ہر چیز شفاف اور چمک رہی تھی۔ ایشیائی کم تھے اور خال خال نظر آ رہے تھے۔ لائونج سے گزر ہی رہے تھے کہ بیٹا حماد نظر آ گیا جو بیلا کو گود میں لیے ہوا تھا۔ بہو بھی ساتھ تھی۔ یہ ملاقات کا ایک سدابہار منظر تھا۔ کئی سالوں سے بیٹے کو دیکھا نہیں تھا۔ اس لیے خوشی سے آنکھیں بھر آئیں۔ میری بیگم صاحبہ کی بھی کچھ یہی کیفیت تھی۔ بیٹا اور بہو سامنے آئے لیکن سب سے پہلے ہم نے اپنی پوتی کو گلے لگایا اور خوب پیار کیا۔ بیلا کی نسبت سے میں دادا اور میری بیگم دادی بن چکی ہیں۔ یہ ہمارے لیے بہت بڑا اعزاز تھا کہ بیلا نے ہمیں دادا اور دادی بنا دیا جو دنیاوی رشتوں میں سب سے محترم رشتہ ہے۔ حماد کو بھی پیار کیا اور بہو کے سر پر بھی شفقت کاہاتھ پھیرا۔ یہ یادگاری لمحات تھے جن کا تصّور تو کیا جا سکتا ہے، جسے لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ آنکھوں سے خوشی کے نکلنے والے آنسوئوں کی جھڑی روکنے کے بعد اب ہم خراما خراما ایئرپورٹ کے اُس بیرونی حصّے کی طرف بڑھ گئے جہاں کار پارکنگ تھی۔ ہاں اس خوشی میں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ حماد کے ساتھ اُس کے سسر اشرف صاحب بھی آئے ہوئے تھے۔ فیملی کے دیگر کئی ارکان جن میں افضال اور اصغر بھی شامل ہیں، وہاں موجود تھے۔ اُن سب نے ہمیں پُرتپاک انداز سے ’’ویلکم‘‘ کہا۔ اتنا پیار اور احترام دیا کہ پل بھر میں لمبے سفر کی تھکان ہی دُور ہو گئی۔
اب ہم گاڑیوں میں سوار تھے اور گھر کی جانب جا رہے تھے۔ باہر جدھر بھی نظر جاتی ، ہریالی نظر آتی۔ خوبصورت درختوں اور پھولدار پودوں کے جھنڈ عجیب سماں پیدا کر رہے تھے۔ زندگی میں ایسے خوبصورت مناظر کم کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں جو ہمیں دیکھنے کو مل رہے تھے۔ امریکہ واقعی امریکہ ہے۔ خوبصورت لوگوں کا خوبصورت ملک۔ جہاں جھوٹ نہیں بولا جاتا۔ کسی کم تر جھوٹ کی بھی یہاں کوئی معمولی سی بھی گنجائش نہیں ہے۔ عمارتیں بھی ایسی کہ بار بار دیکھنے کو دل چاہے۔ چیزوں میں ملاوٹ، پاکستان کی بات ہو سکتی ہے۔ وہاں کوئی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ہاں ایک بات تو رہ گئی وہ واشنگٹن ایئرپورٹ پر امیگریشن کے نظام سے متعلق ہے۔ امریکہ میں امیگریشن کا نظام انتہائی سخت ہے۔ کوئی بھی foreignerجب امیگریشن کے عمل سے گزرتا ہے تو اُسے امیگریشن افسر کو کم از کم 20منٹ تک انٹرویو دینا ہوتا ہے۔ مختلف سوال ہوتے ہیں جن کے جواب امریکہ میں داخل ہونے والوں کو ہر صورت دینے پڑتے ہیں۔ مجھے امریکن ایمبیسی اسلام آباد نے امریکہ کے لیے پانچ سال کا ویزہ دیا تھا اور اب طریقۂ کار اور قواعد و ضوابط کے مطابق ایہ امیگریشن افسر کی منصبی اور قانونی ذمہ داری تھی کہ وہ مجھے اور میری بیگم صاحبہ کو امریکہ میں کتنے عرصے قیام کی اجازت دیتے ہیں۔ تاہم امیگریشن افسر نے میری بیگم صاحبہ اور مجھ سے صرف تین مختصر سے سوال کئے ۔ بعدازاں مطمئن ہو کر امریکہ میں چھ ماہ کے قیام کی اجازت دے دی اور اس کا اندراج بھی کر دیا۔ میں یہ دیکھ کر بھی حیران ہوا کہ سیاہ فام امریکی امیگریشن افسر کو میرے بارے میں ساری معلومات حاصل تھیں۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ میں پاکستان کے ایک معروف نیشنل اخبار ’’نوائے وقت‘‘ میں کالم لکھتا ہوں۔ شاید اسی لیے میری زیادہ پذیرائی کی گئی۔ زیادہ سوالات کے عمل سے نہیں گزارا گیا۔ امیگریشن افسر نے بڑی عزت و احترام کے ساتھ امیگریشن کائونٹر سے ہمیں رخصت کیا۔
