بدھ ‘ 10؍ ذی الحج 1439 ھ ‘ 22؍ اگست 2018ء
قربانی کا گوشت ایمانداری سے تقسیم کریں
ملک بھر میں آج عیدالاضحی روایتی جوش جذبے اور مذہبی عقیدت و احترام کیساتھ منائی جا رہی ہے۔ ان ایام قربانی میں کروڑوں مسلمان سنت ابراہیمیؑ ادا کرتے ہوئے راہ خدا میں جانورذبح کرتے ہیں۔ا سکے بعد قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصہ اپنے لئے رکھتے ہیں۔ ایک رشتہ داروں اور ایک غریب مسکینوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ حسن اخلاق پر مبنی اس خوبصورت تقسیم کا عمل صدیوں سے جاری ہے۔ مگر جب سے یہ غارت گر فریج اور ڈیپ فریزر کا زمانہ آیا ہے یہ اپنے ساتھ نت نئی بدعات بھی لایا ہے۔ اب شرعی تقسیم میں بھی لوگ ڈنڈی مارنے لگے ہیں۔ ایک گناہ تو یہ کہ لوگ اب اچھا گوشت پہلے ہی علیحدہ کر لیتے ہیں۔ دوسرا یہ کہ زیادہ تر حصہ فریج یا ڈیپ فریزر کے پیٹ میں بھر دیتے ہیں۔ پھر جو باقی ہڈی گوشت اور پسلیاں بچ جائیں وہ غریب غرباء اور رشتہ داروں میں تقسیم کرتے ہیں۔ حالانکہ جن گھروں میں روزانہ بکرے کا گوشت پکتا ہو انہیں اس کی کیا ضرورت ہے۔ بکرے کا ہو یا گائے کااس گوشت کے اصل حقدار وہ غریب اور مسکین لوگ ہیں جنہیں پورا سال گوشت نصیب نہیں ہوتا۔ اس دن کی برکت سے چلیں وہ بھی ایک دو دن گوشت کی بوٹی کھا لیتے ہیں۔ اس لئے قربانی کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ فریج اور ڈیپ فریزر کا پیٹ بھرنے کی بجائے غریبوں کا پیٹ بھریں ورنہ قربانی کے دن بھی محلہ میں کسی غریب کے گھر دال یا سبزی پکی تو یہی دنبہ بکرا گائے یا بیل پل صراط پر اپنی قربانی کرنے والے کو پل کے پارلے جانے کی بجائے ٹکر مار کر پل سے نیچے پھینک دیگا۔
٭……٭……٭
عید سے قبل ایل پی جی کی قیمت میں ہوشر
اب یا تو لگتا ہے سبزیوں اور ایل پی جی کے درمیان مقابلہ حسن کارکردگی ہو رہا ہے یا پھر مراتھن دوڑکا مقابلہ جس میں دیکھنا ہے کون اول آتا ہے۔ اس وقت کوئی عام سبزی بھی 150 روپے کلو سے کم نہیں خاص طور پر کھانوں میں بطور مزہ اور مصالحہ استعمال ہونے والی ادرک ، لہسن اور ہرا دھنیا کو تو ہاتھ لگاتے ہی دل ڈوبنے لگتا ہے۔ یہی حال ایل پی جی گیس کا ہے جو عید سے چند روز قبل 110 روپے تک مل رہی تھی اب یکدم چھلانگ لگا کر 160 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔
دکاندار ساراالزام ڈسٹری بیوٹر کمپنیوں پر ڈال رہے ہیں اور کمپنی والے اوپر سے قیمتوں میں اضافہ کا رونا رو رہے ہیں۔ ا س ساری ڈرامہ بازی میں عوام پس رہے ہیں، کیونکہ ٹرانسپورٹ مہنگی ہو تو ہر چیز متاثر ہوتی ہے۔ اب عوام الناس کی سب سے بڑی سواری رکشہ ہی ہے جس میں بچے کھچے سفید پوش طبقے کے مظلوم سفر کرتے ہیں اب عید سے قبل ہی ان کی رکشہ والوں سے تو تو میں میں ہو رہی ہے تو یوں لگتا ہے جیسے دو بکرے سینگ لڑا رہے ہیں ۔ پچھلی حکومت جا چکی اب نئی حکومت نے اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں ا ور گیس کی قیمت میں اضافہ کو روکنا ہے۔ صرف پچھلی حکومت کو کوسنے سے اب کام نہیں چلے گا۔ غیر ملکی دولت کی واپسی بعد کی بات ہے پہلے عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنے والے ان ڈاکوئوں کی تو خبر لی جائے جو سرعام دونوں ہاتھوں سے عوام کو لوٹ رہے ہیں اور نئی حکومت بھی چپ چاپ تماشہ دیکھ رہی ہے۔
