مقبوضہ کشمیر کی صورت حال، قائمہ کمیٹی کے حکومتی کارکردگی پر سوالات
اسلام آباد(محمدرضوان ملک )سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور کشمیر و شمالی علاقہ جات نے مقبوضہ کشمیر کی تازہ ترین صورت حال اور بھارت کے حالیہ اقدامات کے جواب میں حکومتی کارکردگی پر سوالات اٹھادئیے۔ کمیٹی نے قراردیا کہ گزشتہ 16 دنوں میں اس حوالے سے اٹھائے جانے والے حکومتی اقدامات کسی صورت بھی تسلی بخش قرار نہیں دئیے جاسکتے۔ راجہ ظفر الحق ، رحمان ملک سلیم ضیا ء سراج الحق اور دیگر نے کہا یہ سب پارلیمنٹ سے باہر خارجہ پالیسی بنانے کا نتیجہ ہے کہ ہم دنیا میں تنہاء ہور ہے ہیں۔حکومتی پالیسی اس حوالے سے کنفیوژ ہے ۔وزیرخارجہ اور وزیراعظم کے بیانات میں بھی تضاد ہے۔ حکومتی سینٹر وسیم شہزاد نے سفارش کی کہ امریکہ اس وقت افغانستان میں مشکلات کا شکار ہے۔ ہمیں اس معاملے میں امریکہ کو اپنا کندھا مفت پیش کرنے کی بجائے اس معاملے کو مسئلہ کشمیر سے منسلک کرنا چاہیے۔ترجمان دفتر خارجہ اور دیگر سینٹرز کا اس پر اتفاق تھا کہ بھارت اور ایک پلوامہ ٹو کرسکتا ہے اور ایسے مکار دشمن سے کسی اچھائی کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ ہمیں کشمیر پر اپنی پالیسی تبدیل کرنا ہوگی۔سینٹر ز نے اس پر بھی تشویش کا اظہار کیا کہ اس حوالے سے ہم مسلم دنیا میںتنہاء ہورہے ہیں۔مودی اور ٹرمپ اندر سے ایک ہیں ہمارے کان توا س وقت کھڑے ہو جانے چاہیے تھیں جب ٹرمپ نے ثالثی کا کہا ۔اسلامی ممالک ہمارا ساتھ نہیں دے رہے تو امریکہ کیا دے گا۔ سیکورٹی کونسل سے بھی کسی بہتری کی توقع نہیں ہے۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے دوستوں اور دشمنوں کو پہچانیں۔بین الاقوامی عدالت انصاف میں جانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ سینٹر نگہت مرزاء نے کہا کہ یہ پاکستان کی سلامتی اور بقاء کا مسئلہ ہے ۔ہمیں ایک دوسرے کو کافر اور غدار کہنا بند کرنا ہوگا۔ جو ایسا کہے اس کو جیل میں ڈالا جائے ۔ ہم کدھر جارہے ہیں۔سینٹر رحمان ملک نے کہا کہ مودی نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اپنے ووٹرز سے ان سب کا وعدہ کیا تھا اور اس نے عوام سے کیا وعدہ نبھایا ہے ہم دوستی کا ہاتھ بڑھاتے رہے اور وہ اپنے منشور پر چلتے رہے ۔ انہوں نے کہا حکومت اس حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہے ہم نے مودی آرایس ایس گٹھ جو ڑ کا بروقت ادراک نہ کیا ۔ انہوںنے کہا کہ ہمیں کشمیر پر اپنی پالیسی تبدیل کرنا ہوگی۔سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے امور کشمیر و شمالی علاقہ جات میںمقبوضہ کشمیر کی صورت حال کو زیر بحث لایا گیا لیکن وزیرخارجہ اور سیکرٹری خارجہ دونوں نے اجلاس میں شرکت نہ کی۔کشمیر پر بحث طول پکڑنے کے باعث سی پیک اور گلگت بلتستان پر بات نہ ہوسکی۔۔سینٹر سراج الحق نے کہا ٹرمپ کے بیانات تو تبدیل ہوتے رہتے ہیںان پر کسی صورت اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔مذاکرات بھی اس سے کئے جاتے ہیں جو کسی ضابطے کا پابند ہو ،مذاکرات کے لئے صرف آپ کا حق پر ہونا کافی نہیں دنیا اپنے مفادات کو دیکھتی ہے۔