عمران کی پہلی نظر چوہدری پرویز الٰہی پر پڑی
عوامی طور پر سپیکر پنجاب اسمبلی اتنا اہم اور ایکٹو نہیں رہا جتنا چوہدری پرویز الٰہی ہیں۔ سپیکر اتنا زبردست کبھی نہیں رہا۔ اپوزیشن میںبھی وہ کم پوزیشن میں نہ تھے۔ وہ مخالفوں کی آنکھوں میں کھٹکتے رہے تب بھی وہ اتنا ہی مقبول تھے۔ پنجاب میں ایک ہی سیاستدان نظر آ رہے ہیں اور وہ چودھری صاحب ہیں۔ صحافی ان کے ساتھ تھے، تب بھی اور اب بھی۔ بس اب ان سے ملاقات نہیں ہوئی۔ چوہدری صاحب حکومتی معاملات میں بھی بہت زور شور سے آئے ہیں۔
قائم مقام گورنر کے طور پر انہوں نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے حلف لیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب وہ حکومت کیلئے بہتر کام کر سکیں گے۔ بزدار صاحب ق لیگ سے متعلق رہے ہیں۔ ان سے ملاقات نہیں ہوئی کبھی کبھی وہ خود بھی فون کرتے تھے۔ اب کئی دن سے ان کے ساتھ فون پربھی بات نہیں ہوئی جبکہ اس حوالے سے برادرم عثمان یوسف بھی بہت سرگرم تھے۔ وہ پہلے بھی چوہدری صاحب اور دوستوں کے درمیان ایک رابطے کے لئے بہت پسندیدہ تھے۔
پنجاب اسمبلی میں چوہدری صاحب نے حمزہ شہباز کو پورا موقع دیا کہ وہ تقریر کر سکیں۔ حمزہ نے مفصل گفتگو کی مگر ان کے اپنے دور حکومت میں کیا ہوا کیا نہ ہوا۔ انہوں نے بیان نہیں کیا۔
جگنو محسن نے لوٹا یعنی لوٹی ہونے کا مظاہرہ کیا۔ ووٹ عمران خاں کے خلاف نہ دیا بلکہ سب کو دکھا کے عمران خان کے امیدوار کو دیا۔ مگر عمران خان نے جگنو کے شوہر نامدار نجم سیٹھی سے کوئی رعایت نہیں کی۔ ان کے روئیے کو دیکھتے ہوئے نجم نے استعفیٰ دے دیا۔ یہ استعفیٰ برطرفی ہوتی ہے۔
ایوان میں ہر طرف جگنو کو دیکھ کر سرگوشیاں ہوتی رہیں۔ جگنو جو کرے اب کچھ نہیںہو گا۔ عمران خان نے نجم کو نہیں رہنے دیا۔
زرداری صاحب نے اعتزاز احسن کو اپنا صدارتی امیدوار نامزد کرکے بہت اچھا کیا۔ زرداری بہترین اور بروقت فیصلے کرنے والے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ اعتزاز اور زرداری صاحب میں کچھ فاصلہ ہوا تھا۔ مگر یہ فیصلہ بڑا ہے اور فاصلے مٹانے کے لئے کافی سے زیادہ ہے۔ اعتزاز احسن کو صدر پاکستان ہونا چاہئے۔ وہ نہ بنے مگر عارف علوی کوئی مناسب انتخاب نہیں ہے۔ یہ جیتے ہوئے آدمی کی بے نیازی کی طرح اور خاص مہربانی ہے۔
رفیق رجوانہ پنجاب کے اچھے گورنر تھے اور چوہدری سرور بھی۔ انہیں یہ فرق پتہ ہے کہ ن لیگ کے گورنر اور تحریک انصاف کے گورنر میں کیا فرق ہے۔ انہوں نے کہا کہ منتخب ہو کر پارلیمنٹ لاجز میں رہوں گا۔ تو گورنر ہاﺅس پنجاب کہاں منتقل ہو رہا ہے۔ افسوس ہے کہ اب چوہدری سرور اور عارف علوی کو گورنر ہاﺅس میں رہنا نصیب نہیں ہو گا۔
آخر گورنر کرتا کیا ہے۔ رجوانہ صاحب اور چوہدری سرور نے یہاں تقاریب کروانے کی اجازت دے رکھی تھی۔ ایک رونق تھی۔ اس کا ایک فائدہ تھا کہ گورنر پنجاب جو بھی ہوتا کم از کم اسے تقریب کی صدارت کرنے کا موقع مل جاتا تھا۔
