ریاستِ مدینہ کا تصور اپنی مصلحتوں کی نظر نہ کیجئے گا!
غریب کے بچے کابچپن اور مزدور کا ہنی مون کب اور کہاں ہوتا ہے ۔ یہ سب تو ان کے چونچلے ہیں جن کے گھر میں خوشحالی اور آسودگی کا ہن برستا ہے ۔ایسا ہی کچھ اس حکومت کے ساتھ بھی ہے جسے نہ تو اپنے بچپن کو رونا رونے دیا جائے گا اور نہ ہی اس کیلئے کوئی ہنی مون ہوگا ۔ اسے تو پٹاخہ چھوٹتے ہی دوڑنا ہے اور سر پٹ دوڑنا ہے ۔ وزیراعظم کی حلفِ وفاداری ایوان ِصدر میں نہایت سادگی سے انجام پائی۔کھابے کھانے والوں کو بسکٹ اور چائے سے ہوتی تواضع کچھ بھائی تو نہیں لیکن گزارہ کر لیا گیا ۔ اس کے بعد خان صاحب کا سٹاف کالونی کے تین بیڈ رومز والے گھر میں منتقل ہونے کا فیصلہ بھی کچھ آسانی سے ہضم نہیں ہوا کیونکہ یہ پیغام ان کیلئے ایک تازیانے سے کم نہ تھا جن کے منہ کو لگے یہ مرغن کھانے ہی اصل میں جمہوریت تھی جن کا اب دور دور تک نشان دکھائی نہیں دیتا لیکن خان صاحب تو پھر خان صاحب ہیں۔ن کی بیس رکنی کابینہ میں بھی شاید میرٹ سے مصلحت زیادہ دکھائی دی جس میں اتحادیوں کو نوازا گیا تاکہ کمزور بنیادوں پہ کھڑا یہ حکومتی ڈھانچہ کھڑا رہے۔ اپنوں میں بانٹنے کی بجائے اتحادیوں کو حصہ ملا۔ وہ چہرے جو تحریکِ انصاف کی آواز تھے اور جوان قیادت کے نمائندے رہے ہیں ایک دفعہ پھر آواز ہی کی صورت دب کے رہ گئے ۔ ورنہ کون بھول سکتا تھا مراد سعیدکا جوش، عندلیب عباسی کا دھرنے کے دوران بسوں سے لٹکنا ،علی زیدی کی کراچی میں پی ٹی آئی کیلئے بھاگ دوڑ ، علی محمدکے ایوانِ اسمبلی میں دھرائے گئے ربِ کعبہ کے ننانوے نام اور ان کی اس تقریر میں گھن گرج ، شہر یار آفریدی کی برجستگی اور زرتاج گل کی جرأ ت کہ جس نے اس علاقہ سے عام نشست پہ انتخاب لڑا جہاں خواتین کے لئے امیدوار کھڑا ہونا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے، لیکن شاید قربان وہی ہوتے ہیں جو اپنے ہوتے ہیں اور جن کے عزم دیے گئے عہدوں سے بڑے ہوتے ہیں۔ویسے بھی اس حکومت کے پاس شاید ان اللے تللے کیلئے وہ گنجائش نہیں ہے جو ہمارے ماضی کا حصہ تھی۔ نئے پاکستان والوں سے کچھ نئے کی امید نے انہیں اس کسوٹی اور معیار و پیمانے پہ فائز کر دیا ہے جہاں ذرا سی لغزش ان دعوؤں کی موت ہوگی جن کے سر پہ ان کو پذیرائی ملی ہے وگرنہ شیریں مزاری اور شفقت محمود ان وزارتوں پہ کہاں فِٹ دکھائی دیتے ہیں کہ صلاحیتوں سے بھرپور یہ نفوس کچھ زیادہ نہ کر سکنے والی وزارتوں پہ بٹھا دئیے جائیں۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار تو شاید کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھے کہ جو جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقے’’تونسہ شریف‘‘ سے ن لیگ کے رکنِ پنجاب اسمبلی تھے۔ انہی انتخابات میں تحریک انصاف کا حصہ بنے اور یوں نواز دیے گئے کہ جیسے کسی کی لاٹری نکلے اور وہ خود حیرت کا ساماں بنیگم ڑاید گنگ سے ہوگئے ۔مجھے تو وہ کپتان کی 1992ء ورلڈ کپ کی ٹیم کے وسیم حیدر اور اقبال سکندر دکھائی دیے کہ جن کی شمولیت حیران کن طور پر حیران کر دینے والی تھی۔خان صاحب کو ایسے ہی خطرات سے کھیلنے کی عادت ہے یا عثمان بزدار کے پیچھے ان کی ڈوریاں ہلانے والا کوئی اور ہوگا اور انہیں صرف اشاروں پہ کھیلنا ہے ۔ بہر کیف اس ٹیم کے پاس نہ دکھانے کو کچھ ہے اور نہ دینے کو کچھ ہے لیکن انہیں پھر بھی ڈیلیور کرنا ہے ۔
