آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مدت ملازمت میں تین سال کے لیے توسیع دے دی گئی ہے، یوں وہ دو ہزار بائیس تک پاک فوج کے سربراہ ہوں گے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلے پر مجموعی طور پر خیرمقدمی ردعمل آیا لیکن کچھ حلقے یہ کہہ رہے ہیں کہ جنرل باجوہ کو توسیع قبول نہیں کرنی چاہئے۔ اس کے لیے دلیل یہ دی جا رہی ہے کہ وہ خود توسیع قبول نہ کرنے کا کہہ چکے ہیں۔ کچھ لوگ مذہبی حوالے دے رہے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے میدان جنگ سے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو واپس بلا کر کمان تبدیل کر دی تھی۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ آج کے سیاسی حالات اور شخصیات کا موازنہ کسی بھی صورت صحابہ کرام اور خلفا راشدین سے نہیں کیا جا سکتا۔ ریاست مدینہ کو بھی آئیڈیل ضرور ماننا چاہئے اور اس کے اصولوں پر چلنے کی اپنے تئیں پوری کوشش کرنی چاہئے لیکن ریاست مدینہ کے تصور کو آج کی کسی ریاست یا ریاستی پالیسیوں سے مماثلت دینا مناسب عمل نہیں۔ دوسری بات یہ کہ اب سکیورٹی حالات اور جنگیں اس دور سے بہت مختلف ہیں۔ اب ففتھ جنریشن وار کا نیا دور شروع ہو چکا ہے۔ تلواریں ، ہتھیار اور بلند حوصلے میدان جنگ کے لیے کافی نہیں۔ سٹرٹیجی اور سٹرٹیجک پوزیشن کا استعمال نئے دور کے تقاضوں میں سر فہرست ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کی تھی جس کا کچھ حصہ آف ریکارڈ ہونے کے باوجود اخبارات کی زینت بنا تھا۔ اس گفتگو کے کچھ حصوں کو شائع کرتے ہوئے اسے باجوہ ڈاکٹرائن کا نام دیا گیا۔ آئی ایس پی آر نے اس وقت وضاحت کی تھی کہ جنرل باجوہ سے منسوب سیاسی باتیں درست نہیں لیکن باجوہ ڈاکٹرائن کی مجموعی طور پر تردید نہیں کی گئی تھی۔
جنرل باجوہ کے بحیثیت سپہ سالار کئے گئے فیصلوں میں اس ڈاکٹرائن کی جھلک نظر آئی۔ سب سے اہم فیصلہ افغانستان میں امن کوششوں کی مکمل سپورٹ ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی پالیسی کے تحت افغان امن کوششوں میں تیزی آئی۔ مری میں افغان طالبان اور افغان سیاست دانوں کو ایک میز پر اکٹھا کیا گیا۔ افغاستان کے چیف ایگزیکٹو اشرف غنی نے اسلام آباد کے حوالے سے جو معاندانہ رویہ اختیار کر رکھا تھا اس میں کمی آئی۔ پاکستان کی طرف سے مکمل مدد ملنے پر واشنگٹن نے بھی اسلام آباد کو نئی دہلی کی آنکھ سے دیکھنا بند کر دیا۔ سیاسی و عسکری قیادت کا واشنگٹن کا دورہ اس بات کا ثبوت ہے کہ واشنگٹن اب پاکستان کو اس کی اپنی پالیسیوں اور سٹرٹیجک پوزیشن کی وجہ سے اہمیت دے رہا ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارت کو بھی واضح پیغام دیا کہ پاکستان امن چاہتا ہے لیکن کسی مس ایڈونچر کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ امریکا کی طرف سے کولیشن سپورٹ فنڈز کی بندش کے بعد بھی پاک امریکا دفاعی تعاون میں فرق نہیں آیا۔ قومی سلامتی کی ترجیحات طے کرتے ہوئے ملک کے اندر کسی بھی عسکری گروہ کو خیراتی کاموں سے بھی روک دیا گیا ہے۔ مسعود اظہر اور حافظ سعید کے مدارس اور خیراتی اداروں کو حکومتی تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ اس طرح افغانستان کے علاوہ کشمیر کے حوالے سے ریاست یا اس کے عناصر پر جو الزامات لگتے رہے ہیں ان کی نہ صرف بیخ کنی ہو گئی بلکہ کشمیر کے موجودہ حالات میں کشمیری عوام کی مزاحمت کو بھی عالمی سطح پر پاکستان سے نہیں جوڑا جا رہا۔ کشمیری عوام کی مزاحمت کی سیاسی ، سفارتی اور اخلاقی مدد کی جا رہی ہے لیکن بھارت کو پاکستان پر الزام کا کوئی موقع نہیں مل رہا اور بھارت کشمیر میں جاری گرفتاریوں اور ظلم و بربریت پر بین الاقوامی برادری کو صفائیاں پیش کرنے پر مجبور ہے۔
