2018ء کے انتخابات کے بعد نئی پارلیمنٹ وجود میں آچکی۔ رائے دہندگان نے نئے سفر کے آغاز کیلئے پرانے سیاسی چراغ گل کردئیے۔ درجنوں روایتی سیاسی چہرے انتخابات ہار گئے۔ قومی اسمبلی میں نصف سے زیادہ اراکین نئے ہیں۔ خیبرپختونخواہ سے تعلق رکھنے والے اسد قیصر قومی اسمبلی کے نئے سپیکر منتخب ہوچکے ہیں۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے قاسم سوری ڈپٹی سپیکر منتخب ہوئے ہیں۔ نئے وزیراعظم عمران خان کا تعلق پنجاب سے ہے۔ سندھ کراچی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عارف علوی کو صدر پاکستان کے انتخاب کیلئے اُمیدوار نامزد کیا گیا ہے۔ پاکستان کے تمام صوبوں کو وفاق میں نمائندگی حاصل ہوگئی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) پرانی سیاسی جماعت ہے مگر وہ انتخابات سے پہلے اور انتخابات کے بعد سیاسی بصیرت کا مظاہرہ نہ کرسکی۔ ریاست کے طاقتور اداروں سے محاذ آرائی مسلم لیگ (ن) کو مہنگی پڑی۔ انتخابات کے بعد دھاندلی کے نام پر احتجاج میں بھی مسلم لیگ (ن) جمہوری روایات کو بھول گئی۔ عمران خان نے اپنی پہلی وکٹری سپیچ میں اپوزیشن جماعتوں کو دھاندلی کیخلاف تحقیقات کے سلسلے میں تعاون کی پیش کش کردی تھی اسکے باوجود مسلم لیگ(ن) نے قومی اسمبلی کو مچھلی منڈی بنادیا۔ قومی اسمبلی کی یہ جمہوری روایت رہی ہے کہ وزیراعظم کے انتخاب کے بعد قائد ایوان کے خطاب کو خاموشی سے سنا جاتا ہے مگر مسلم لیگ(ن) کے اراکین نے احتجاج کو اشتعال میں بدل دیا اور منتخب وزیراعظم عمران خان بھی تحمل اور برداشت کا مظاہرہ کرنے سے قاصر رہے۔ تحریک انصاف کے اراکین بھی اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف کے خطاب کے دوران نعرے بازی کرتے رہے حالاں کہ حکومتی جماعت پر ایوان کو خوش اسلوبی سے چلانے کی زیادہ ذمے داری عائدہوتی ہے۔ اس کا رویہ اپوزیشن جماعت جیسا نہیں ہوسکتا۔
بلاول بھٹو زرداری پہلی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ ان کا پہلا خطاب مدبرانہ تھا انہوں نے عمران خان، میاں شہباز شریف سے بہتر پرفارم کرکے ون ڈے میچ جیت لیا۔ بلاول بھٹو اگر سندھ کے وزیراعلیٰ منتخب ہوکر صوبے کو ماڈل بناتے تو ان کا سیاسی مستقبل روشن ہوجاتا مگر آصف علی زرداری دس سال کے بعد بھی سندھ پر اپنا تسلط چھوڑنے کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔ وہ خود بھی قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوگئے ہیں۔ ستر سال کے بعد بھی پاکستان کا پارلیمانی جمہوری نظام مضبوط اور مستحکم نہیں ہوسکا۔ صدارتی نظام پر سنجیدگی سے غور کیا جانا چاہیئے تاکہ جمہوری نظام کو ہارس ٹریڈنگ، بلیک میلنگ، مفاد پرستی اور موقع پرستی سے پاک کیا جاسکے۔ مضبوط، شفاف اور مستحکم سیاسی اور جمہوری نظام ہی طاقتور ریاستی اداروں کی مداخلت کو روک سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بیس رکنی وفاقی کابینہ نامزد کی ہے جس میں پندرہ وفاقی وزراء اور پانچ مشیر شامل ہیں۔ تحریک انصاف کو اگر قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل ہوتی تو کابینہ کی شکل مختلف ہوتی۔ پارلیمانی مخلوط حکومت میں وزیراعظم کے ہاتھ بندھے ہوتے ہیں اور اسے ’’نظریۂ ضرورت‘‘ کے تحت فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ وزیراعظم کو اپنے مشیر نامزد کرنے میں پوری آزادی تھی لہذا انہوں نے نیک نام، اہل اور تجربہ کار شخصیات کو اپنا مشیر نامزد کیا ہے جن کی کارکردگی منتخب وفاقی وزراء سے بہت بہتر ہوگی۔ اگر پارلیمانی جمہوری نظام میں بھی وزیراعظم کو براہ راست منتخب کیا جائے اور وہ پارلیمنٹ کے دبائو سے آزاد ہوکر کابینہ سازی اور حکومت چلانے کا اختیار رکھتا ہو تو جمہوری نظام بھی مستحکم ہوسکتا ہے اور عوام کو اچھی حکمرانی بھی مل سکتی ہے۔ افسوس ہم ’’جمودئیے‘‘ اور ’’تقلیدئیے‘‘ بن کر رہ گئے ہیں اور گزشتہ ستر سالوں سے ایک ہی دائرے میں سفر کررہے ہیں۔
نئی کابینہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان معاشی استحکام اور ریاستی اداروں میں جوہری اصلاحات لانے میں سنجیدہ ہیں۔ اپنے اس مشن کو پورا کرنے کیلئے انہوں نے چار ٹیکنو کریٹس کو کابینہ میں شامل کیا ہے۔ گویا ان کی حکومت منتخب سیاست دانوں اور ٹیکنو کریٹس کا حسین امتزاج ہوگی۔ اگر عمران خان کو پورا موقع ملا تو وہ انشاء اللہ پاکستان کو درست ٹریک پر ڈال دینگے جسکے نتیجے میں عوام اور ریاستی ادارے دونوں مضبوط اور مستحکم ہونگے۔ وزیراعظم عمران خان کا قوم سے پہلا خطاب واضح، دوٹوک اور دردمندانہ تھا جس میں انہوں نے قوم کو انقلابی اور فلاحی پروگرام دیا۔ بلاشک عمران خان عوام کے مسائل کا پورا ادراک رکھتے ہیں اور ان کو حل کرنے کا قابل عمل منصوبہ بھی ان کے ذہن میں موجود ہے۔ انکے خطاب کے ایک ایک حرف سے انکی نیک نیتی ظاہر ہورہی تھی جو کامیابی کا بنیادی اُصول ہے۔ عمران خان قومی خزانے کے استعمال کے سلسلے میں بڑے حساس ہیں اور اس ضمن میں وہ قائداعظم کے پیروکار ہیں۔ پاکستان کے سابقہ حکمرانوں نے جس بے دردی اور سنگدلی کے ساتھ قوم کے پیسے کو ذاتی عیش و عشرت پر صرف کیا اس کا اندازہ اس انکشاف سے لگایا جاسکتا ہے کہ سابق وزیراعظم نے وزیراعظم ہائوس میں 425ملازم اور 80گاڑیاں رکھی ہوئی تھیں جن میں 33بلٹ پروف ہیں۔ عمران خان نے قوم کو یقین دلایا کہ وہ اپنے استعمال کیلئے صرف دو گاڑیاں رکھیں گے اور انکے گھر میں صرف دو ملازم ہونگے۔نظریاتی اور مفاداتی لیڈر میں یہی فرق ہوتا ہے۔ عمران خان ریاست مدینہ کو اپنا رول ماڈل سمجھتے ہیں۔ ان کا وژن یہ ہے کہ پاکستان کے تمام شہری عزت آبرو کے ساتھ زندگی گزارنے کے قابل ہوجائیں اور وہ وقت بھی آئے کہ پاکستان میں کوئی زکوٰۃ لینے والا نہ ہو۔ یہ بہت بڑا مشن ہے اگر اللہ کی تائید اور عوام کی حمایت عمران خان کو حاصل رہی تو وہ یہ کارنامہ بھی کرکھائیں گے۔ پاکستانی قوم کو عمران خان کی صورت میں نیک نیت اور پر عزم پاسباں مل گیا ہے اللہ ان کا حامی و ناصر ہو۔