سادگی مہم وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزرا ا ور شرکا کی صرف چائے سے تواضع
وزیراعظم کی طرف سے سادگی پر عمل کا اعلان صرف زبانی کلامی نہیں تھا۔ انہوں نے جو کہا اس پر عمل بھی کر دکھایا۔ گزشتہ روز وفاقی کابینہ کے اجلاس میں شرکاء کی تواضع صرف چائے سے کی گئی کسی کیک یا بسکٹ کا تکلف نہیں کیا گیا۔ یہ ایک اچھی شروعات ہے اس پر چاروں صوبائی حکومتوں کو بھی عمل کرنا چاہئے۔ حکومتی اجلاس امور سلطنت چلانے کے لئے بلائے جاتے ہیں۔ا س میں شرکاء اگر کام سے زیادہ وقت فواکہات و لوازمات کو چبانے پر صرف کرنے لگیں تو کام کے بارے میں کیا خاک بات کرنے کا یا سوچنے کا موقع ملے گا انہیں۔ اطلاعات کے مطابق حکومت پنجاب کے اجلاس کے شرکا کو بھی صرف چائے بسکٹ پر ہی ٹرخایا گیا ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی حلف اٹھانے کے لئے گورنر ہائوس آئے تو سرکاری گاڑی کی بجائے اپنی ذاتی گاڑی پر آئے جو ایک اچھی مثال ہے۔ اب لاکھ کوئی کہے کہ خان صاحب کنجوس ہیں مگر ان کا یہ فیصلہ بروقت اورسادگی کا مظہر ہے۔ سرکاری افسران وزرا اور مشیر اجلاس میں سرکاری امور سلجھانے آتے ہیں ٹی ٹائم یا لنچ پر نہیں۔ کھانے پینے کے لئے ان کے پاس خدا کا دیا بہت کچھ ہے اس لئے وہ بھی اب بہرصورت سادگی اور اجلاس میں صرف چائے یا پانی پر ہی گزارے کی عادت ڈالیں ۔للچائی ہوئی نظروں سے فواکہات ولوازمات سے بھری پلیٹوں کو اب بھول جائیں۔ مال مفت دل بے رحم والی پالیسی اب ختم جس نے اجلاس میں منہ چلانا ہے وہ گھر سے جیبوں میں ڈرائی فروٹ بھر کر لائے۔
٭……٭……٭
جنرل باجوہ کو گلے لگانا نوجوت سنگھ سدھو کو مہنگا پڑ گیا:بھارت میں غداری کا مقدمہ
سدھو میاں کو وزیراعظم پاکستان کی تقریب حلف برداری میں شرکت مہنگی پڑ گئی۔ بھارت میں ان پر غداری کے مقدمے کی خبر عام ہے۔ اب وہ لاکھ دونوں ملکوں کے درمیان امن بھائی چارے کا ترانہ گائیں اب وندے ماترم گانے والوں کے مقابلے میں امن کی آشا کی صدائیں کوئی نہیں سنے گا۔ بھارت میں انتہا پسندی اس درجہ غالب آ گئی ہے کہ حکمران جماعت بی جے پی کا ایک مرکزی عہدیدار تک کہتا پھرتا ہے کہ مرکزی حکومت کیرالہ میں (جو اس وقت صدی کے بدترین سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے) لوگوں کی مدد نہ کرے کیونکہ وہ ایک مسلم اورعیسائی اکثریتی صوبہ ہے،، سو اب سدھو کی شامت کے لئے یہ بات بھی کافی ہے کہ وہ سکھ ہیں۔ اندرا گاندھی کے قتل اور گولڈن ٹمپل کی بربادی کے بعد کوئی بھی بھارتی حکومت سکھوں پر آنکھیں بند کر کے اعتبار نہیں کر سکتی۔ سو اب نوجوت سنگھ سدھو اٹل بہاری واجپائی کی مینار پاکستان حاضری کا ذکر کریں یا مودی کے بلااطلاع لاہور کے دوروں کا رونا روئیں نزلہ انہی پر گرے گا۔ مگر وہ میڈیا پر جس طرح ڈٹ کر پاکستانیوں کی محبت کا ذکر کر رہے ہیں وہ قابلِ تعریف ہے۔ ان کی طرح بے شمار لاکھوں امن پسند بھارتی شہری بھی دونوں ممالک میں امن کے خواہاں ہیں مگر انتہا پسندمودی سرکار اس راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے اور پاکستان کے ساتھ مخاصمت کی پالیسی اپنا کر مذہبی انتہا پسندوں کے ووٹ حاصل کرتی ہے۔