اس برس چودہ اگست کو جو جوش و خروش تھا وہ نہ صرف دیدنی تھا بلکہ ایک دفعہ پھر اُمید کی شمعیں روشن کیے ہوئے تھا سو اگر اس دفعہ خواب ٹوٹے تو یہ آنکھیں بجھ سی جائیں گی اور اس سے سرخرو ہونے اور کامیابی کی اوجِ ثریا کو چھونے کی صرف ایک شرط ہے وہ ہے ایمانداری، یہی ایمانداری ہی وطن و قوم اور اپنے وزیرِ اعظم سے وفاداری ہو گی۔ خان صاحب کو ملک کے ادارے مضبوط بھی کرنے ہیں اور ان کے اختیارات کی حدبندی بھی کرنی ہے ۔خان صاحب جب یہ کہتے ہیں کہ وہ کسی کے کندھوں پہ بیٹھ کر نہیں آئے تو انہیں جمہوری ہونے کا ثبوت بھی دینا ہے۔ سیاستدانوں کی ساکھ کو بحال بھی کرنا ہے اور اس تاثر کو زائل بھی کرنا ہے کہ غیر مرئی طاقتوں کی بجائے ان کے پیچھے ان کی قوم اور عوام ہے۔ قوم ایک مزاحمت کے موڈ میں ہے اسے قرار واقعی وہ تبدیلی چاہئے جس کے سپنے اسے دکھائے گئے ہیں۔ بہت سے پرانے چہرے اور کہنہ مشق روایتی سیاست دان گھر بٹھا دئیے گئے ہیں۔ قوم نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے اور قوم ایک احتساب چاہتی ہے ایک غیر جانبدارانہ احتساب جس میں نہ کوئی مقدس گائے ہو اور نہ ہی کوئی اس کے شکنجے سے ماورا۔ جس جس نے جیبیں بھری ہیں اس کے کانوں تک یہ پیغام پہچانا کہ اب حساب دینے کے عمل میں کوئی عہدہ اور اثرو رسوخ حائل نہ ہوگا۔خان صاحب نے جب خود کو پہلے احتساب کیلئے پیش کیا ہے تو اب کمر کے درد اور لی گئیں رعایتوں کو بھی دم توڑ دینا چاہئے جب سانچ کو آنچ کیا کے مصداق آپ اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے پہ مصر ہیں تو پھر خود کو پیش کرنے میں لیت و لعل کیسا؟اگر اس دفعہ بھی ذمہ داران کو کٹہرے میں نہ لایا گیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ماضی کی طرح یہ احتساب بھی ایک انتقام لگے اور ہم اس منزل سے اور دور ہوجائیں جس پر ابھی ہمیں اپنے اجداد کے نقوش ڈھونڈنے ہیں اور اپنے قائد کے بتائے ہوئے راستوں پہ دیپ جلانے ہیں۔ ایماندارانہ و منصفانہ ایک تکڑی میں تلتا انصاف ہی مدینہ کی ریاست بنا سکتا ہے۔ آپ سے بہت سنا کہ کیسے ایک بدو حضرت عمرؓ رضی اللہ تعالی عنہ کے گلے میں کپڑا ڈال کے کھڑا حساب مانگ رہا تھا، کیسے خالد بن ولید ؓکی مشکیں کسے حضرت بلالؓ مدینہ کی سرحد میں داخل ہورہے تھے کیونکہ ریاستِ مدینہ کا تو یہی وطیرہ تھا جس نے اسے دنیا میں ممتاز کیا اور آج تک دوسری اقوام کیلئے ایک نمونہ ہے۔ خدارا مدینہ کی ریاست کا تصور اپنی مصلحتوں کی نظر مت کیجئے گا۔ قوم نے اپنا کام کر دیا ہے اور اب آپ کو عمل کرکے دکھانا ہے ۔