پاکستان کو گندا مت کرو!
گزشتہ دنوں ایک مارکیٹ میں جانے کا اتفاق ہوا اور ایک منظر دل پر گہرے اثر چھوڑ گیا۔ اس ایک منظر نے یہ بھی ثابت کیا کہ آنے والی نسل کی ذہنی و فکری تربیت ہی کل کے پاکستان کے روشن مستقبل کی ضمانت ہے۔ اگر آج ہم اپنی آنے والی نسل کو یہ سمجھا دیتے ہیں کہ ہمیں پاکستان کو گندا نہیں کرنا تو یقین جانیے پاکستان کا کل ایسا روشن ہوگا جس کی روشنی سے دوسروں کو بھی جلا بخشی جاسکے گی۔ میرے ساتھ مارکیٹ میں ایک فیملی داخل ہوئی جن کے ساتھ ایک بچہ بھی تھا جس کی عمر تقریباً نو یا دس سال ہوگی۔ اس دوران پہلے سے مارکیٹ میں موجود ایک صاحب نے کوئی چیز کھانے کے بعد کاغذ زمین پر پھینکا جس پر اس بچے نے اپنی والدہ سے اپنا ہاتھ چھڑایا اور ان صاحب کے قریب آکر وہ کاغذ اٹھا کر ان کے حوالے کرتے ہوئے یہ جملہ ادا کیا ’’انکل! پلیز اس کاغذ کو بجائے زمین پر پھینکنے کے اس باسکٹ میں ڈال دیجئے، میری امی کہتی ہے کہ پاکستان ایک نعمت ہے اور یہ مائوں کے صبر اور قربانی سے بنا ہے اور وہ اس سے بہت پیار کرتی ہیںہم سب کو اس نعمت کی قدر کرنا چاہئے اور اسے ہر طرح سے گندا ہونے سے بچانا چاہئے‘‘۔ لہذا میری آپ سے درخواست ہے کہ آج بھی اور ہمیشہ بھی گند ادھر ادھر پھینکنے کی بجائے باسکٹ میں ڈالا کریں اور پلیز میری ماما کے پاکستان کو گندا نہ کریں۔ مجھے اس بچے کی پاکستان سے محبت اور گفتگو نے بیحد متاثر کیا کہ ہم نے کبھی سوچا ہی نہیں کہ ہمارا ایک عمل ہمارے پیارے ملک کیلئے کیا معنی رکھتا ہے۔ ہم گزشتہ 71 سالوں سے ناجانے کون کونسی کی گندگی پھیلانے کا باعث بن رہے ہیں اور اس بچّے اور اس جیسے جذبے رکھنے والے بچوں کے والدین کے پاکستان کو گندا کرتے چلے جارہے ہیں۔ جشن آزادی کا مہینہ ہے سوچا اس جذبے کو پڑھنے والوں تک پہنچایا جائے ہمارے وہ بزرگ جنہوں نے اپنی آنکھوں سے پاکستان بنتے دیکھا ہے اب گنتی کے ہی باقی رہ گئے ہیں۔آئندہ چند برسوں میں شاید کوئی ایسا باقی نہ رہے جو پاکستان کی تعمیر کا عینی شاہد ہو میرا کہنا یہ ہے کہ جنہوں نے پاکستان کو بنایا جو اس کی تعمیر پر اپنا سب کچھ قربان کرگئے وہ بھی کسی کے بچے تھے اور آج یہ بچہ ہے جو پاکستان کو ناقابل تسخیر دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ صرف ایک کاغذ کا ٹکڑا اٹھائے جانے کی بات نہیں بلکہ ایک والدہ کی اچھی تربیت کا اظہار ہے۔ نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا ’’ تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں اچھی قوم دونگا۔‘‘ وطن عزیز کے کئی شعبہ ہیں جو غیر ارادی گند سے اٹے پڑے ہیں کیا ایک ایک کرکے اس گند کو صاف نہیں کیا جاسکتا؟ یقیناً کیا جاسکتا ہے اور وہ دن دور نہیں جب پاکستان جو ہماری دھرتی ماں بھی ہے ایک ایسی صاف ستھری پُر امن ریاست بن کر دنیا کے نقشے پر اُترے گی جس کی مثال نہ ہو۔ اگر ہم اپنی اولاد کی تربیت میں ایسے جذبے شامل کریں جس کا مظاہرہ اس بچے نے کیا ہے۔ اس بات سے بھی انکار نہیں کہ ہمارے سارے شعبے جوتساہلی، خود غرضی اوراقربا پروری جیسی برائیوں سے اَٹے پڑے ہیں ان سب کو صاف کرنے کیلئے ان جیسے کئی بچوں کی معصوم فراست کی ضرورت ہے۔ ایسے بچے جن کی پرورش احساس اور فراست سے مزین ہو جو سمجھتے ہو کہ یہ پاکستان تمہارا ہے۔14 اگست ایک تاریخ کا نام نہیں بلکہ ایک جذبے کا نام ہے یہ دن تجدید عہد اور شکرانے کے ساتھ ساتھ عہد فردا کا بھی تقاضا کرتا ہے۔ اقوام کی زندگی میں ایسے دن شان و شوکت سے منائے جاتے ہیں اور جذبہ ٔ حب الوطنی کے عکاس ہوتے ہیں۔ تحریک پاکستان کی ان مائوں کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے اپنے بچوں کو دو قومی نظریے سے روشناس کروایا تھا۔ 1906ء سے 1947ء تک کا سفر ان بچوں نے اپنی دھرتی ماں کیلئے قربانیاں دیتے ہوئے طے کیا یہ تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت تھی جس میں انسانی خون سے ہولی کھیلی گئی جہاں املاک اور عزتوں کو پامال کیا گیا ،مگر آج ہمارے سیاستدان ہمارے ملک کے بڑے ٹھیکیدار اگر کسی وجہ سے الیکشن میں شکست کھا جاتے ہیں تو اپنی شکست کا بدلہ یوم آزادی نہ منا کر لینا چاہتے ہیں۔ یہ ہے وہ اصل گند جس کو صاف کرنے کی اشد ضرورت ہے ہم دنیا میں تب ہی ایک سرفراز ملک بنیں گے جب ہم اپنی آنے والی نسلوں کیلئے رول ماڈل ہونگے۔
خدارا! اپنے وطن کی عظمت، عزت، توقیر اور سرفرازی کو اپنی جیت اور شکست سے مشروط کرکے گندا نہ کیجئے۔ اس وطن کی بنیادوں میں کلمہ طیبہ کی اساس ہے یہ مملکت خداداد ہے اس ملک کی ساری مائیں اپنے بچوں کو اس وطن سے پیار کرنا سکھاتی ہیں جان لیجئے کہ دنیا ایک مارکیٹ ہے اور پاکستان اس میں کھلے پھول کی مانند ہے جس میں آپ اپنی زبان سے اپنی شکست کے کاغذ کے ٹکڑے پھینک رہے ہیں جو ہماری ماؤں کے پاکستان کو گندا کررہے ہیں۔
جیسا کہ کلیم عثمانی نے کہا تھا
؎ اس وطن کے بچوں کو سر بلند رکھنا
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اس کے