عمران خان نے اپنے ولولہ انگیز خطاب میں ترجیحات کا درست تعین کیا اور ان بنیادی عوامی مسائل پر توجہ دینے کا عزم کیا جن کو گزشتہ حکمرانوں نے نظر انداز کیا۔ برآمدات میں اضافہ، سرمایہ کاری کے ذریعے روزگار کے مواقع پیدا کرنا، تعلیم، صحت اور صاف پانی کی سہولتیں، سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کو معیاری بنانا، انصاف کا فوری اور سستا نظام، پولیس کو پروفیشنل اور عوامی بنانے کیلئے اسکی تشکیل نو، سول سروس کو فعال اور مستعد بنانے کیلئے اصلاحات،سزا اور جزا کا نظام قائم کرنا، ٹیکس نیٹ میں اضافہ، ریاستی اداروں کو معیاری بنانا، منی لانڈرنگ کو روکنے کیلئے ٹاسک فورس کا قیام، اورسیز پاکستانیوں کیلئے پاکستان کے اندر سرمایہ کاری کیلئے پراعتماد اور سازگار ماحول فراہم کرنا، قرضوں کی لعنت سے نجات حاصل کرکے پاکستان کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا، غربت کا خاتمہ، کسانوں کے معیار زندگی میں اضافہ، بے گھر افراد کیلئے پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر، بلدیاتی نظام کو مضبوط اور مستحکم بنانا، کرپشن فری پاکستان، قانون کی حکمرانی، حکومتی اخراجات میں کمی اور پرانے مفاد پرستانہ مائنڈ سیٹ اور کرپٹ کلچر کی تبدیلی ایسے عملی اقدامات ہیں جن کے نتیجے میں فلاحی ریاست کا قیام ممکن ہوسکتا ہے۔
عمران خان کے خطاب سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ سٹیٹس کو توڑنے اور اصلاحات کے ذریعے پرامن انقلاب لانے کے آرزو مند ہیں۔ یہ تجربہ بھٹو شہید کرچکے ہیں وہ کامیاب نہ ہوسکے اور سٹیٹس کو کی قوتوں نے ان کو ’’عبرت ناک مثال‘‘ بنادیا البتہ عمران خان کو سازگار حالات ملے ہیں ریاستی ادارے اور پاکستان کے نوجوان انکے ساتھ کھڑے ہیں۔ قوم میں تبدیلی کی خواہش موجود ہے۔ عمران خان طاقتور مافیاز کا مقابلہ عوامی طاقت کے ساتھ ہی کرسکتے ہیں۔ لازم ہے کہ وہ عوام کے ساتھ رابطے میں رہیں اور ہرماہ ایک عوامی ریلی کریں تاکہ عوام دشمن عناصر قانون اور عوامی طاقت دونوں کے دبائو میں رہیں۔ عمران خان جب خود سادگی کا مظاہرہ کریں گے اور اپنے اوپر قانون نافذ کرینگے تو وفاقی صوبائی وزراء اور سرکاری افسر بھی وزیراعظم کی تقلید کرینگے اور ایسا ماحول اور کلچر پیدا ہوگا جو عوام میں ایک تحریک پیدا کردیگا اور عوام اپنے باعمل باکردار لیڈر کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہوجائینگے۔ سٹیٹس کو کے حامی عوام دشمن عناصر کے پاس اسکے سوا اور کوئی آپشن نہیں ہوگا کہ وہ قانون اور عوام کے سامنے سرینڈر کردیں۔ وزیراعظم، چیف جسٹس پاکستان، پاک فوج کے آرمی چیف اور چیئرمین نیب کے اشتراک اور تعاون سے پاکستان کو پائوں پر کھڑا کرنے میں کامیاب ہوجائینگے۔ عوام نے شریف خاندان کو تیس سال دئیے اب وہ عمران خان کو کم از کم ایک سال سکون سے کام کرنے دیں‘ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائیگا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38