آج عید ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ وہ خوش قسمت کون ہوںگے جو بھرپور انداز سے عید کی مسرتوں کو حاصل کر سکیں گے۔ میرے چاروں سمت تو دکھوں، فاقوں، زخموں اورآنسوﺅں کے گدلے پانیوں کی رات ہے۔ اس ”جھیل“ کی تہہ میں مجھے تو خوشی کا کوئی دمکتا موتی دکھائی نہیںدیتا، یہ ان عوام کی قسمت رہی ہے کہ اُنہیں اس قدر لوٹا گیاکہ اس معاشرہ میں جہاں 98فیصد گھروں میں غربت، عسرت، تنگدستی، فاقہ مستی، خود سوزی اور خودکشی کی وارداتوں نے آج بھی صف ماتم بچھا رکھی ہے، حیران ہوں کہ ان تیرہ و تاریک گھروں کے 22کروڑمکین کیونکر عید منائیں گے؟ لیکن اب جب اس اُمید کے ساتھ کہ نیا پاکستان بننے جا رہا ہے، قدرے کھلے کھلے چند چہرے بھی ہمارے سامنے آرہے ہیں اور کیا ہی اچھا ہوگا اس دفعہ یہ روایت ٹوٹ جائے کہ اس ملک کے حکمران دیار غیر میں عید منایا کرتے تھے۔اگر عمران خان ، محمود خان اور عثمان بزدار سمیت دیگر پی ٹی آئی رہنماءو وزراءعوام میں گھل مل کر عید منائیں گے تو یقینا یہ عید عوام کے لیے یاد گار ہوگی۔ کیوں کہ عمران خان کا غربت کو ختم کرنے کا عزم اور عام آدمی کو اوپر لے کر آنے کا عزم قابل تحسین ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ رہنما جنہیں حکومت سنبھالے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا۔غریبوں کی خوشیاں بانٹیں گے؟ اور اس پیغام کا عملی نمونہ پیش کریں گے کہ وہ ان غریبوں کے ساتھ ہیں؟اگر وہ آج عید کی نماز کے بعد یہ عملی نمونہ پیش کرتے ہیں تو یہ اس قوم کے لیے نوید ہوگی کہ یہ لوگ جو کہتے ہیں وہ کرتے بھی ہیں۔ غریب آدمی اور حکمرانوں کا فرق جو معاشرے میں بگاڑ کا باعث بن رہا ہے اُسے ختم کیا جانا چاہیے۔ اگر عمران خان اپنے اس عزم کو دہراتے رہیں اور اس پر عمل کرتے رہیں تو یہ پاکستان کے لیے خوش نصیبی ہوگی۔ صرف بچت کرنے سے غریبوں کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا جا سکتا ، غریبوں کے ساتھ زندگی گزار کر غریبوں کے ساتھ کھڑا ہوا جا سکتا ہے۔
تب ہی عید کا یہ تہوار خوشیوں، مسرتوں، رونقوں، قہقہوں اور روشنیوں کا نقیب ہو سکے گا۔جس معاشرے میں ذرائع دولت اور اقتدار و اختیار چند مخصوص ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جائیں، وہاں عمومی خوشیوں کا تصور اس حد تک ناپید ہوجاتا ہے کہ تہواروں کی خصوصی خوشیاں بھی (جو کہ اپنی اصل روح میں عمومی ہوتی ہیں) چند خاندانوں تک محدود ہو کر رہ جاتی ہیں....طبقاتی امتیازات کے ڈسے ہوئے اس معاشرے میں دینی تہوار کو بھی چھوٹے اوربڑے کے پیمانے سے ماپا جاتا ہے۔ قرون اولیٰ میں عید صرف عید ہوا کرتی تھی، چھوٹی عید یا بڑی عید کا کوئی تصور نہیں تھا۔ یہ وڈیروں، لٹیروں، خانوں، اربابوں اور نوابوں کی غلط فکری کا شاخسانہ ہے کہ اُس نے جس طرح غریب اور امیر کے درمیان فرق بڑھا دیا ہے اُسی طرح تہواروں میں بھی فرق پیدا کر دیا ہے۔ ان جاگیرداروں اور دیہہ خداﺅں کے کتے بھی تازہ گوشت کھاتے ہیں لیکن ان کے 50لاکھ کھیت مزدوروں کو گوشت کھانے کیلئے عید قرباں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
