جمعرات ‘ 20 ؍ ذی الحج 1440ھ ‘ 22 ؍ اگست 2019 ء
اللہ صدر ٹرمپ کا بیڑا غرق کرے۔ رشیدہ طلیسب کی دادی اماں کی بددُعا
رشیدہ طلیسب امریکی کانگرس کی فلسطینی نژاد رُکن ہیں۔، انکی دادی مقبوضہ غرب اردن میں رہ رہی ہیں۔ رشیدہ طلیسب اور امریکی کانگرس کی ایک اور مسلمان خاتون رُکن اسرائیل کا دورہ کرنا چاہ رہی تھیں مگر صدر ٹرمپ نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ انہیں اسرائیل میں نہ داخل ہونے دیں۔ غالباً رشیدہ کی دادی نے ٹرمپ کے اس ناروا فیصلے پر غصے میں آ کر یہ بد دُعا دی ہو گی۔ جہاں تک امریکی بیڑوںکا تعلق ہے وہ ایک نہیں کئی ہیں۔ اگر رشیدہ کی دادی اماں کی بددعا سے ایک بیڑہ غرق بھی ہو گیا تو امریکہ کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ وگرنہ عام آدمی کا بیڑہ غرق ہو جائے، تو اس کی کمر ٹوٹ جاتی ہے۔ رشیدہ کی دادی اگلے زمانے کی خاتون ہیں اور وہ امریکی بیڑوں کے بارے میں زیادہ معلومات بھی نہیں رکھتیں ، ورنہ کوئی اور بددعا دیتیں، جہاں تک امریکی بیڑوں کا تعلق ہے، ان کی حیثیت بڑھک سے زیاہ نہیںان سے آج تک کسی کو مرعوب ہوتے نہیں دیکھا، پاکستان کو امریکی بیڑوں سے پالا پڑ چکا ہے اور وہ اُن کی کارگزاری سے اچھی طرح واقف ہے۔ ان بیڑوں کی ظاہری سج دھج، اس پر لدے اسلحہ اور طیارے یقیناً مرعوب کن ہیں۔ مشرقی پاکستان کے بحران میں امریکہ پاکستان کا اتحادی تھا۔ مکتی باہنی اور بھارتی فوج نے مشرقی پاکستان پر چڑھائی کر رکھی تھی۔ پاکستانی افواج تعداد کی قلت کے باوجود شجاعت کی حیرت انگیز داستانیں رقم کر رہی تھیں امریکہ کی طرف سے پاکستان کو بار بار تسلی دی جا رہی تھی کہ بس چھٹا امریکی بیڑہ پہنچنے ہی والا ہے۔ لیکن اس چھٹے بیڑے کو خلیج بنگال میں پہنچ کر بریکیں لگ گئیں۔ بلکہ وہ تماشا دیکھتے رہے یہاں تک کہ 17 دسمبر 1971ء کو ڈھاکا کا سقوط ہو گیا۔
٭٭٭٭٭
44 سالہ پرانے مگ طیارے استعمال کر رہے ہیں ا تنی پرانی تو کوئی گاڑی نہیں چلاتا۔ بھارتی ائرچیف
بھارتی فضائیہ کے ائر چیف بھی مزاجاً اُن لوگوں میں شامل لگتے ہیں جو ہر سال گاڑی کا ماڈل بدلنے کی آرزو رکھتے ہیں۔ بھارت نے 44 سال پہلے مگ 21 ماڈل کے طیارے حاصل کئے تھے۔ یہ طیارے بھی ہتھیاروں کے اُن انباروں میں شامل تھے جو پاکستان کے خلاف جارحیت کے لیے استعمال ہونے تھے، اس دوران بھارت ان طیاروں کے استعمال کے مواقع کی تلاش میں رہا، لیکن پاکستان نے ایسا کوئی موقعہ نہ دیا۔ فوجی طیارے استعمال ہوں یا نہ ایسا نہیں کہ کسی کباڑ خانے میں پھینک دئیے گئے ہوں گے۔ فوجی طیاروں کی روزانہ مالش کی جاتی ہے اور انہیں ہر وقت فٹ رکھا جاتا ہے، جہاں تک 44 سال پرانی گاڑیوں کا تعلق ہے وہ پاکستان اور بھارت کی سڑکوں پر بیسیوں چلتی نظر آتی ہیں، وہ اب تک لاکھوں کلومیٹر فاصلہ طے کر چکی ہیں جبکہ مگ 21 طیارے اس کا عشر عشیر بھی نہیں چلے ہوں گے۔ البتہ 44 برس چلی گاڑی اور اتنے ہی پرانے مگ 21 میں یہ فرق ضرور ہے کہ سیکنڈ ہینڈ گاڑیوں کی سیل مارکیٹ برقرار رہتی ہے جبکہ مگ 21 کا شائد ہی کوئی خریدار ہو، جہاں تک ان کے استعمال کا تعلق ہے وہ پائلٹ کی مہارت، جرأت اور بصیرت پر منحصر ہے۔ اگر پائلٹ ناکارہ ہو گا تو ابھی نندن کی طرح، مگ 21 کا کباڑہ کرا دے گا۔ ائر چیف کی اس دلیل کا فائدہ ابھی نندن کو پہنچتا ہے مگر یہ دلیل لغو ہے۔ اس میں مگ 21 کا کوئی قصور نہیں ۔ لالہ جی کا دھیان کہیں اور تھا۔!
