وزیراعلیٰ پنجاب کی نامزدگی
اس وقت تحریک انصاف کیلئے پنجاب میں مستقل وزیراعلیٰ کا فیصلہ انتہائی مشکل رہا۔ پارٹی ڈسپلن سالہا سال کی محنت پھر انسانی خواہش یقینی طور پر عہدوں کی طلب گار ہوتی ہے۔ یہ بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ تحریک انصاف میں سرکردہ چہرے اپنے گروپ قائم کئے ہوئے ہیں اور کچھ کھلاڑی تو کسی نہ کسی طرح وزیراعلیٰ پنجاب کیلئے اظہار بھی کر چکے ہیں۔ کہا جا رہا ہے ان سب کو مطمئن رکھنے اور 100 دن کے اندر حکومت کا عملی تجربہ کر کے وقتی طور پر سردار عثمان خان بزدار کو وزیراعلیٰ کے منصب پر بٹھایا گیا ہے۔ یقینی طور پر سرائیکی اور ڈیرہ غازیخان کے متوسط طبقہ کو دلی خوشی ہوئی ہے لیکن ان سے یہ توقع رکھنا کہ وہ سرائیکی صوبہ یا ڈیرہ غازیخان کے عوام کے لئے تگ و دو کر سکیں گے۔ یہ خیال خام ہی ہو گا۔ جس طرح آغاز سے ان کی وزارت اعلیٰ پر تجربہ کار لوگوں کا حصار بنا کر ان کی انفرادی حیثیت کو ثانوی بنا دیا گیا ہے۔ اب یقیناً ان کو اس طرح کام کرنا ہو گا جس طرح غلام حیدر وائیں ن لیگ کے دور حکومت میں وزیراعلیٰ پنجاب رہے۔ جب سردار لطیف کھوسہ گورنر پنجاب کے طور پر مامور رہے تو ڈیرہ غازیخان کے لوگوں سے ان کا جو رابطہ بطور ایڈووکیٹ تھا گورنری کے بعد کام نہ کرنے کی وجہ سے نہ رہا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت ختم ہوتے ہی کھوسہ صاحب گورنری سے سبکدوش ہو گئے۔
چودھری غلام سرور جن کو نوازشریف لندن سے خود لائے تھے پنجاب میں گورنر کے عہدہ پر فائز کیا لیکن جو رویہ ان سے رکھا گیا وہ زیادہ دیر ساتھ نہ چل سکے اور دلبرداشتہ ہو کر استعفیٰ دے دیا۔ وقت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ آج نوازشریف کرپشن کے الزام میں جیل میں بند ہیں اور چودھری غلام سرور دوبارہ گورنر پنجاب بن کر گورنر ہاؤس لاہور میں براجمان ہیں۔ نوازلیگ نے رفیق رجوانہ کو سینیٹر سے گورنر پنجاب بنا دیا۔ ملتان کے شہریوں اور جنوبی پنجاب میں اس کو سراہا گیا۔ غالباً انہیں گورنر بننے سے پہلے بتا دیا گیا تھاکہ آپ صرف آئینی گورنر ہونگے۔ آپ آئین کے تحت کسی اختیار کو استعمال نہیں کر سکیں گے۔
معتبر ذرائع سے بتایا جا رہا ہے کہ سردار عثمان خان کو وزیراعلیٰ نامزد کرنے سے قبل واضح کر دیا گیا ہے کہ ان کی نامزدگی جز وقتی ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح سردار دوست محمد خان کھوسہ کو عارضی طور پر پنجاب کا وزیراعلیٰ بنایا گیا تھا اور پھر ان سے استعفیٰ لے کر شہبازشریف وزیراعلیٰ منتخب کر لئے گئے۔ پارٹی کے اندر اس بحران کو ختم کرنے کیلئے یہ فیصلہ بروقت ہے کیونکہ کسی ایسے ممبر اسمبلی پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ جس کے اردگرد ممبران اسمبلی ہوں۔ اور وہ خود بھی سیاسی طور پر طاقتور یا طاقتور گروپ سے تعلق رکھتا ہو۔ تحریک انصاف کا جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کا وعدہ موجود ہے لیکن موجودہ حالات میں اس طرف رخ کرنا بھی ناممکن ہے۔
یہ تحریک انصاف اور عمران خان کا پہلا امتحان ہے۔ اگر سردار عثمان بزدار کے اعزاز کو برقرار رکھتے ہیں تو اس سے عیاں ہو جائے گا کہ تحریک انصاف اور عمران خان اپنے منشور اور وعدوں کو ایفا کریں گے۔ اور یقینی طور پر عوام کی امیدوں کو پورا کریں گے۔ کرپشن کا خاتمہ بے روزگاری کیلئے میرٹ پر نوکریاں‘ انصاف سب کیلئے۔ عوام نے جس طرح دل کھول کر تحریک انصاف کو ووٹ دئے ہیں اسی طرح عوام وقت کے ساتھ ساتھ تعلیم‘ صحت‘ رہائش‘ رہائشی سہولتیں‘ بجلی کی فراہمی‘ مہنگائی کے خلاف اقدامات خاص طور پر روزمرہ استعمال کی اشیا کی معقول قیمت پر فراہمی۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ عمران خان وزیراعظم پاکستان منشور کے مطابق مکان دینے کے وعدہ کے حوالہ سے وزیراعلیٰ پنجاب عثمان خاں بزدار سے وزیراعلیٰ ہاؤس خالی نہیں کرائیں گے اور یہ اعزاز اپنے دور اقتدار میں ان سے نہیں چھینیں گے۔