پہلی قربانی کا یادگار قصہ
بچپن بھی کتنی معصومیت کا دور ہوتا ہے کسی چیز کا ’’فکر نہ فاقہ‘‘، والدین سے چیز کا مطالبہ کر دو توان کی اولین کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس کو پورا کیا جائے ۔ ورنہ لختِ جگر کے ناراض ہونے کا خدشہ ہوتاہے۔ لیکن جب انسان اپنے سن شعور میں قدم رکھتا ہے تو پچھلی سب کسریں نکل کر تفکرات کی صور ت میں اس کے گرد گھیرا ڈال دیتی ہیں۔ بچپن کے دنوں میں جب عیدالاضحیٰ کے موقع پر کوئی بکرا یا دنبہ ذبح کرنے کیلئے لایا جاتا تھا تو ہماری والدین سے مزید فرمائش ہوتی تھی کہ اس کے گلے میں موتیوں کی مالا پیروں میں جھانجن اور ماتھے پر جھومر اور مہندی بھی ہونی چاہئے ۔ قربانی کے ساتھ ساتھ والدین کو ہماری فرمائش کا خیال بھی رکھنا پڑتا تھا اور وہ کسی نہ کسی طرح پوری کر دی جاتی تھی۔ لیکن ہمیں اس عید قربان آنے سے پہلے مطلع کیا گیا کہ آپ کی شادی ہو چکی ہے اور آپ پر قربانی واجب ہو چکی ہے۔ ہم بالکل پریشان نہیں ہوئے کیونکہ ہم نے اس کا انتظام پہلے ہی سے کیا ہوا تھا ۔ لیکن ہمیں اس سے پہلے بکرا خریدنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا لہذا میں نے ایک پلان بنایا اور والدہ سے ذکر کیا کہ ہم دوستوں کو مشورے کیلئے جمع کرنا جانتے ہیں۔ ایک پر تکلف سے دعوت کا اہتمام کرنا چاہتے ہیں ۔ والدہ نے کہا کہ ہمیں ہربات کے مشورے کیلئے دوستوں کا ایک ریوڑ جمع کرنے کا شوق ہے ہم نے تمہاری ساری فرمائشیں پوری نہیں ہوتیں اب ماشاء اللہ سے تم شادی شدہ ہو گئے ہو اپنی بیوی سے کہو کہ وہ تمہارے دوستوں کی دعوت کا اہتمام کریں ۔ہم نے ڈرتے ڈرتے اپنی نئی نویلی دلہن سے کہا کہ ہمارے دوست بہت مخلص ہیں ان سے بکرے کے بارے میں مشورہ درکار ہے آپ سے درخواست ہے کہ ان کیلئے ایک اچھی سی دعوت کا اہتمام کر دیں۔ انہوں نے ہماری درخواست منظور کر لی اور ہم نے تمام دوستوں کو اتور کی دوپہر گھر آنے کی دعوت دیدی۔ تمام دوست وقت مقررہ پر گھر پر جمع ہو گئے۔ کھانے سے پہلے ایک اچھّے بکرے کے خصائل پر شرعی اُصولوں پر خوب لے دے ہوئی کھانا کھانے کے بعد طے پایا کہ ان میں سے تین دوست ہمارے ساتھ بکرا منڈی جا کر خریدیں گے۔ بکرا منڈی میں ایک سے ایک بکرا ہماری آمد کا منتظر تھا۔ بکرے کی ہم نے جو قیمت پوچھی تو ہماری سماعت پر ہمیں یقین نہیں آرہا تھا کہ ہم بہانہ بنا کر دوسرے بکرے کی طرف گئے لیکن پتہ نہیں چلا کہ تمام بکروں کی قیمتیں ہماری پہنچ سے باہر ہیں۔ ہمارے دوست ایک دوسرے سے آنکھوں ہی آنکھوں میں باتیں کر رہے تھے کہ ان کے ارادے بکرا خریدنے کے نہیں ہیں۔ واقعی ایسا ہی تھا لیکن اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے۔ ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ کیا کرنا چاہئے ہمارے ایک دوست مرزا صاحب کے ایک پہاڑی بکرے نے کمر میں اس زور سے ٹکر ماری کہ وہ بلبلا کر زمین پر گر گئے اور بے ہوش ہو گئے۔ ہم بکرے کی خریداری چھوڑ کر مرزا صاحب کو سنبھالنے میں لگ گئے۔ ان کو رکشہ میں ڈالا اور قریبی ایک ڈاکٹر صاحب کا کلینک تھا ان کے پاس لے گئے۔ وہ چیخ رہے تھے کہ مجھے بچائو، مجھے بچاؤ۔ ڈاکٹر صاحب نے انہیں توجہ سے دیکھا ، ڈاکٹر صاحب ڈرپ لگا کر جب فارغ ہوئے اور مرزا صاحب کی تکلیف میں افاقہ ہوا ، انہوںنے اپنا بل ہمیں دکھایا تو ہمیں دن میں تارے نظر آگئے۔ ہم نے بمشکل ان کا بل ادا کیا اب بکرا لینے کا ارادہ بھی ترک کر دیا مرزا صاحب کو ان کے گھر پر چھوڑا ۔ جب اُداس چہرہ لیکر گھر پہنچا تو لائف انکوائری آفیسر نے پوچھا ۔’’ لے آئے بکرا، تیاری تو بہت کر کے گئے تھے؟‘‘ ہم نے بڑے معصومانہ انداز میں جواب دیا کہ بکرا منڈی میں ہماری جیب کٹ گئی لیکن جھوٹ کے پائوں نہیں ہوتے دوسرے دن ہمارے کپڑوں سے دوائوں کا اور ڈاکٹر صاحب کا بل بیوی کے ہاتھ لگی گیا۔ انہوںنے جس انداز میں ہماری خبرلی، وہ صرف شادی شدہ شوہر ہی جانتا ہے۔ کہنے لگیں اگر رقم نہیں ہے تو میں اپنے بھائی صاحب سے لیکر اس کا بندوبست کر دیتی ہوںہماری غیرت نے یہ گورانہ کیا ہم خاموش ہو گئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری مدد فرمائیں گے۔ اور ایسا ہی ہوا عید سے ایک دن پہلے ہمارے ایک بہت ہی پیارے دوست بشیر احسن جنہیں ہم پیار سے بچھن کہتے ہیں آگئے ان کے ہاتھ میں ایک بکرے کی رسی تھی بکرالاغرتھا انہوں نے یہ بکرا ہمارے حوالے کیا کہ بھائی میں نے آپ سے کچھ ماہ پہلے چار ہزار روپے ادھار لیے تھے اب تک ادا نہیں کر سکا آپ پر قربانی واجب ہے میں نے یہ بکرا رکھا ہو تھاسوچا میرا قرض بھی ادا ہو جائے گا اور آپکی قربانی بھی ہو جائے گی۔میں نے یہ بکرا ان سے اس قدر تیزی سے لیا ، گویا مال غنیمت ہاتھ آگیا ۔گھر میں پڑی ہوئی چھریاں ، بگدا اور چھوٹی کلہاڑی تیز کرائیں۔ عید کی نماز پڑھ کرآئے راستے میں قصائی بکرے ذبح کر رہے تھے انہیں دیکھا حسو نے بھائی کی مدد سے بکرے کو زمین پر گرایا اور ذبح کرنے کیلئے چھری اس کے گلے پر پھیرتے گئے۔ لیکن یاد آیا ذبح کرنے کی دُعا زبانی یاد نہیں ہے۔ قریبی مسجد سے مولوی صاحب سے درخواست کی کہ حضور تکبیر پڑھ کر ہمارے بکرے پر چھری رکھ دیں،وہ فوراً ہمارے ساتھ چل پڑے یوں بکرا ذبح ہو گیا ۔ باقی بکر ے کا گوشت کس طرح بنایا یہ علیٰحدہ داستان ہے۔ مختصر یہ ہے کہ جن کو اس بکرے کا گوشت دیا گیا بوٹی کے ساتھ کھال بھی لگی ہوئی تھی۔ اکثر دوستوں کو یہ بھی شکایت رہ گئی کہ ہمیں پہلی قربانی کا گوشت ملا ہی نہیں۔ کیونکہ ہم نے تمام دوستوں میں تو اپنی پہلی قربانی کا ڈھنڈورا پیٹنا پڑا تھا جبکہ بکرا نہایت کمزور تھا اور گوشت بہت کم تھا ان کو یہ کہا گیا کہ آپ کی شکایت اگلے سال دور کردیں گے۔