27 اکتوبر 1947ء کو راجہ ہری سنگھ نے کشمیری مسلمانوں کی اُمنگوں کے برعکس غیر منصفانہ طور پر ریاست جموں و کشمیر کا بھارت سے الحاق کا اعلان کرتے ہوئے شیخ عبداللہ کو اپنا وزیر اعظم نامزد کر دیا۔ راجہ نے الزام لگایا کہ پاکستان سے آنے والے رضاکاروں کی وجہ سے وہ ریاست کا کنٹرول کھو بیٹھا ہے۔ اُسی روز بھارتی افواج طیاروں کے ذریعے سری نگر پہنچنا شروع ہو گئیں۔ فوری طور پر بھارت نے اعلان کیا کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ عوام کی مرضی سے طے پائے گا لیکن اس سے پہلے مکمل امن و امان کا قیام ضروری سمجھا گیا۔ یہ بھارتی سازش تھی جس میں راجہ بھی شریک تھا۔ مائونٹ بیٹن نے بطور گورنر جنرل بھارتی عزائم کی تکمیل کے لیے راہیں ہموار کیں۔ بھارت سے افواج کی آمد کے ساتھ کشمیر میں حالات نے نئی صورت اختیار کی تو پاکستان کے قبائلی علاقوں کے مجاہدین نے اپنے مسلمان بھائیوں کی امداد کے لیے جہاد کا اعلان کر دیا۔
کشمیری حریت پسندوں اور مسلمان قبائلی ساتھیوں کی مدد سے بھارتی افواج کے دانت کھٹے کر دئیے اور انہوں نے کشمیر کی وادی سے بھارتی اور ڈوگرہ عملداری کو ختم کرنا شروع کر دیا۔ رفتہ رفتہ علاقے آزاد ہوتے گئے اور آزاد کشمیر کے نام سے ایک علیحدہ خطہ بنا دیا گیا۔ یہاں سے ڈ وگرہ راجہ کا اقتدار ختم ہو گیا۔ اب حوصلوں کے ساتھ مجاہدین آگے بڑھ رہے تھے کہ بھارت نے 31 دسمبر 1947ء کو متوقع شکستوں سے بچنے کے لیے اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پاکستان کو اقوام متحدہ کی مداخلت پر اطمینان ہوا اور کشمیری حریت پسندوں کو بھی یہ خیال گزرا کہ عالمی سطح پر مسئلہ کا منصفانہ حل تلاش کر لیا جائے گا۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کے مجاہدین اور کشمیری حریت پسندوں نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جنوری 1948ء میں جنگ بندی کے حق میں قرار داد پر عملدرآمد کرتے ہوئے کشمیر میں پیش قدمی روک دی۔ اب اقوام متحد ہ کی سلامتی کونسل نے آزاد اور غیر جانبدار انداز میں اپنی نگرانی میں رائے شماری کا فیصلہ کیا اور دونوں ممالک کو اپنی اپنی افواج اپنی سرحدوں میں واپس لے جانے کے لیے کہا اور اس مقصد کے لیے ایک مشترکہ کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا۔ پاکستان نے اپنے ارکان نامزد کر دئیے۔ مگر بھارت لیت و لعل سے کام لینے لگا اور معاملے کو طول دیتا گیا اور اُس نے اپنی افواج کشمیر سے نکالنے سے بتدریج انکار شروع کر دیا۔ اگست 1949 ء تک بھارت نے کوئی مثبت قدم نہ اُٹھایا حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کی توجہ بار بار بھارت کی ہٹ دھرمی کی طرف دلائی مگر بھارت اپنے وعدوں سے مکرتا گیا اور کشمیر پر اپنا ناجائز قبضہ مضبوط کرتا رہا۔ اس دوران اقوام متحدہ نے اپنے کئی نمائند ے اور وفود ہندوستان اور پاکستان بھیجے مگر ہندوستان نے اقوام متحدہ کے تمام منصوبے یکسر مسترد کر دئیے جس میں سراوون ڈکسن کا فارمولا جولائی 1950ء میں پیش کیا گیا اس کے بعد1951ء میں ڈاکٹر گراہم اقوام متحدہ کے نمائند ے بن کر ہندوستان آئے۔ ان کی رپورٹ پر سلامتی کونسل نے 30 مارچ 1951ء کو مسئلہ کشمیر پر غور کرنے کے بعد ایک قرارداد منظور کی اور کہا کہ 13 اگست 1948ء اور 5 جنوری 1949ء کی قراردادوں کے مطابق وادی سے تمام افواج باہر نکال لی جائیں ۔ مگر ڈاکٹر گراہم نے چھ ماہ متعدد کوششیں کیں کہ بھارت اپنی افواج کشمیر سے واپس بلا لے مگر جب ہندوستان کی لیڈر شپ کے ذہنوں میں فتور تھا تو کیسے سلامتی کونسل کی اُن قراردادوں پر عمل درآمد ہوتا جن پر ہندوستان راضی ہو چکا تھا۔ یہ ہندو لیڈروں کا وطیرہ ہے کہ جب وہ کمزور وکٹ پر ہوتے ہیں تو پھر نرم خو ڈپلومیسی کا راستہ اختیار کر لیتے ہیں اور جیسے ہی اُنہیں کچھ اختیار اور طاقت ملتی ہے تو پھر ہندو بنیا اپنے اصلی روپ میں آ جاتا ہے چاہے وہ جواہر لال نہرو ہو یا نریندر مودی وہ چانکیہ کے فلسفے پر ہی عمل پیرا رہتے ہیں۔ 21 دسمبر 1951 ء کو ڈاکٹر گراہم نے اپنی رپورٹ سلامتی کونسل میں پیش کی اور اپنی بے بسی اور مایوسی کو ان الفاظ میں کہا ’’میں قائل ہو گیا ہوں کہ بھارت کو افواج واپس بلانے پر آمادہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ایسے حالات پیدا کئے جا سکتے ہیں کہ کشمیری عوام کسی دھونس اور دھاندلی سے متاثر ہوئے بغیر اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکیں۔‘‘ ڈاکٹر گراہم نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی لکھا کہ پاکستان نے ہمیشہ اُن سے مکمل تعاون کیا مگر بھارت کا رویہ منفی رہا۔ آج 72 سالوں بعد پاکستان کی کامیاب سفارتکاری کی وجہ سے سلامتی کونسل کا بند کمرے میں 1 گھنٹہ 10 منٹ کا اجلاس ہوتا ہے جس میں کشمیریوں پر بڑھتے ہوئے مظالم پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ چینی مندوب نے واشگاف انداز میں کہا کہ بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا اقدام بلاجواز ہے۔ کشمیر متنازع علاقہ ہے اس کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جانا چاہئے۔ اگرچہ اقوام متحدہ میں بھارتی سفیر ایک طرف آرٹیکل 370 اور 35-A کو انڈیا کا اندرونی معاملہ قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف نہایت ڈھٹائی سے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے ریاکاری سے یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمارا ملک کشمیر کے بارے میں اب تک ہونے والے تمام معاہدوں کا پابند ہے اور یہ مسئلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی بات چیت سے حل ہونا چاہئے مگر عملی طور پر بھارت کشمیر کے مسئلے پر سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کرتا ہے اور نہ ہی شملہ معاہدہ اور اعلان لاہور کے معاہدوں کے تحت مذاکرات کی میز پر آتا ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرتے ہوئے نہ تو کشمیر میں رائے شماری کی سمت کوئی پیش رفت کرتا ہے اور نہ کسی تیسری فریق کی ثالثی قبول کرتا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم اور اسے مستقل بھارت میں ضم کر کے مودی حکومت نے کشمیریوں سے پوچھنے کی کوئی زحمت کے بغیر ان کے مستقبل کا فیصلہ خود کر رہا ہے جس طرح ہندوستان صدر ٹرمپ کی ثالثی کو تسلیم نہیں کر رہا ہے اسی طرح پہلے بھی ایوب خاں کے دور میں صدر آئزن ہاور کو ثالث تسلیم کرنے سے نہرو انکار کر چکا ہے۔ امریکہ کی نیشنل براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے ایک نمائندے نے پنڈت نہرو سے ٹیلی ویژن انٹرویو میں پوچھا کہ آئزن ہاور نے پاکستان کے صدر ایوب سے مسئلہ کشمیر کے بارے میں بات چیت کی ہے کیا آپ آئزن ہاور کو مصالحت کنندہ کے طور پر قبول کرنے کے لیے تیار ہیں مگر پنڈت نہرو نے نہایت مکاری سے جواب دیا کہ اس مسئلہ کو پاکستان اور ہندوستان نے ہی مل جل کر حل کرنا ہے۔ ہم کسی دوست کے مشورے کا خیر مقدم کریں گے مگر مفاہمتی مساعی کا بوجھ میں آئزن ہاور کے کندھوں پر ڈالنا پسند نہیں کرونگا۔ اس پر جناب حمید نظامی نے اداریہ لکھا ’’ہم پنڈت نہرو کی بڑی عزت کرتے ہیں مگر ہم کشمیری عوام کے بنیادی حقوق اور پاکستان کے عوام کے بنیادی حقوق اور پاکستان کی طرف سے کئے گئے وعدوں کی زیادہ عزت کرتے ہیں۔ ہم ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مسئلہ کشمیر حل کرکے ہی ہندوستان سے دوستی کر سکتے ہیں۔
1948ء میں کشمیر فتح کرنے کا موقعہ گنوانے کے بعد ہم نے 1962ء میں بھی ایک اور موقع گنوایا جب چین اور ہندوستان کا سرحدی تنازعہ دونوں ملکوں کی فوج کو آمنے سامنے لے آیا۔ بجائے اس کے کہ ہم کشمیر میں اپنی فوجیں داخل کر دیتے ہم ایک بار پھر جواہر لال نہرو کی میٹھی ڈپلومیسی کا شکار ہو گئے اور مسلسل ایوب اور نہرو کی جنگ نہ کرنے کے موضوع پر بات چیت ہوتی رہی مگر جب بھی ایوب خاں کشمیر کی بات کرتے نہرو طرح دے جاتے۔ جس پر ایوب خان فرینڈز ناٹ ماسٹرز میں رقمطراز ہیں ’’یکم ستمبر 1960 ء کو نئی دہلی میںپالم کے ہوائی اڈے پر پنڈت نہرو نے مجھے مجبور کیا کہ ہم جنگ نہ کرنے کا اعلان کریں تو میں نے کہا اس کے لیے ضروری ہے کہ جموں و کشمیر کا آبرو مندانہ حل تلاش کیا جائے جو وہاں کے عوام کومطمئن کر سکے۔ یہ خیال کہ وقت گزرنے کے ساتھ پاکستان مسئلہ جموں و کشمیر کے آبرو مندانہ اور منصفانہ حل کی ضرورت کو بھول جائے گا۔ وہ بڑا ہی غیر حقیقت پسندانہ ہو گا۔ ملک کا بچہ بچہ اس معاملے میں یک دل و یک زبان ہے۔ پاکستان کی کوئی حکومت اس کو پس پشت نہیں ڈال سکتی ہے۔ عمران خان کی حکومت نے بہترین سفارتکاری سے کشمیر کے مسئلے کو پوری دنیا میں بہت اچھے طریقے سے اجاگر کیا ہے۔ نوے لاکھ کشمیری ہندوستان کی 12 لاکھ فوج کا بڑی بہادری سے مقابلہ کر رہے ہیں۔ ہر 10 کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی مسلط ہے۔ پندرہ دنوں سے کرفیو لگا ہوا ہے مسلمان ادویات اور کھانے پینے کی چیزوں سے محروم ہیں۔ 80 ہزار بچے یتیم ہو چکے ہیں۔ آسٹریلیا کے کالم نویس سی جے ورلمین کے مطابق 6 ہزار سے زیادہ نامعلوم اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ان لوگوںکی قبریں ہیں جنہیں بھارتی فورسز نے غائب کیا۔ 49 فیصد کشمیری دماغی امراض کا شکار ہیں۔ کشمیر میں سکیورٹی اہلکاروں کے ہاتھوں عصمت دری کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ معصوم کشمیریوں پر تشدد کیا جا رہا ہے۔ سات ہزار سے زیادہ زیر حراست ہلاکتیں ہو چکی ہیں بقول فیض …؎
یہی جنون کا موسم یہی ہے دار کا موسم
یہی ہے جبر، یہی اختیار کا موسم
قفس ہے بس میں تمہارے‘ تمہارے بس میں نہیں
چمن میں آتش گل کے نکھار کا موسم
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024