امام مسجد نبوی کا خطبۂ حج میں مسلم امہ کیلئے اتحاد و یکجہتی کا درس اور وزیراعظم عمران خان کا ریاست مدینہ کا فلسفہ
امام مسجد نبوی شیخ حسین بن عبدالعزیز نے اس امر پر زور دیا ہے کہ مسلمان تقویٰ اختیار کریں تاکہ فلاح پاسکیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توحید پر زور دیا اور اللہ کے برابر کسی کو کھڑا کرنے کی مذمت کی ہے۔ اللہ غرور اور تکبر کو پسند نہیں کرتا‘ اخلاق حسنہ معاشرے کی کامیابی کا ضامن ہے۔ گزشتہ روز مسجد نمرہ مکۃ المکرمہ میں خطبۂ حج دیتے ہوئے امام مسجد نبوی نے کہا کہ اللہ نے عدل و انصاف سے فیصلے کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اللہ کا حکم ہے فیصلہ سازی عدل کی بنیاد پر کی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مناسک حج میں نبی پاک ﷺ کی دی گئی تعلیمات کا اتباع کرنا چاہیے۔ نبی پاک ﷺ کی پیش کی گئی اخلاقیات کسی بھی بے گناہ کو نقصان پہنچانے سے روکتی ہیں‘ حسن اخلاق سے ہی اسلام آفاقی دین ثابت ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ پاک نے سورۂ حجرات میں افواہوں کی تصدیق کرنے کا حکم دیا۔ اللہ تعالیٰ عرفہ میں نیک لوگوں کو بخش دیتا ہے۔ میدان عرفات میں حسن اخلاق مکمل کردیئے گئے۔ حکمران ایسا ہونا چاہیے جو اللہ کی اطاعت کرے اور ہر طرح کی برائی کو روکے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو حکمرانوں کی فرمانبرداری اور اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ آج توبہ اور مغفرت کا دن ہے۔ شریعت نے سود خوری اور جوئے کو حرام قرار دیا ہے۔ معاشرے میں امن کیلئے ہر مسلمان کو کوشش کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ذات باری تعالیٰ کے ان احکام کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان غلبہ حاصل کریں۔ حج کے موقع پر فرقہ بندیوں اور سیاسی نعروں کو جگہ نہ دی جائے۔ وہ مسلم حکمرانوں‘ علمائ‘ والدین‘ اساتذہ اور ذرائع ابلاغ کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اخلاق فاضلہ کا درس دیں اور اپنی آنیوالی نسل اچھے اخلاق سے آراستہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ ہمارے لئے اسوۂ حسنہ اور ہم سب کیلئے مشعل راہ ہے۔ آپ مکمل اور بہترین اخلاق کے مالک تھے۔ آج سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے مالی اور اقتصادی معاملات پر شریعت کے بتائے ہوئے اخلاق کے تحت عمل کریں۔ انہوں نے کہا‘ کبھی کوئی حکومت اپنے شہریوں کی اصلاح نہیں کرسکتی جب تک وہ ان میں بنیادی اخلاق پیدا نہ کرے۔
میدان عرفات میں اخوت و محبت اور اتحاد و یکجہتی کی علامت بنے 20 لاکھ سے زائد فرزندان توحید نے پیر کے روز حج کا اہم رکن وقوف عرفات ادا کیا۔ حجاج کرام نے ظہر اور عصر کی نمازیں ایک ساتھ ادا کیں اور غروب آفتاب تک یہاں قیام کرتے ہوئے عبادات میں مصروف رہے۔ غروب آفتاب کے ساتھ ہی تمام فرزندان توحید مزدلفہ روانہ ہوگئے جہاں مغرب اور عشاء کی دونوں قصر نمازیں ایک ساتھ ادا کیں اور رات کھلے آسمان تلے عبادت میں گزاری۔ منگل کے روز فرزندان توحید نے فریضہ حج کی ادائیگی کے آخری مراحل میں نماز عیدالاضحی ادا کی اور جانوروں کی قربانی دی۔ اسلامیان پاکستان آج عیدالاضحی منا رہے ہیں۔ ملک کی تمام مساجد‘ عیدگاہوں اور کھلے مقامات پر نماز عید کی ادائیگی کے بعد جانوروں کی قربانی کا فریضہ ادا کیا جائیگا۔ فریضۂ حج اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں شامل ہے جس کی ادائیگی ہر صاحب استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔ درحقیقت فریضۂ حج نے ہی دین اسلام کو تمام ادیان سے ممتاز بنایا ہے کہ اس فریضہ کی ادائیگی کیلئے دنیا بھر سے لاکھوں فرزندان توحید میدان عرفات میں جمع ہو کر اسلام کے دین برحق ہونے کی گواہی دیتے ہیں اور اتحاد و یکجہتی ٔ ملت کا بے مثال عملی مظاہرہ کرتے ہیں۔ سنت ابراہیمی پر عمل پیرا فرزندان توحید ارکان حج ادا کرتے ہوئے علامہ اقبال کے اس شعر کی عملی تصویر بنے نظر آتے ہیں کہ…؎
