برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے مسئلہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کا دوطرفہ معاملہ قرار دیکر اور کسی تیسرے فریق کے بغیر حل کرنے کا مشورہ دیکر بھارت کو اس عالمی دبائو سے نکالنے کی کوشش کی ہے جوسلامتی کونسل کے مشاورتی اجلاس اور عالمی رائے عامہ کے بھارت مخالف ردعمل کے نتیجے میں دو چند ہو گیا ہے۔ ادھر امریکی صدر ٹرمپ نے اگرچہ کشمیر کی صورتحال کو تباہ کن قرار دیا مگر بھارتی وزیر اعظم مودی سے گفتگو میں کشمیر میں تنائو کم دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا مگر اس تنائو کے ذمہ دار بھارت کو کشمیر میں انسانیت سوز اقدامات فوری طور پر بند کرنے کا دبائو نہیں ڈالا تاہم یہ کوئی حیران کن امر نہیں ہے ۔ برطانیہ جس نے یہ مسئلہ پیدا کیا اور امریکہ اول روز سے پاکستان کے زبانی اور بھارت کے عملی دوست رہے ہیں۔
ادھر پاکستان کی سفارت کاری کے لیے ایک بڑا چیلنج سامنے آ رہا ہے ماضی میں بھی یہ لمحہ آیا تھا جب اسلامی کانفرنس تنظیم نے انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا مگر صدر رفسنجانی کے دور میں ایران نے تنظیم کے اجلاس سے غیر حاضر رہ کر یہ فیصلہ سبوتاژ کر دیا ۔ بھارت نے ایران کو دیگر مراعات کے ساتھ یوروپ میں رسائی دلانے کا جھانسہ دیا تھا اب مگر کشمیر کے حوالے سے اقوام متحدہ انسانی حقوق تنظیم میں معاملہ جانے والا ہے۔ ایران کی طرح بھارت کے وزیر خارجہ نے چین جا کر چینی قیادت کو رام کرنے کی کوشش کی ہے کہ بھارت میں چینی تجارت کے حجم میں اضافہ کیا جائے گا۔ مقبوضہ کشمیر کیونکہ اب بھارتی ریاست کا حصہ بن چکا ہے اس لیے لداخ کا علاقہ چین کو کر دیا جا سکتا ہے اور گلگت بلتستان میں سی پیک کی مخالفت بھی ختم کی جا سکتی ہے۔ اس کے بدلے چین اقوام متحدہ انسانی حقوق تنظیم میں بھارت مخالف قرارداد کی حمایت نہ کرے۔ ہر پاکستانی توقع رکھتا ہے چین اس جھانسے میں نہیں آئے گا لیکن یہ ہرگز نظر انداز نہ کیا جائے کہ بھارت کی یہ پیشکش چین کیلئے کس قدر پرکشش ہو سکتی ہے اس لیے ضروری ہے محض بھروسے کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم اور آرمی چیف کی سطح پر چینی قیادت سے براہ راست رابطہ کیا جائے بلکہ یہ دونوں شخصیات بلاتاخیر بیجنگ کا دورہ کریں۔ بھارت کے خلاف یہ قرارداد منظور ہو گئی تو بھارت بہت سی پابندیوں کی زد میں آ جائے گا۔ دریں اثناء مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے ظلم و ستم کا سلسلہ جاری ہے منگل اور بدھ کی درمیانی شب چھاپوں میں سینکڑوں کشمیری نوجوانوں کو اغوا کر لیا گیا ۔ مزاحمت کرنے والوں کو سپرے کر کے بے ہوش کر دیا گیا اس دوران خواتین پر تشدد بھی کیا گیا۔ 5 اگست سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمہ کے بعد سے کشمیری نوجوانوں کی جانب سے شدید مزاحمت کا سلسلہ جاری ہے حالانکہ مسلسل کرفیو نے شدید مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ ادھر آئی ایس آئی کے بعد آئی ا یس پی آر نے بھی بھارتی فوج کے لیے خوف کی صورت اختیار کر لی ہے۔ بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے سابق بھارتی فوجی افسروں سے خطاب میں کہا آئی ایس پی آر نے پاکستان کے لیے بہترین کام کیا۔ کشمیریوں کو بھارتی فوج اور بھارتی قوم سے دور کر دیا بھارت میں سب آئی ایس آئی کو جانتے ہیں لیکن آئی ایس پی آر سے غافل ہیں صرف میرے جیسے لوگ ہی آئی ایس پی آر کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ آئی ایس آئی تو بھارتی فوج اور حکمرانوں کے لیے خوف کی علامت ہے ہی میجر جنرل آصف غفور کی سربراہی میں اس فوج کے اہم شعبہ نے دنیا میں پاکستان کے موقف کواُجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس مشکل ترین گھڑی میں جب کشمیریوں کو کہیں سے کوئی امداد نہیں ملی رہی اللہ سبحانہ تعالیٰ نے کشمیری مسلمانوں کے لیے سکھوں کے دلوں میں ہمدردی اور حمایت کے جذبات پیدا کر دئیے ۔ بی جے پی کی خواتین رہنمائوں کی جانب سے دس دس ہندو نوجوانوں کے جھتے بنا کر کشمیری خواتین اور لڑکیوں سے اجتماعی زیادتی کے ذریعے ہندو بچے پیدا کرنے شرمناک مشوروں کے نتیجے میں کشمیری خواتین اور لڑکیوں میں خوف و ہراس قدرتی امر ہے۔ پونا یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالبات اس خوف کا شکار ہوئیں تو ان کی پروفیسرز نے نئی دہلی میں سکھ سمجی کارن مہر مندر سنگھ آہلووالیہ سے رابطہ کیا انہوں نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے ان 32 کشمیری طالبات کو ان کے گھروں تک پہنچایا یاد رہے پلوامہ واقعہ میں سکھوں نے ہندو دہشت گرد جتھوں سے کشمیری مسلمانوں کو بچایا تھا۔ دنیا کے ممالک بھی سکھوں نے کشمیریوں کے حق میں اور بھارت کے خلاف قابل ذکر مظاہرے کئے یہ سلسلہ جاری ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ کہنا کہ وزیر اعظم عمران خان نے مودی کے اقدامات سے خطے میں پیدا شدہ حالات سے صدر ٹرمپ کو آگاہ کیا اس لیے تعجب خیز ہے ۔ کیا صدر ٹرمپ یا امریکی حکومت اس سے بے خبر ہے۔ ہونا یہ چاہئے کہ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں مدد کر کے مسئلہ کشمیر حل کرنے سے مشروط کیا جائے دوسرے جنگ سے بچنے کی بجائے آمادہ جنگ ہونے کا تاثر دیا جائے تب ہی امریکہ اور دیگر اہم ملکوں کی حقیقی توجہ حاصل ہو گی یاد رہے جب تک بچے نہ روئے ماں بھی دودھ نہیں دیتی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024