مضمرات،وجوہات اور اثرات پیر فاروق بہاؤالحق شاہ
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں فوج اور جمہوریت ساتھ ساتھ چلتے آئے ہیں۔کبھی جمہوریت توانا ہوتی ہے تو کبھی فوجی حکمران غالب نظر آتے ہیں ملکی سیاسی تاریخ کے تناظر میں اگر جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ دیکھا جائے تو کئی دلچسپ پہلو سامنے آتے ہیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ پہلے آرمی چیف نہیں جن کی مدت ملازمت میں توسیع کی گئی ہو۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اس طرح کے کئی واقعات موجود ہیں ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کی مدت ملازمت میں توسیع کی جاتی رہی۔ پھر جنرل ضیاء الحق کی مدت ملازمت میں توسیع ہوتی رہی۔ ان کا انداز ذکر کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ موصوف خود کو اپنے ہی دستخط سے توسیع کا فرمان جاری کر دیتے تھے۔ شائد وہ فرامین حکومت پاکستان کے نوادرات کا حصہ ہوں۔ جنرل ضیاء الحق 12سال تک آرمی چیف رہے اور ملک کے سربراہ بھی۔ ان کے بعد جنرل مشرف آئے تو انہو ںنے بھی ملازمت کی مدت میں اضافہ کے لئے تین سال کا تکلف ہی ختم کر دیا اور خود کو غیر معینہ مدت کے لئے آرمی چیف مقرر کر دیا اور فوجی امور کو چلانے کیلئے ایک وائس چیف آف آرمی سٹاف کا تقرر کر دیا۔یہ عہدہ جنرل ضیاء الحق نے تخلیق کیا جس کو جنرل مشرف نے ایک مرتبہ پھر بھرپور زندگی عطا کی۔ تیسری توسیع جنرل کیانی کو پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں دی گئی۔ جنرل کیانی 2007میں آرمی چیف بنے اور 2013میں مدت ملازمت مکمل کر کے سبکدوش ہو گئے۔ جنرل باجوہ کی تقرری پر تبصرہ سے قبل اگر دیگر ممالک میں اس طرح کی مثالیں تلاش کی جائے تو وہ بھی با آسانی مل جاتی ہیں ۔چینی نیوی کے سربراہ ایڈمرل ووشنگ لی کو گیارہ سال تک بحریہ کا سربراہ رہنے دیا گیا۔انہوں نے2006سے 2017تک تحریر تک بحریہ کی کمان کی۔ اسی طرح روس نے بھی اپنے افواج کو خوب ترقی دی لیکن پاکستان کے اپنے معروضی حالات ہیں جن کو سامنے رکھ کر ہمیں موجودہ صورت حال کا تجزیہ کرنا ہوگا۔
جنرل باجوہ نے29اکتوبر 2016کو پاک فوج کی کمان سنبھالی تھی۔ انہوں نے اپنے کرئیر کا آغاز اکتوبر1980میں16بلوچ رجمنٹ سے کیا تھا۔ اس سے قبل جنرل یحییٰ خان، جنرل اسلم بیگ، جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی16بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج ٹورنٹو(کینیڈا)، نیول پوسٹ گریجویٹ یونیورسٹی مونٹریال(USA)اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد سے تعلیم یافتہ ہیں۔وہ انفنٹری سکول کوئٹہ، کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ، اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد میں انسٹرکٹر کے فرائض بھی سرانجام دیتے رہے۔انہوں نے 16بلوچ رجمنٹ، انفنٹری برگیڈ اور ناردرن ایریا میں انفنٹری ڈویژن کی قیادت کی۔ وہ راولپنڈی 10کور کے تین مرتبہ کمانڈر رہے۔ جبکہ آرمی چیف تعینات ہونے سے قبل وہ جی ایچ کیو میں انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ایلیویشن بھی رہے۔
میاں نواز شریف کے تعینات کردہ جنرل باجوہ کی عوامی شہرت ایک پروفیشنل فوجی کی تھی۔ جسکی وجہ سے اس وقت کے وزیر اعظم نے ان سے ایک اور جرنیل کو جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا سربراہ مقرر کر دیا اور جنرل باجوہ کوافواج پاکستان کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ان کے پیش رو جنرل راحیل شریف نے خود کو حکومتی معاملات سے ایک خاص فاصلے پر رکھا کئی نازک مواقع پر انہوں نے خالص فوجی انداز اپنائے رکھا۔ تاہم جنرل باجوہ نے باجوہ ڈاکٹرائن متعارف کروائی اور ملکی معاملات میں فوج کے کردار کو ایک خاص نہج عطا کی جس کی وجہ سے ملک ایک طبقہ کی طرف سے ان کو دبے الفاظ میں تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتارہا لیکن وہ تنقید سے بے نیاز ہو کر ملکی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لئے سر گرم عمل رہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اس وقت ملک حالت جنگ میں ہے ایک طرف تو ملک دشمن عناصر ملک کے اندر بد امنی پھیلانے کی کوشش میں مصروف ہیں جن کو ملک کے خفیہ ادارے ناکام بنا رہے ہیں تو دوسری طرف جنرل باجوہ اس حالت جنگ میں ملک فرنٹ سے لیڈ کر رہے ہیں اور پوری قوم اس مشکل گھڑی میں اپنی افواج کی طرف دیکھ رہی ہے۔مقبوضہ کشمیر کے حالات انتہائی تشویش ناک ہیں۔ بھارت نے ایک مہم جوئی کے ذریعہ اس کی آئینی حیثیت پر ڈاکہ ڈالا ہے پورے مقبوضہ کشمیر میں گذشتہ 15روز سے کرفیو نافذ ہے۔ بھارت نے اپنی افواج کو الرٹ رہنے کا حکم دے رکھا ہے۔ اس کے وزیر داخلہ اور وزیر دفاع احمقانہ بیانات دے کر خطے کی سلامتی کو داؤ پر لگانے پر تلے ہوئے ہیں۔بھارتی خفیہ ادارے پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی مہمات میں مصروف ہیں اس حالت جنگ میں فوجی کمان کو تبدیل کرنا کسی صورت بھی ملک کے لئے معتبر نہ ہوتا۔ہم ماضی کے ایک واقعہ کو یاد رکھنا چائیے جب چھمب جوڑیاں سیکٹر جنرل اختر کی کمان میں پیش قدمی جاری تھی تو عین حالت جنگ میں جنرل ایوب خان نے جنرل اختر کو ہٹاکر جنرل یحییٰ کو کمان سونپ دی تھی۔ جس کے باعث 17گھنٹے ضائع ہو گئے جس کے تباہ کن نتائج پوری قوم کو بھتنے پڑے۔ ملک کی موجودہ صورت حال کے تناظر میںیہ ایک مثبت فیصلہ ہے اور اس کی تائید کی جارہی ہے۔کشمیر کے علاوہ افغانستان کے حالات بھی کسی فوری تبدیلی کی اجازت نہیں دیتے۔ اس وقت افغان طالبان ،پاکستانی طالبان اور دیگر افغان گروہ قیام امن کے لئے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرنے میں مصروف ہیں۔ان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستان کی حکومت اورجنرل باجوہ کا ایک خاص اور خاموش کردار ہے۔مذاکرات فیصلہ کن دور میں داخل ہو رہے ہیں سفارت کاری کی نزاکتوں سے واقف لوگ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ مذاکرات کا ر یا انکے ضامنین کا اپنا مستقبل مخدوش ہو تو اس کی مدت کا وزن ختم ہو کر رہ جاتا ہے۔آرمی چیف کی امریکہ میں موجودگی اس بات کی طرف اشارہ کر رہی تھیں کہ امریکی انتظامیہ جنرل باجوہ کے ساتھ بے تکلف ہے اور ساتھ ہی یہ بھی محسوس ہو رہا تھا کہ جنرل باجوہ انکے دلوں میں اتر چکے ہیں۔انہوں نے اپنی متاثر کن شخصیت اور مدلل گفتگو سے پینٹاگان کو اپنا گرویدہ بنا لیا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد پہلی دفعہ ایسا ہو رہا ہے کہ امریکی انتظامیہ افواج پاکستان پر اس انداز میں اعتماد کر رہی ہے۔عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کی سرد مہری کو ختم کرنے میں جنرل باجوہ نے ایک خاموش کردار ادا کیا ہے۔ وزیر اعظم نے ابتدائی دنوں میں عرب ممالک کے دوروں میں جنرل باجوہ کی موجودگی نے نہ صرف عمران خان کو تقویت دی بلکہ ان حکومتوں کو بھی اعتماد دیا اور یوں معاملات آسانی کی طرف بڑھے۔اس امر میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ عرب ممالک کے ستاھ تعلقات کو معمول پر لانے میں جنرل باجوہ کی بھرپور صلاحیتیوں کا اظہار ہوا۔ عمران خان کے بطور وزیر اعطم حلف اٹھانے کے بعد ان ک کچھ بیانات، وزرا کے غیر ذمہ دارانہ بیانات اور ٹویٹس نے پاک چین تعلقات کو دھچکا لگنے کا خطرہ پیدا ہوا ۔ سی پیک کے حوالہ سے مختلف راہنماؤں کا بچگانہ رویہ چینی راہنماؤں کو پریشان کر رہا تھا اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں جاری سی پیک کے منصوبوں پر دھشت گردوں کے مختلف حملوںنے چینی حکام اور ان کے اہلکاروں کو تحفظات کا شکار کر دیاتھا۔اس موقع پر بھی جنرل باجوہ نے اپن اثر و رسوخ استعمال کیا چین کے پے در پے دورے کئے ان کی حکومت کا اعتماد بحال کیا ۔