ایئرپورٹ سے بیٹے حماد کے گھر تک کا راستہ 40 منٹوں پر محیط تھاجو کہ ورجینیا سٹیٹ میں تھا۔ ورجینیا جانا ایسا ہی تھا جیسے اسلام آباد سے مری جانا۔ ہم سارے راستے باہر کا نظارہ کرتے رہے اور اُس کی خوبصورتی کی تعریف بھی ہمارے لبوں پر جاری رہی۔ کہیں کوئی دھواں چھوڑتی گاڑی نظر آئی اور نہ گندگی۔ صاف شفاف سڑکیں اور ماحول۔ مجھے ایک بار پھر امریکہ کی تعریف کرنی پڑی کہ انتہائی خوبصورت ملک ہے۔ گھر پہنچنے تک بیٹے کے تمام سسرالی رشتہ دار گھر میں جمع ہو چکے تھے اور پُرتپاک طریقے سے ہمارا استقبال کر رہے تھے۔ ولائیتوں کے ملک میں دیسیوں کو دیکھ کر ہمیں بہت اچھا محسوس ہو رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں نمازِ عصر کا ٹائم ہوا تو تمام بڑے چھوٹے اور خواتین و مرد وضو کرنے لگے۔ باجماعت نماز ہوئی اور دعا کے بعد ہم پھر گُھل مل گئے۔ بیلا کو دیکھنے کے بعد ہماری ساری تھکن دور ہو گئی تھی اور ہم خود کو کافی توانا اور بہتر محسوس کر رہے تھے۔ ہمارا قیام ورجینیا میں تھا جو واشنگٹن سے 21میل دور ہے۔ بڑا ہی خوبصورت شہر ہے۔ پُرشکوہ عمارتوں، ہرے بھرے قدآور درختوں ، پھولدار پودوں، بل کھاتی صاف و شفاف سڑکوں، دل کو لبھانے اور مسحو ر کردینے والی سحر انگیزیوں والا یہ شہر پاکستان واپس پہنچنے کے بعد بھی مجھے ابھی تک نہیں بھولا۔ میرا بیٹاحماد جب سے امریکہ آیا ہے، ورجینیا میں قیام پذیر ہے۔ اُس کا سسرال بھی یہیں ہے ۔ جیسا کہ پچھلی قسط میں ذکر ہو چکا ہے کہ حماد کے سسر اور اُن کی فیملی کا امریکہ میں بزنس ہے جو سب مل جل کر چلا رہے ہیں۔ حماد کے سسر اشرف صاحب کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ انتہائی فراخدل اور مہمان نواز ہیں۔ مہمان نوازی اُن کی گھٹی میں پڑی ہے۔ بہت زندہ دل انسان ہیں اور زندہ دلی سے بات کرتے ہیں۔ کوئی بھی پاکستانی مل جائے اُس سے کوئی شناسائی ہو یا نہ ہو، وہ انہیں کھانا کھلائے بغیر واپس نہیں بھیجتے۔گھر پر اُن کا دستر خوان بہت وسیع ہوتا ہے۔ جہاں سارا دن کھانا پینا چلتا رہتا ہے۔ میں خوش ہوں، میرے بیٹے کی شادی ایسی جگہ ، ایسے گھر میں ہوئی جہاں سخاوت عام ہے اور جہاں سخاوت کا کلچر پایا جاتا ہے۔ ابھی ورجینیا پہنچے دو دن ہی گزرے تھے کہ میں نے اپنے سمدھی اشرف صاحب سے گلوکار وارث بیگ کا ذکر کیا۔ وارث بیگ سے میری پرانی شناسائی ہے۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ ان دنوں امریکہ آئے ہوئے ہیں۔ اس لیے اُن کے حوالے سے گفتگو ہوئی تو اشرف صاحب نے بتایا کہ اُن کی بھی وارث بیگ سے پرانی علیک سلیک ہے۔ لاہور میں وہ اُن کے گھر آتے جاتے رہے ہیں۔ اشرف صاحب ہی کے ذریعے وارث بیگ کا نیو موبائل نمبر ملا۔ نمبر ملایا تو وارث بیگ کے بیٹے عمار نے کال ریسیو کی اور بتایا کہ وہ اس گاڑی میں کہیں جا رہے ہیں۔ عمار نے وارث بیگ سے بھی بات کرا دی جو گاڑی میں ساتھ ہی تھے۔ (جاری)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024