بات چوہدری پرویز الٰہی کی محبت اور سیاست کے ذکر سے شروع ہوئی تھی۔ وہ آج کل قائم مقام گورنر ہیں۔ ویسے معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ اصل گورنر صاحب بھی قائم مقام گورنر کی طرح لگتا تھا۔ چوہدری صاحب نے بڑی مدت کے بعد ارکان پنجاب اسمبلی کو ناشتہ کرایا ہے۔ ارکان کے چہروں پر خوشی دیدنی تھی۔ حکومت اور خدمت اس طرح ایک ہو جاتی ہے۔
چوہدری صاحب نے ایک بڑی بات کی ہے۔ بڑی مدت کے بعد ایک غریب آدمی وزیر اعلیٰ بنا ہے۔ اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ تبدیلی آ گئی ہے۔ پنجاب اسمبلی میں کئی ارکان کھڑے تھے جگہ ہی نہ تھی۔ اس کا مطلب ہے کہ آج سب ارکان آئے تھے ورنہ ن لیگ کی حکومت میں کبھی یہ واقعہ پیش نہ آیا تھا۔ کچھ خواتین بھی کھڑی کی کھڑی رہ گئیں مگر وہاں کسی مرد رکن کو یہ خیال نہ آیا کہ وہ کھڑا ہو جائے اور خواتین کو بیٹھنے کا موقع دے۔ یہ پابندیاں صرف عام لوگوں کے لئے ہیں۔ ”خاص“ لوگ اس سے بالاتر ہیں۔
ایک عام آدمی پنجاب کا حکمران آیا ہے تو باتیں بنائی جا رہی ہیں۔ میرے خیال میں عثمان بزدار ایک کامیاب وزیر اعلیٰ بنے گا۔ اسے چوہدری پرویز الٰہی کی حمایت اور مدد بھی حاصل ہو گی۔ چوہدری صاحب کے سپیکر بنتے ہی مخالفوں پر سکتہ طاری ہو گیا ہے۔
سنا ہے برادرم علیم خان اداس ہیں۔ اس کی تفصیلات کیا ہیں وہ آج اسلام آباد میں ان لوگوں کے ساتھ گئے ہیں جن کی عمران خان سے ملاقات ہو گی۔ عمران خان علیم خان کو بہت دوست رکھتے ہیں۔ وہ یقیناً علیم خان کے لئے کوئی اچھا فیصلہ کریں گے۔ وہ فیصلے ان رشتوں سے دور ہو کے کر رہے ہیں۔
ان کی تقریب حلف برداری میں ان کی فیملی کا کوئی آدمی شریک نہ تھا۔ صرف ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی تھیں۔ جن کی موجودگی سے آسودگی کی کیفیت آس پاس رہی۔ عمران کو یقین تھا کہ ان کی فیملی میانوالی کو اپنی جاگیر بنا لے گی۔ ہوتا یہ ہے کہ وزیراعظم کی شفقتوں سے ناجائز فائدے اٹھائے جاتے ہیں فیملی کا ہر فرد خود بلکہ خود بخود وزیراعظم بن جاتا ہے۔ یہ صرف ایک فیملی تک محدود نہیں ہے۔ وزیراعظم کوئی ہو یہ تو ہوتا ہے؟ مجھ سے اگر لوگوں نے ذکر کیا کہ اب تو نیازیوں کی حکومت آ گئی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ حکمت حکومت کے لئے ضروری ہے۔ حکمت عملی کو کچھ اور چیز بنا دیا گیا ہے۔ ورنہ اس لفظ کو حکمران سمجھتے تو انہیں حکومت کرنا آ جاتا۔
آج پہلی بار میں نے عمران خان کی حلف برداری کی تقریب میں سنا کہ اس نے اپنے نام کے ساتھ نیازی کا لفظ استعمال کیا۔ ہم اس کی ہر طرح کی کامیابی کے خواہشمند ہیں اور دعا گو ہیں۔ میں عمران کی کامیابی کو اپنی کامیابی سمجھتا ہوں مگر ناکامیاں ہمیشہ مجھے تلاش کر لیتی ہیں۔ مجھے اچھا لگا کہ عمران خان نے سب سے پہلے چوہدری پرویز الٰہی کو سپیکر پنجاب اسمبلی مقرر کیا۔ وہ ان کی پارٹی سے تعلق نہیں رکھتے۔ اہل، مستحق شخص قابل اعتبار اور دوست کون ہے۔ ان کی نظر سب سے پہلے چوہدری پرویز الٰہی پر پڑی۔ اور پھر اپنی پارٹی میں بھی ایسے لوگوں کو سامنے لائے۔ عمران خان اور چوہدری پرویز الٰہی کو مبارک ہو۔
٭٭٭٭٭