سی پیک کی حفاظت کیلئے الگ برگیڈ کھڑا کر دیا۔ اس کے تحفظ کو یقینی بنایا اسی نازک موقع پر جب کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اور دیگر عالمی اداروں میں ہمیں چین کی بھرپورحمایت درکار ہے، یہ اعتماد جنرل باجوہ کی وجہ سے قائم ہوا ہے اس لئے اس موقع پر جنرل باجوہ کو اپنے عہدہ پر برقرار رکھنا ضروری تھا۔ چین کے ساتھ تعلقات کے تناظر میںجنرل باجوہ سے ہٹانامناسب نہیں تھا اسی حوالہ سے یہ بھی بر وقت فیصلہ ہے کہ جنرل باجوہ کو توسیع دے دی جائے۔ حکومت جنرل باجوہ کو توسیع دے کر ایک طرف بھارتی حکومت کو پیغام دیا ہے کہ وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہو کر مہم جوئی نہ کرے ، ادھر قیادت کا تسلسل سے مادر وطن کی طرف اٹھنے والے ہاتھوں کو روکھنے کے لئے مسلح افواج تیاری کھڑی ہیں۔ایک پیغام مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو دیا گیا ہے کہ آپ خود کو تنہا نہ سمجھیں ۔ ہم کسی بھی حالت میں آپ کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ اور معمول کی کاروائیوں میں الجھ کر اپنے مقصد سے غافل نہ ہوں گے۔جنرل باجوہ کی توسیع نے افغانستان کے عوام، طالبان اور حکومت کو بھی ایک واضح پیغام دیا گیا ہے کہ مذاکرات کا تسلسل جاری رہے گا ، افغانستان میں امن کے راستوں میں آنے والی رکاوٹوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا بلکہ افغانستان میں امن کے عمل میں مزید تیزی لائی جائے گی۔ حکومت نے اس اقدام سے عوامی جمہوریہ چین کو بھی پیغام ارسال کیا ہے کہ سی پیک کے تحفظ کا ضامن موجود ہے۔ اگلے تین سال اس تسلسل کے ساتھ تعلقات قائم رہیں گے بلکہ ان میں تیزی آئے گی۔وزیر اعظم کے اس حکمنامے میں دہشت گردوں کو بھی ایک واضح پیغام ہے کہ رد الفساد ابھی ختم نہیں ہوا۔ضرب عضب کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ کسی بھی ملک کی دشمنی کا سوچنے والوں کو منہ توڑ جواب دیا جائیگا بلکہ جنرل باجوہ نے ویژن کے مطابق ان دشمنوں کو ان کے گھروں میں داخل ہو کر مارا جائے گا۔
پاکستان میں ایک طویل عرصہ بعد سول اور فوجی حکومت ایک پیج پر ہے۔ حکومتی ترجمان اور فوجی ترجمان کے بیانات میں کوئی تضاد نہیں۔جو کہ ملکی استحکام اور اسکو مضبوط کرنے کے لئے از حد ضروری ہے۔ تاہم عمران خان کی یو ٹرن کی تاریخ ایک ڈراؤنے خوان کی طرح ان کا پیچھا کر رہی ہے۔ ان کی پالیسیوں پر عدم اعتماد ہی سب سے بڑی وجہ ہی ان کا یو ٹرن ہے ان کو بھی اپنے اس رویہ پر نظر ثانی کرنا ہو گی آرمی چیف کی توسیع پر سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں نے تنقید بھی کی اور اس عمل کی شدید مخالفت کی ہے۔سیاست کا طالبعلم ہونے کے ناطے میں سمجھتا ہوں کہ ان کی تنقید کو مثبت انداز میں لینا چاہئیے سب جماعتیں محب وطن اور ان کے ترجمان بھی پاکستان کے معززشہری ہیں۔ حکومت کو اس طرز عمل پر نظر ثانی کرنا ہوگی کہ جس کے ذریعے میڈیا پر سیاسی جماعتوں کا بلیک آؤٹ کیا گیا ہے۔ایک تجزیہ کار کے طور پر میری رائے ہے کہ یہ عمل باجوہ ڈاکٹرائن کے خلاف ہے کیونکہ جنرل باجوہ ایک وسیع ذہن کے حامل شخصیت ہیں ۔مریم نواز ، بلاول کے بیانات کو میڈیا پر دکھانا چاہئیے و ہ دوسری جماعتوں کے راہنما ہیں مریم نواز اور ان کی قیادت پر پابندیوں اور گرفتاریوں کی وجہ سے ملک کا مثبت امیج نہیں بن رہا اور بین الاقوامی ادارے میڈیا پر ان پابندیوں کی بات کر رہے ہیں ۔یہ محب وطن شہری ہیں حکومت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کا بلیک آؤٹ ختم کرنا چاہئیے۔ہمارے مقتدر حلقوں کو نوجوان سیاسی قیادت کے لئے اپنے دل کے دروازے کھولنا ہوں گے۔ چوہدری مونس الہیٰ، چوہدری سالک حسین، جناب حمزہ شہباز، غلام مصطفی کھوکھر اور ان جیسے روشن دماغ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔تاکہ سیاسی قیادت کا خلا پیدا نہ ہو۔
پاکستان پائندہ باد۔ پاک فوج زندہ باد