بندہ و صاحب و محتاج و غنی ایک ہوئے
تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے
رواں سال بھی دنیا بھر سے آئے ہوئے 20 لاکھ سے زائد فرزندان توحید نے حج کی سعادت حاصل کی جو عرفات کے ایک ہی میدان میں اسلام کے ایک ہی پرچم تلے جمع ہو کر ذات باری تعالیٰ کے وحدہ لاشریک ہونے کی گواہی و اعتراف کا عملی مظاہرہ اور اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے قالب میں ڈھالنے کا عہد مشترکہ ہے۔ کسی دوسرے مذہب میں اتحاد و یکجہتی کی ایسی فضا کبھی قائم ہوئی ہے نہ نظر آتی ہے چنانچہ الحادی طاغوتی قوتوں کو یہی خوف و دھڑکا لاحق رہتا ہے کہ مسلم امہ میں فریضۂ حج کی ادائیگی کے موقع پر میدان عرفات میں بلاامتیاز رنگ و نسل ایک دوسرے کے پائوں سے پائوں ملا کر اور ایک دوسرے کے دکھ درد کا احساس کرتے ہوئے جس اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے‘ اگر انہوں نے اپنے معمولات زندگی میں بھی اسی اتحاد و یکجہتی کو شعار بنالیا تو امتِ واحدہ کی صورت میں متحد ہوئی اس قوم کو کسی بھی دنیاوی طاقت کے ذریعے شکست دینا ناممکن ہو جائیگا۔ اگر آج یہ امتِ واحدہ طاغوتی طاقتوں کے مقابلے میں منتشر ہو کر مغلوب ہوئی ہے تو اس میں ہمارا اپنا ہی قصور ہے کہ ہم نے اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے مطابق بسر کرنے کا چلن ہی اختیار نہیں کیا اور فرقہ بندیوں میں بٹ کر اور فروعی اختلافات کو ہوا دے کر ہم نے اتحاد ملت کی فضا مستحکم ہی نہیں ہونے دی۔ چنانچہ امتِ واحدہ کے اتحاد سے خوفزدہ لادین و ملحد عناصر نے ہنود و یہود کی صورت میں باہم متحد ہو کر مسلم امہ میں درآنے والی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور اس میں موجود فرقہ ورانہ تعصبات کو اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا۔ ہماری یہی کمزوریاں ہیں جن کے باعث آج مسلمان دہشت گردی کے لیبل کی زد میں آکر دنیا بھر میں مشکوک ٹھہرائے جارہے ہیں اور انہیں منتشر کرکے کمزور کرنے کی ہنودو یہود و نصاریٰ کی سازشیں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہیں۔
مسلم امہ کیلئے اس سے بڑا المیہ اور کیا ہو سکتا ہے کہ قدرت کی طرف سے ودیعت کئے گئے تمام وسائل اور ایک کلمہ کی بنیاد پر حق کیلئے اکٹھے ہونے کی صلاحیت رکھنے کے باوجود ہم فرقوں‘ گروہوں میں بٹ کر اور فروعی اختلافات کا شکار ہو کر الحادی قوتوں کے سامنے بے بس ہوچکے ہیں اور آج ٹرمپ‘ مودی‘ نیتن یاہو کی شکل میں ہنود و یہود و نصاریٰ کا گٹھ جوڑ مسلم امہ کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے درپے نظر آتا ہے۔ ہم صحیح معنوں میں اسلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوں‘ جس کا درس گزشتہ روز شیخ حسین بن عبدالعزیز نے اپنے خطبۂ حج میں دیا ہے‘ تو ہمارے ہاتھوں مسلمان تو کجا‘ کسی بھی بے گناہ انسان کا خونِ ناحق بہنے کا سوال ہی پیدا نہ ہو۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ایک انسان کا قتل بلاشبہ پوری انسانیت کا قتل ہے اس لئے اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا کوئی مسلمان کسی انسان کا خون بہانے کا بھلا کیسے روادار ہو سکتا ہے۔ گزشتہ روز کے خطبۂ حج میں بھی یہی تلقین کی گئی ہے کہ اسلام میں شدت پسندی اور دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہم فریضہ حج کی ادائیگی اور عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہوئے بلاامتیاز رنگ و نسل اور فرقہ بندیوں سے بالاتر ہو کر خود کو اتحاد و یکجہتی کی لڑی میں پروتے ہوئے خدا کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں اور روضۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی اتحاد و یکجہتی کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تو ہم اس سلیقے اور ڈسپلن کو اپنے معمولات زندگی کا حصہ کیوں نہیں بنا پاتے۔ آج امتِ واحدہ اپنے اندرونی انتشار اور کمزوریوں کے باعث جس ابتلا کا شکار ہے وہ ہم سے مثالی اتحادِ امت ہی کی متقاضی ہے۔ اگر آج فریضۂ حج اور سنتِ ابراہیمی کی ادائیگی کے موقع پر بھی فلسطینی عوام قبلۂ اول کی واگزاری تو کجا‘ اپنی خودمختار ریاست کو تسلیم کرانے کیلئے بھی جاں گسل مراحل سے گزر رہے ہیں اور ٹرمپ‘ یاہو اتحاد مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت میں تبدیل کرکے وہاں صہیونی بستیاں بسانے اور بڑھانے کی سازشوں میں کامیاب ہو رہا ہے اور پھر کشمیری عوام گزشتہ 71 سال سے جاری اپنی جدوجہد آزادی میں لاکھوں جانوں کی قربانیاں دینے کے باوجود آج ٹرمپ‘ مودی گٹھ جوڑ کی حقارت آمیز توسیع پسندانہ سازشوں کی زد میں ہیں جن کی آواز دبانے کیلئے مودی سرکار کی جانب سے ظلم کا ہر حربہ آزمایا جارہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی مملکت پاکستان کی سلامتی کو تاراج کرنے کی گھنائونی منصوبہ بندیاں بھی ٹرمپ‘ مودی گٹھ جوڑ کی صورت میں سامنے آرہی ہیں تو خطبۂ حج کی روشنی میں بطور امتِ واحدہ ہمیں اپنے اعمال کا بھی ضرور جائزہ لینا چاہیے۔
ہمیں خطبۂ حج کی روشنی میں آج بحیثیت قوم سوچنا چاہیے کہ رحمت للعالمین بنا کر بھیجے گئے نبی ٔ آخری الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا اقوام عالم اور دیگر مذاہب میں تشخص خراب کرنے میں کہیں ہماری اپنی بداعمالیوں کا تو عمل دخل نہیں۔ اگر فرقوں میں بٹے مسلمان فروعی اختلافات کو ہوا دیتے ہوئے اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں کے گلے کاٹ رہے ہوں تو پھر دوسری اقوام اور دوسرے مذاہب کو دین اسلام کے حوالے سے منفی پراپیگنڈا کرنے کا کیوں موقع نہیں ملے گا۔ گزشتہ روز کے خطبۂ حج کے ذریعے بطور امت واحدہ ہمارے لئے یہی پیغام ہے کہ ہم بطور قوم اتحاد و یکجہتی کی لڑی میں پروئے جائیں اور اسلامی تعلیمات پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہو جائیں تو کوئی طاغوتی طاقت اپنے بے پناہ دنیاوی وسائل کے باوجود ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی اور شکست و نامرادی ان کا مقدر ہے۔ اس کیلئے اتحاد امت ہی شرط اول ہے۔ آج سنتِ ابراہیمی ادا کرتے ہوئے بھی ہمیں بندگانِ خدا کیلئے ایثار و قربانی کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا اور مسلم برادرہڈ کے جذبے کے تحت بے وسیلہ لوگوں کی خبرگیری کرنا ہوگی۔ بے شک قربانی کا گوشت نہیں‘ ہمارا تقویٰ ہی بارگاہِ ایزدی میں ہمارے شرف باریابی کا باعث بنے گا۔
ہمارے لئے یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ اس مملکت خداداد کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کی خواہش رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان آج وزارت عظمیٰ کے منصب جلیلہ پر متمکن ہوچکے ہیں جنہوں نے 25؍ جولائی کے انتخابات میں کامیابی کے بعد بھی اس وطن عزیز میں ریاست مدینہ کا راستہ ہموار کرنے کے عزم کا اعادہ کیا جبکہ بطور وزیراعظم انہوں نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے بھی جہاں کڑے احتساب کے تحت معاشرے کو کرپشن کے ناسور سے پاک کرنے کا اعلان کیا وہیں حکومتی سطح پر سادگی اور کفائت شعاری اپنانے کے متعدد اقدامات بھی اٹھائے۔ ان کا ریاست مدینہ کا تصور درحقیقت اسلام کی نشاۃ ثانیہ کا احیاء ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے اپنے اس عزم کو عملی قالب میں ڈھال لیا تو اس سے اتحاد امت کی بھی مثالی فضا قائم ہو جائیگی جس کی الحادی قوتوں کے عزائم کو ناکام بنانے کیلئے آج ہمیں ضرورت بھی ہے۔