور خفیہ ایجنسیز کے ذریعہ سول انتظامیہ کو غیر مستحکم کرنے کے اقدامات کے بعد اب ہمیں پندونصائح سے سرفراز کرنے والوں کو ذرا بھی خیال نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں کسے کہہ رہے ہیں۔
اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
امریکی قائدین کو گریبان میں جھانک کر اپنے ماضی پر نظر ڈالنی چاہئے اور دیانت داری سے فیصلہ کرنا چاہئے کہ اس خطہ میں ایسی دہشت گرد تنظیموں کے قیام میں خود امریکہ کا کتنا حصہ ہے ۔ پھر اُتنی ہی دیانت داری سے ان کے خاتمے میں ہم سے تعاون کریں۔ محض الزام تراشی کافی نہیں ہے ۔