یہ تو پاکستان کی پالیسیوں اور اندرونی حالات کی تصویر ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت میں عسکری حوالے سے نئی پیشرفت ہو رہی ہے۔ جس کو ہمارے میڈیا نے زیادہ توجہ نہیں دی۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے پندرہ اگست کو لال قلعہ سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی افواج میں اصلاحات کا اعلان کیا۔ بھارتی افواج کی مشترکہ کمان کے لیے چیف آف ڈیفنس سٹاف کا دفتر قائم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ بھارت میں ان اصلاحات پر کارگل جنگ کے بعد سے کام جاری تھا اور کئی کمیٹیاں بنائی گئیں۔ بیوروکریسی اور فوج کی اندرونی کھینچا تانی کی وجہ سے ان کمیٹیوں کی رپورٹیں سرد خانے کی نذر ہوتی رہیں۔
چیف آف ڈیفنس سٹاف کا عہدہ بھارت کی تینوں افواج اور سٹرٹیجک کمان کو ایک چھتری تلے لانے کی غرض سے بنایا جا رہا ہے۔ یہ نئے دور کے سکیورٹی تقاضے ہیں۔ بھارت میں اس سے پہلے تینوں افواج کی مجموعی طور پر انیس کمانیں ہیں۔ چھ انڈین آرمی، تین انڈین نیوی اور سات انڈین ایئرفورس اور انڈیمان نکوبار میں تینوں افواج پر مشتمل ایک کمان ہے، جبکہ سٹرٹیجک فورسز کمانڈ الگ سے قائم ہے۔ ہر کمان کا سربراہ الگ الگ چین آف کمانڈ کے ذریعے اپنی متعلقہ فورس کے سربراہ کو جواب دہ ہوتا ہے۔
بھارتی وزیراعظم کی طرف سے چیف آف ڈیفنس سٹاف کے عہدہ کی تشکیل کے بعد بھارتی میڈیا میں کہا جا رہا ہے کہ بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت نئے عہدے کے لیے سب سے آگے ہیں۔ یہ بات اہم ہے کہ جنرل بپن راوت کی مدت ملازمت اس سال دسمبر میں ختم ہو رہی ہے اور نئے آرمی چیف کے لیے ناموں پر غور ہو رہا ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی چیف آف ڈیفنس سٹاف کے لیے جلدی میں ہیں۔ ابھی تک چیف آف ڈیفنس سٹاف کے لیے پیپر ورک جاری ہے۔نئی چین آف کمانڈ پر کام ہو رہا ہے۔ بھارت میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا عہدہ موجود ہے، جو پاکستان کی طرح تینوں مسلح افواج کا علامتی سربراہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں آرمی چیف کی طرح چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کو بھی نامزد کیا جاتا ہے۔بھارت میں تینوں سروسز چیفس باری باری سربراہی سنبھالتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں ملکوں میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف ایک ڈھیلی ڈھالی کمانڈ ہے کیونکہ تینوں سروسز چیفس برابر عہدے کے ہوتے ہیں۔
بھارت میں ابھی اس بات پر فیصلہ ہونا باقی ہے کہ چیف آف ڈیفنس سٹاف فور سٹار جنرل ہی ہو گا یا فائیو سٹار؟۔ بھارتی فوج میں فائیو سٹار کا عہدہ پہلے نہیں ہے۔ اس کے باوجود نریندر نے جلدی میں اعلان کیا تو اس کا واضح مقصد بپن راوت کو مدت پوری ہونے پر نیا عہدہ دیا جانا ہے۔ کیا اس کو بھی توسیع کا نام دیا جائے گا ؟
ہمارے ہاں اصولوں کے نام پر کچھ لوگ سوچے سمجھے بنا شور مچا دیتے ہیں۔ اصول اور قوانین ملکی مفاد کے لیے بنائے جاتے ہیں اور ملکی مفاد ہی میں استعمال کئے جانے چاہئیں۔ بھارت فوجی اصلاحات کرکے کسی نئے جنرل کو بھی لا سکتا تھا لیکن بھارتی سیاست دان اور میڈیا ان کا نام آگے بڑھا رہا ہے۔ وہاں تو کوئی بھی نہیں کہہ رہا کہ جنرل بپن راوت مدت ملازمت پوری کرنے کے بعد گھر کو سدھاریں کیونکہ بھارت میں ایسی کوئی ریت نہیں ہے۔
افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کے بعد خطے کی سکیورٹی صورتحال میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں۔ ان حالات میں افغان امن منصوبے کے تخلیق کار جنرل قمر جاوید باجوہ کو اگر برقرار رکھا گیا ہے تو یہ پاکستان کے مفاد میں ہے۔ سیاست کے لیے اور بہت سے ایشوز ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت کے اور بہت سے فیصلے ہیں جن پر سیاست دان اپنی سیاست کو آگے بڑھا سکتے ہیں اور دانشور اپنی ماہرانہ رائے دے سکتے ہیں۔ خدارا افواج پاکستان کو کسی تنازع کا شکار نہ کیا جائے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024