مجھے یاد ہے کہ پچھلے سال بھی جب یہ عید آئی تھی اور سابقہ ن لیگ دور کی آخری عید تھی تو اُس وقت اخبارات میں خودکشیوں کی خبریں شائع ہو رہی تھیں،پچھلے سال عید کے موقع پر سول سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا تھا اور وہ اپنی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہے تھے ،غریب کلرک قلم چھوڑ ہڑتالیں کر کر کے تھک گئے لیکن حکومت تھی کہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی تھی۔پچھلے سال بھی جب یہ عید آئی تھی تو قومی و کمرشل بینکوں کا کھربوں روپے کا خطیر سرمایہ چند لٹیروں کی مضبوط قوت ہاضمہ کی نذر تھا اور جاتے جاتے بھی کھربوں روپے میں سے ایک پھوٹی کوڑی کی بازیابی نہیں ہو سکی۔الغرض غریب کی عید تو اُس وقت ہی ختم ہو جاتی ہے جب اُس کے پیسوں پر شب خون مارا جا تا ہے۔ اورعید کی یہ چکا چوند، یہ اجالا، یہ روشنیاں انہی کو دکھائی دیتی ہیں، جن کی کمائی ان گنت روپوںمیں ہو۔ ورنہ عام آدمی تو بقول ساغر صدیقی
حاکمان وقت دیکھیں قوم کا کیا حال ہے
چند لوگوں کی ہیں عیدیں معاشرہ کنگال ہے
اُمید کے اس دور میں نئی حکومت سے یہ قوم دعا اور اُمید ہی کر سکتی ہے کہ اُس کا آنے والا کل آج سے بہتر ہو۔ اُس کی نسل قرض دار نہ ہو، وہ عیدین سمیت تمام تہواروں کو صحیح اور خوشحال انداز میں ادا کر سکے۔ کیا آج یہ شکر بجا لانے کو دل نہیں کرتا کہ ان چوروں سے جان چھوٹ گئی جنہوں نے اس زمین کو عوام کے لیے تنگ کر دیا تھا۔ آج عوام کہہ رہے ہیں کہ ”اے زمینوں اور آسمانوں کے مالک! تیرا شکریہ کہ تو نے اس پاک سرزمین کو ان ناسوروں سے پاک کر دیا، جنہوں نے اربوں ڈالر کے اثاثے بیرون ملک بنائے اور کھربوں کے قرضے بغیر سانس لئے ڈکار لئے۔ اے خدا تیرا شکر ہے کہ آج وہ قومی مجرم کٹہرے میں کھڑے ہیں اور انقلابی ان کے پیٹ چاک کرکے قوم کی لوٹی ہوئی دولت کی پائی پائی وصول کررہے ہیں۔ اے خدا تیرا شکر ہے کہ آج عید کو تو نے عشروں کے بعد حقیقی عید بنایا۔
اب نئی حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اگلی عید تک عوام کے لیے وہ کچھ کر دے کہ اگلی عید عوام سکھ کے ساتھ گزار سکیں۔ اور عید کے موقع پر ایک اہم بات یہ کرنا چاہوں گا کہ قربانی ہمیشہ نیت کی ہوتی ہے دکھاوے کی نہیں۔ معذرت کے ساتھ مجھے یہ بات کرتے ہوئے شرمندگی ہو رہی ہے کہ قربانی جیسی نعمت کو بھی دکھاوا بنا دیا ہے، ہم آج دنیا کی تیسری قوموں میں شمار ہوتے ہیںجو سب سے زیادہ جانور قربان کرتے ہیں، مگر بیشتر لوگ ’ناک‘ رکھنے کے لیے قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں.... یعنی اللہ سے بھی دھوکہ کرنے سے باز نہیں آتے.... پاکستان کی 99فیصد آبادی غریب، درمیانے درجے کی یا سفید پوش ہے 30فیصد تنخواہ دار طبقہ ہے 9 فیصد چھوٹے موٹے کاروبار کرنے والے لوگ ہیں، اب ایسے حالات میں کسی بھی گلی محلے میں چلے جائیں ہر پارک ماشاءاللہ ”قربانی “ سے بھرا پڑا ہے، ان میں سے پتا نہیں کتنے فیصد اپنی ”ناک“ رکھنے کی خاطر قربانی دے رہے ہیں اور کتنے فیصد خالص اللہ کی رضا کے لیے؟ حالیہ عیدِ بقر میں 35 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کا بکرا، 80ہزار روپے سے 10لاکھ روپے تک گائے اور اونٹوں کے ریٹ اس سے بھی زیادہ تھے اور میں حیران ہوں کہ ایک عام تنخواہ دار شخص یہ جانور خرید کیسے سکتا ہے؟ کیا غریب، کیا امیر، کیا سفید پوش، کیا سرخ پوش، کیا تاجر، کیا سرکاری ملازم، کیا دوکاندار، کیا بینکار، کیا سبزی فروش، الغرض سبھی قربانی جیسے فریضے کو ادا کرنے کی ”استطاعت“ رکھتے ہیں۔ میں حیران اس لیے نہیں ہوں کہ اللہ کی راہ میں زیادہ جانور قربان کیوں کیے جارہے ہیں؟ حالانکہ میں کون ہوتا ہوں قصائیوں و نیم قصائیوں کی دیہاڑیاں ”برباد“ کرنے والا۔۔۔ میں ورطہ¿ حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں اس لیے ہوں کہ ایک عام تنخواہ دار شخص رزق حلال سے کیسے قربانی کا جانور خرید سکتا ہے؟ خیر یہ ایک الگ بحث ہے مقصد صرف یہ ہے کہ ہم نے اپنے آپ کو بھی ٹھیک کرنا ہے۔ اگر ہم کرپشن ختم کریں گے تو حکومت بھی سنجیدہ ہوگی اور حدیث ہے کہ حرام کی کمائی کا ایک ذرہ بھی انسان کی ساری کمائی کو داغدار بنا دیتا ہے۔ المختصر یہ کہ جس قدر ہماری حکومتیں کرپٹ رہیں ہم اس سے زیادہ کرپٹ ہو چکے ہیں،ہماری ”قربانی“ میں رزق حلال کا عنصر ہونا چاہیے، صرف جانور خرید کر دکھاوے کے لیے اس کی ”بلی“ چڑھا دینے سے اللہ راضی نہیں ہوتا، اور نہ ضمیر ہی مطمئن ہوتا ہے اور حقیقی قربانی اس دن ہوگی جب لوگوں میں احساس پیدا ہوگا، غریبوں کے لیے درد پیدا ہوگا ورنہ لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈال کرقربانی دی بھی تو کیا دی!!!
دوسری اہم بات یہ کہ قربانی کے بعد صفائی ستھرائی کا عمل بھی بہترین ہے۔ہر سال اربوں روپے صفائی ستھرائی کے لیے خرچ کرتی ہے مگر ہر یونین کونسل میں قربانی کی نگرانی نہیں کر سکتی اور نہ ہی جگہ مختص کر سکتی ہے کہ اس جگہ کے سوا شہر میں کہیں قربانی کی اجازت نہیں.... میرے خیال میں یہ کام وزارت مذہبی امور یا بیت المال کی زیر نگرانی ہونا چاہیے۔ اُمید ہے نئی حکومت اس عید کے تجربے کے بعد اگلی عید کے لیے نیا لائحہ عمل طے کرے گی، جانوروں کی خریداری سے لے کر گوشت کی تقسیم، جانور کی کھال اور الائشوں کو ٹھکانے لگانے تک کے کام کا ایک سسٹم کے مطابق خود انتظام کرے گی تاکہ ہم سب مسائل سے بچ کر سنت ابراہیمیؑ ادا کر سکیں(عید مبارک)۔
٭٭٭٭٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024