ٹیکس سسٹم آسان بنانے کی ضرورت
ماہرین اقتصادیات اور کاروباری برادری نے گزشتہ ماہ جولائی میں عوام کی جانب سے بینکوں سے 700 ارب روپے نکلوائے جانے پر کہا ہے کہ ٹیکس سسٹم کے خوف ، روپے کی قدر میں کمی اور معاشی غیر یقینی صورتحال کے باعث لوگوں نے بینکوں سے پیسے نکلوائے۔
ایف بی آر کے مطابق کل آبادی کا صرف ایک فیصد حصہ ٹیکس دہندہ ہے جبکہ ٹیکس نیٹ میں آنے والے دور کی کوڑی لاتے ہوئے صورتحال کو اسکے برعکس قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک میں بیس میں سے 7 کروڑ کے لگ بھگ عوام ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ لوگ بجلی کے بلوں پر بھی ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ ساڑھے 6 کروڑ موبائل فون استعمال کرنیوالے صارفین بھی ٹیکس دہندہ ہیں۔ حکومت کی طرف سے ٹیکس نیٹ وسیع کرتے ہوئے بارہ لاکھ سالانہ تنخواہ وصول کرنے والوں پر پانچ فیصد انکم ٹیکس عائد کرنے کی تجویز تھی۔ ساڑھے سات کروڑ سے زائد تنخواہ دار طبقے پر تیس فیصد ٹیکس عائد ہو گا۔ اسی طرح کاروباری افراد کو بھی ان کی آمدن کے مطابق انکم ٹیکس کی ادائیگی کا پابند کیا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں انکم ٹیکس کلچر کو پنپنے نہیں دیا گیا۔ ماہانہ کروڑ اور سالانہ کھربوں روپے کمانے والے بھی ٹیکس سے بچتے رہے ہیں۔ اب حکومت پوری معیشت کو دستاویزی شکل دے رہی ہے تو انکم ٹیکس کے نیٹ میں آنیوالے کچھ لوگ ماتم کناں ہیں۔ بہت سے ٹیکس ادائیگی پر تیار بھی ہیں۔ معیشت کو دستاویزی شکل دنیا جدید حالات کا تقاضہ ہے جسے بہر صورت جلد بدیر ہر کسی کو قبول کرنا ہو گا۔ اس حوالے سے حکومت کی جانب سے بھی زور زبردستی کا تاثر سامنے نہیں آنا چاہئے۔ ٹیکس کے حوالے سے عوام میں شعور پیدا کرنے اور طریقہ کار کو ممکنہ حد تک آسان بنانے کی ضرورت ہے مبادہ ٹیکس نیٹ میں آنے کیلئے تیار لوگ بھی دلبرداشتہ ہو جائیں۔