ایک چولھے کا بل سوا سات لاکھ سے زائد، سوئی ناردرن نے محنت کش پر گیس بم گرا دیا
خبر میں لکھا ہے کہ گھر میں صرف ایک چولھا بل دیکھ کر محنت کش کے اوسان خطا ہو گئے۔ شکر ہے کہ معاملہ اوسانوں کے خطا ہونے تک ہی محدود رہا۔ ورنہ دل بھی الوداع کہہ سکتا تھااور دماغ پاگل ہو سکتا تھا۔ محکمہ گیس والوں کا دعویٰ ہے کہ محنت کش منور کے میٹر سے گیس چوری کی گئی ہے، جس کا جرمانہ کیا گیا ہے۔ دونوںمحکمہ اور صارف میں کون سچا ہے خدا ہی بہتر جانتا ہے لیکن اگر منور کے میٹر سے گیس چوری ہوتی رہی تو اتنا بل دیکھ کر اوسان خطا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی اور اگر وہ بے قصور ہے تو محکمہ والوں کو بھی جرمانہ ڈالتے وقت کسی سلیقہ طریقہ سے کام لینا چاہئے تھا۔ اگر خدانخواستہ وہ بل کو دل سے لگا بیٹھتا تو یہ قتل سے کم جرم نہیں تھا۔ اگر موصوف نے گیس کے میٹر کو گیس کی ذاتی کان سمجھا تو غلط ہی نہیں بلکہ وہ اپنا دشمن آپ ہے۔ ’’وچلی گل‘‘ کیا ہے۔ یہ تو غیر جانبدارانہ تحقیقات کی متقاضی ہے۔ قومی خزانے کو اتنا نقصان کسی سے نہیں پہنچا جتنا بجلی اور گیس چوروں نے پہنچایا ہے۔ یہ اصل چور اور لٹیرے ہیں جن سے کوئی رو رعایت نہیں ہونی چاہئے لیکن انصاف کی بات یہ ہے کہ بجلی اور گیس کی چوری محکمے کے اہلکاروں کی فنی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ ان دونوں محکموں کو صارفین کے خلاف کارروائی کرتے وقت ’’اپنی منجی تھلے وی ڈانگ پھیر لینی چاہئے‘‘ اس کے علاوہ گیس اور بجلی کی چوری کا یہ پہلو محکمے کے کرتا دھرتا لوگوں کی خصوصی توجہ کا مستحق ہے کہ بسااوقات علاقے کا چودھری یا بدمعاش اتنا منہ زور ہوتا ہے کہ گیس اور بجلی کے بل دینے والا اہلکار اُن کی چارپائی پر بیٹھنے کی جرأت نہیں کر سکتا ۔ وہ چوروں کا ہاتھ کیسے پکڑے گا۔ ایسے لوگوں کا حکومت کو اعلیٰ سطح پر مکو ٹھپنا ہو گا۔
٭٭٭٭٭
بارش کے بعد کراچی کی حالت مزید ابتر
کراچی کے عوام جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں کے مصداق مکافات عمل کا شکار نظر آتے ہیں۔ ایک آفت سے جان چھوٹتی ہے تو دوسری سامنے کھڑی نظر آتی ہے۔ بے ہنگم تجاوزات سے لڑنے کی تیاری کرتے ہیں تو گند کچرے سے اٹے نالے سر اٹھائے سامنے آتے ہیں۔ ان سے بچ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں تو بجلی کا بحران منہ کھولے کھڑا ہوتا ہے۔ اس سے دو دو ہاتھ کر رہے ہوتے ہیں تو بارش طوفان نوح کا منظر لیے منتظر ہوتی ہے۔ بارش معمولی سی ہو یا زور دار کراچی چشم زدن میں تالاب یا جھیل کا منظر پیش کرتا ہے۔ فٹوں کے حساب سے پانی گلیوں و بازاروں میں بہتا نظر آتا ہے۔ گھروں میں اٹکھیلیاں کرتا موجود ہوتا ہے بارش کے اس پانی سے نجات پانا بھی کوئی آسان نہیں گزشتہ ہفتے کی بارش کا پانی ہنوز کراچی کے کئی علاقوں کو جوہڑ میں بدلنے کے بعد اب قربانی کی آلائشوں کی مدد سے تعفن اور بیماریوں کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ ہزاروں بچے اور جوان وبائی امراض میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ پھر بھی آفرین ہے کراچی کے ان نازک اندام باسیوں پر جو روئے زمین کے ان بدترین بدبودار حالات میں بھی زندہ ہیں وہ بھی ایسے کہ انکے حکمران تک شرمندہ نہیں۔ گندا پانی، آلائشیں ، بدبو نالوں کا کچرا سب مل کر کراچی کے مون سون کے موسم کو جسے ہم ساون بھادوں کہتے ہیں مزید سہ آتشہ بنا رہے جو کراچی کی انتظامیہ بلدیاتی اداروں اور حکومت سندھ کے لیے بڑے فخر کی بات ہے ۔ اس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہے۔
٭٭٭٭