پنجاب حکومت کاپہلا سال
گوھر عزیز
20اگست2018کو جب وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزادار نے حلف اٹھایا اور ایک ہفتے بعد 27اگست کو اُن کی کابینہ کی تشکیل ہوئی تو اُن کے سامنے بڑے چیلنجز درپیش تھے ،یہ وہی پنجاب تھا جسے2007-8میں چوہدری پرویز الٰہی کی حکومت نے سرپلس بجٹ کے ساتھ چھوڑا تھا لیکن 2008سے2018کے 10برسوں میں مسلم لیگ ن کی مسلسل 10سالہ حکومت اسے نہ صرف دیوالیہ کر کے گئی بلکہ56خود ساختہ کمپنیوں اور متعدد ایسے میگامنصوبوں کا بوجھ لادا گیا جسے اٹھانے کی کوئی بھی حکومت متحمل نہیں ہو سکتی تھی،بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ عملی طور پر پنجاب کے ہر محکمے کے ساتھ اضافہ طور پر ایک ایسی ادارہ تشکیل دے دیا گیا تھا جو نہ صرف صوبائی خزانے پر بوجھ تھا بلکہ اسے اُس کے ذریعے کرپشن کرنے اور فرنٹ مینوں کو نوازنے کا چور دروازہ نکل آیا ،اس تمام تر صورتحال میں وزیر اعلیٰ پنجاب اور اُن کی ٹیم کیلئے دو راستے تھے ایک یہ کہ وہ شہبا زشریف سے بھی زیادہ پبلسٹی ، شور شرابے اور دکھاوے کی حکمت عملی اختیار کرتے ،اپنی واہ واہ کرنے کیلئے بڑی سے بڑی ٹیم تشکیل دیتے اور تمام تر سرکاری وسائل خود نمائی اور داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے پر صرف کر دیتے اور دوسرا یہ کہ عوام کو درپیش مسائل کا ٹھنڈے دل سے ادراک کیا جاتا اور اُن کے حل کیلئے وسائل کے مطابق رفتار اختیار کرتے ہوئے آگے بڑھا جاتا ،راقم کی نظر میں وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے دوسرا راستہ اختیار کیا انہوں نے حقائق اور وسائل کے مطابق صوبے کے مسائل حل کرنے کو ترجیح دی اور پنجاب کے تمام محکموں کی تنظیم نو کرتے ہوئے ایسے پراجیکٹ تشکیل دینے کا آغاز کیا گیا جن کیلئے نہ تو وفاقی حکومت کو درخواست کرنی پڑتی اور نہ ہی عوام پر اُس کا بوجھ ڈالا جاتا ۔
ان حالات میں کیا یہ لائق تحسین امر نہیں ہے کہ پہلے ایک سال میں ہی پنجاب میں15ارب روپے کی لاگت سے کھیتوں سے منڈیوں تک 12سو کلو میٹر لمبی سڑکوں کی تعمیر اس انداز میں عمل میں لائی جا رہی ہے جن کیلئے شفافیت کو یقینی بناتے ہوئے ای ٹینڈرنگ کا اجراء کیا گیا ہے ،پنجاب حکومت نے اپنے پہلے سال میں جو سب سے بڑا قدم اٹھا یاوہ قانون کی عملداری یعنی گورنمنٹ کی رٹ ہے ،لاہور جیسے بڑے شہر سے لے کر دور دراز کے قصبوں تک قبضہ مافیا سے 180,000ملین روپے لاگت کی 9لاکھ10ہزار کنال زمین واگزار کرانا کیا معمولی قدم ہے یقینا حکومت نے ایسا کرتے ہوئے سیاسی لحاظ سے نقصان اٹھایا ہوگا لیکن اس کی پرواہ کیے بغیر وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر صوبائی حکومت رکی نہیں اور یہ سلسلہ تا دم تحریر جاری ہے ،اسی طرح صوبے بھر میں وسیع پیمانے پر شجر کاری کیلئے ایک کروڑ 30لاکھ پودے نہ صرف پنجاب کے ماحول کو بہتر بنانے میں مدد دیں گے بلکہ لکڑی اور دیگر ضروریات کے بھی کام آئیں گے ۔
ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پہلے ایک سال میں جس منصوبے کو ملکی سطح پر سراہا گیا وہ وزیر اعظم عمران خان کی ہدایت پر لاہور میں5جگہوں پر شیلٹر ہومز کا قیام تھا یہ اقدام بھی عام آدمی کو حکومت کے وجود کا عملی طور پر احساس دلانے کیلئے تھا کہ ایسا شخص جسے رات گزارنے کی فکر ہو اُسے حکومت نہ سونے کیلئے چھت مہیا کرے بلکہ اُس کیلئے کھانے اور ناشتے کا بندوبست بھی کیا جائے ،تعلیم کے شعبے میں پنجاب حکومت سبقت لے گئی اور چکوال ،میانوالی ، مری ،بھکر ، ننکانہ صاحب اور راولپنڈی کے اضلاع میں6نئی یونیورسٹیوں کے فوری قیام کے علاوہ ہر ضلع میں ایک یونیورسٹی کے قیام کا اعلان وہ تاریخی اقدام ہے جس کی سیاسی مخالفین بھی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتے ،اسی طرح صحت کے میدان میں بھی ہیلتھ کارڈ کا دائرہ کار صوبے کے 20اضلاع تک پھیلانے کے علاوہ بہاولپور،سرگودھا،ڈی جی خان اور دیگر شہروں کے سرکاری ہسپتالوںکی اپ گریڈیشن جیسے اقدامات قابل ذکر ہیں ، پنجاب کو زراعت کا مرکز ہونے کے ناطے زرعی شعبے کو بھی اولین ترجیح دی گئی اور پانی کے تالابوں کی تعمیر سے لے کر تیل کے بیج اور گندم ،چاول اور گنے کی پیداوار بڑھانے کیلئے 18ارب روپے کی لاگت سے نئے پروگراموں کا اجراء کیا گیا ۔
تحریک انصاف کے انتخابی نعرے کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا اپنا تعلق جنوبی پنجاب سے ہے اور پنجاب حکومت نے اپنے پہلے ایک سال میں ایسے ٹھوس اقدامات کیے ہیں جن سے جنوبی پنجاب کی محرومیوں کے خاتمے کی راہ نکلتی دکھائی دے رہی ہے ،ایک تو کسی وزیر یا افسر سے یہ اختیار واپس لے لیا گیا ہے کہ وہ بجٹ میں جنوبی پنجاب کیلئے مختص رقوم کو کسی اور منصوبے پر خرچ کر سکے یعنی بجٹ میں اعلان کردہ ایک ایک پائی جنوبی پنجاب کے عوام کی فلاح و بہبود پر بھی خرچ ہو گی ،اسی طرح 160ملین روپے کی لاگت سے ڈ ی جی خان اور تونسہ شریف میں پرانے پارکس کی بحالی اور نئے تفریحی پارکس کی تعمیر کا آغاز،کوہ سلیمان ڈویلپمنٹ اتھارٹی اور اُس کے دائرہ کار کو وسعت جیسے منصوبے بھی جنوبی پنجاب کے عوام کیلئے تحفہ ثابت ہوں گے ۔
دیگر شعبوں میں دیکھا جائے تو پہلی مرتبہ پنجاب میں سیاحتی پالیسی کا نفاذ ،سکول ایجوکیشن پالیسی2019کی تشکیل ،پنجاب لوکل گورنمنٹ ایکٹ2019کا نفاذ ،شہروں کی اقتصادی نمو کیلئے ویژن2025اور اربن ریفارم روڈ میپ ،اساتذہ کی تقرری و تبادلے کیلئے آن لائن ای ٹرانسفر نظام اور دیگر کئی ایک ایسی کامیابیاں ہیں جنہیں وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کی قیادت میں پنجاب اسمبلی میں گزشتہ ایک سال کی ریکارڈ آئین سازی قرار دیا جا سکتا ہے ،بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ بغور نظر جائزہ لیا جائے تو پنجاب کا ہر شعبہ اپنی موضوع رفتار کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے ہاں دھوم دھڑکا نظر نہیں آتا ، اخبارات کے فرنٹ اور بیک کے صفحات عمران خان اور سردار عثمان بزدار کی تصاویر سے اٹے ہوئے دکھائی نہیں دیتے اورنہ ہی الیکٹرانک میڈیا پر چیختے چنگاڑتے اشتہارات دیکھنے اور سننے کو ملتے ہیں ۔
یہ وہی وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں جن کی ٹیم کی تشکیل پر سیاسی لحاظ سے بہت تنقید کی گئی تھی اور دعوی کرنے والوں کا خیال تھا کہ یہ چند ماہ بھی نہیں نکال سکیں گے لیکن آہستہ اور مستقل مزاجی کے ساتھ منزل کی طرف رواں دواں سردار عثمان بزدار اپنے ویژن اور طرز حکومت کو نمایاں کرتے دکھائی دیتے ہیں ،باخبر حلقے جانتے ہیں کہ گورننس اور پالیسیوں پر عملدرآمد کیلئے وزیر اعلیٰ پنجاب کس قدر موثر اور موزوں ٹیم کے حامل ہیں اور اب یہ قیاس حقیقت میں بدل رہا ہے کہ پہلے ایک سال کی طرح وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نہ صرف اپنے5سال مکمل کریں گے بلکہ پنجاب کو حقیقی ترقی اور خوشحالی سے ہمکنار کرنے کیلئے ان پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھیں گے ۔
٭٭٭