اعتزازاحسن کیلئے یہ حیرانیوں کا دور ہے۔ وہ زرداری کے صدارتی امیدوار کی نامزدگی پر حیران نہیں‘ پریشان بھی ہیں۔ الٰہی ماجرہ کیا ہے۔ سندھ ساگر کی ہزاروں برس قدیم دانش کا وارث اعتزازاحسن اپنی نامزدگی کا سبب جاننا چاہتا تھا کہ نیا اعلان ہوا کہ ان کی صدارتی امیدوار کے طور پر نامزدگی حتمی نہیں ہے۔ نوازشریف‘ رضا ربانی کو مشترکہ صدارتی امیدوار نامزد کرسکتے ہیں کیونکہ وہ اعتزازاحسن کے حوالے سے ان کا ذاتی طور پراحترام نہ کرنے شکوہ بھی کر چکے ہیں جبکہ سینٹ میں سنجرانی صاحب کی جگہ میر حاصل بزنجو کو چیئرمین تجویز کیا جا سکتا ہے۔ صدرمملکت ممنون حسین کی مدت صدارت 8 ستمبر 2018ء کو ختم ہو رہی ہے‘ اس لئے 13 ویں صدر کے لیے انتخاب 4 ستمبر 2018 کو ہوگا۔ تحریک انصاف نے کراچی کے معروف معالج دندان (Dentist) ڈاکٹر عارف علوی کو پی ٹی آئی کا صدارتی امیدوار نامزد کیا ہے۔ سابق صدر زرداری نے اعتزازاحسن کو صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا‘ لیکن بعدازاں اسے حتمی فیصلہ قرار نہیں دیا تھا۔ اب مشترکہ امیدوار لانے کیلئے اتحادیوں سے مذاکرات شروع کر دیئے ہیں۔ الیکشن کمشن نے صدارتی انتخاب کے لیے شیڈول جاری کر دیا گیا ہے جس کے تحت کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ 27 اگست ہے۔ صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ 4 ستمبر کو قومی اسمبلی، سینٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں صبح 10 بجے سے شام 4 بجے تک ہوگی۔ تحریک انصاف قومی اسمبلی اور دو صوبوں میں اکثریت رکھتی ہے جب کہ بلوچستان میں پی ٹی آئی مخلوط حکومت میں شامل ہے اور سینٹ میں بھی اسے اتحادیوں کا تعاون حاصل رہے گا۔
حزب اختلاف کی جماعتوں‘مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کے درمیان صدارتی انتخاب کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔ الیکشن کمشن کی جانب سے صدارتی انتخاب کیلئے شیڈول پہلے ہی جاری کر دیا گیا ہے جس کے تحت کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی آخری تاریخ 27 اگست ہے۔ صدارتی انتخاب کے لیے پولنگ 4 ستمبر کو قومی اسمبلی‘ سینٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں صبح 10 بجے سے شام 4 بجے تک ہوگی۔ تحریک انصاف قومی اسمبلی اور دو صوبوں میں اکثریت رکھتی ہے جبکہ بلوچستان میں پی ٹی آئی مخلوط حکومت میں شامل ہے اور سینٹ میں بھی اسے اتحادیوں کا تعاون حاصل رہے گا۔ زرداری صاحب اور بلاول اب پارلیمان کے رکن ہیں‘ لیکن بدلے ہوئے زمینی حقائق نے صورتحال یکسر بدل کر رکھ دی ہے۔ بلاول مکمل شکست سے بال بال بچے ہیں‘ لیکن لیاری کے قلعے سے اپنے ہی ایک سابق کارکن کے ہاتھوں بری طرح شکست کھا گئے تھے جبکہ لاڑکانہ سے بھی رینگ رینگ کر جیتے ہیں۔آصف علی زرداری نے 27 دسمبر 2016کو بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر گڑھی خدا بخش میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ اور ان کا بیٹا بلاول بھٹو زرداری قومی اسمبلی کا ضمنی انتخاب لڑیں گے جس پر جناب اعتزازاحسن نے برملا کہا تھا کہ انہیں آصف زرداری کے انتخاب لڑنے کے اعلان پر حیرانی ہوئی اور ساتھ ہی اس خدشے کا بھی اظہار کیا کہ اس اعلان کے بعد پنجاب میں پیپلزپارٹی کی بحالی کی کوششیں متاثر ہوسکتی ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا جب پیپلزپارٹی کے کسی سینئر رہنما نے پارٹی کے اندر سے آصف زرداری کے فیصلے پر برملا تشویش کا اظہار کیا تھا۔ یہ بیان کھلم کھلا اظہار تھا کہ پیپلزپارٹی پنجاب کی مقامی قیادت آصف زرداری کی جگہ بلاول بھٹو کو پنجاب میں متحرک دیکھنا چاہتی ہے۔ مایوسی اور دباؤ کے مشکل اور کٹھن دور میں پیپلزپارٹی کو پنجاب میں بحال کرنے کے لیے بلاول کو متحرک کرنے کی حکمت عملی بھی ترتیب دی گئی تھی۔ بلاول بھٹواور ان کے والد آصف زرداری نے لاہور میں مستقل قیام کرنے کا اعلان کیا تھا کہ وہ اب اسی شہر میں سیاست کریں گے۔ کہتے ہیں کہ لاہور کی جدید آبادی بحریہ ٹاؤن میں قائم بلاول ہاؤس ملک ریاض نے انہیں دوستی میں تحفتاً دیا تھا جس کی بعد ازاں گول مول تردید بھی کی گئی تھی۔ اس وقت اعتزازاحسن اور ان سے متاثرہ گروپ کا واضح مؤقف تھا کہ بلاول کے ذریعے پنجاب میں پیپلزپارٹی میں دوبارہ جان ڈالی جاسکتی ہے‘ لیکن آصف زرداری کے متحرک ہونے سے ان کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سخت گیر مؤقف اختیار کرکے ہی پیپلزپارٹی کو صوبے میں زندہ کیا جاسکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے بلاول بھٹو بہترین انتخاب ہو سکتے ہیں۔ ان کا گلہ ہے کہ آصف زرداری نرم انداز اختیار کرتے تھے اور شریف برداران کو ساتھ لے کر چلتے تھے۔ زرداری کے سامنے 2018ء کے انتخابات کا ہدف نہیں تھا۔ زرداری یہ چاہتے تھے کہ جنوبی پنجاب پر زور دیا جائے تاکہ وہاں سے کامیابی حاصل ہو اور اس کے علاوہ وسطی پنجاب سے کچھ نشستیں نکالی جائیں۔ جنوبی پنجاب کی حد تک وہ کامیاب رہے ہیں‘ لیکن پنجاب میں مخلوط حکومت بنانے کا خواب پورا نہ ہوسکا۔ بلاول زرداری نئے حکمرانوں کو پنجاب میں چیلنج دے سکتے ہیں جبکہ ان کے والد آصف علی زرداری کا طرز سیاست اس سے بالکل مختلف ہے جن کی تمام تر جدوجہد کا مرکزو محور بیرون ملک بے نامی کھاتوں میں پڑے اربوں ڈالر کا تحفظ ہے جس کے لئے وہ سیاست سمیت ہر چیز داؤ ہر لگانے کو تیار ہیں۔ اس معاملے میں جناب نواز شریف اور آصف زرداری باہم ہم قدم اور ہم خیال ہیں وہ چمڑی جائے دمڑی نہ جائے کے صدیوں قدیم کہاوت کو زندہ کئے ہوئے ہیں۔آصف زرداری کا سب کچھ‘ سارا اثاثہ بلاول ہیں‘ لیکن میدان سیاست کے رنگ عجب نرالے ہیں کہ آصف زرداری کی موجودگی میں بلاول کا دیا نہیں جل سکتا۔ اس لئے اگر وہ بلاول کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی ذات کی قربانی دینا ہوگی جوکہ ناگزیر حقیقت ہے۔ اعتراز احسن کھل کر جو کچھ کہتے رہے ہیں‘ وہ پیپلز پارٹی پنجاب کے کئی رہنماؤں کے دل بات میں ہے‘ لیکن وہ اس کو زبان پر نہیں لاتے۔پارٹی کے کئی رہنما پیپلزپارٹی کی شکست کا ذمہ دار آصف زرداری کو قرار دیتے ہیں اور اب آصف علی زرداری کی پارلیمانی سیاست میں واپسی سے ان لوگوں کو مایوسی ہوئی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے متحرک ہونے سے پیپلز پارٹی پنجاب کے رہنماؤں اور کارکنوں میں یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ پارٹی دوبارہ روایتی عوامی سیاست کرے گی۔ پارلیمان میں آنے سے آصف زرداری تمام سرگرمیوں کا مرکز ومحور بن جائیں گے اور بلاول کا کردار محدود ہو جائے گا۔ زردای کی پارلیمان میں واپسی کے بعد ان کے دوستوں اور بلاول کے مداحوں میں کشمکش شروع ہو سکتی ہے۔ اعتزاز احسن کی حزب اختلاف کے متفقہ صدارتی امیدوار کی نامزد گی کو مسلم لیگ (ن) تسلیم نہیں کرے گی۔خاص طور پر جناب نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز ایسی کسی بھی تجویز کی راہ میں مزاحم ہوں گی کیونکہ وہ وزیراعظم کے انتخاب میں پیپلزپارٹی کے ووٹ نہ ملنے کا زخم کھا چکی ہیں۔ پہلے بھی پیپلزپارٹی نے چیئرمین سینٹ کے لیے رضاربانی کو نواز لیگ اور پی پی کے متفقہ امیدوار کے طور پر منظور نہیں کیا تھا اور اپنا ووٹ تحریک انصاف کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔ البتہ رضا ربانی (ن) لیگ اور زرداری پارٹی کے مشترکہ امیدوار ہوسکتے ہیں۔ (ن) لیگ ان کی غیر مشروط حمایت کرے گی۔ حزب اختلاف نے عملاً عمران خان کو آئینی اور دستوری وزیراعظم تسلیم کرلیا ہے۔ اس لئے وہ (ن) لیگ کے ساتھ سڑکوں اور پارلیمنٹ دونوں جگہ احتجاج نہیں کرے گی۔ سینٹ کا محاذ بھی کسی وقت گرم ہوسکتا ہے جہاں حزب اختلاف کو واضح برتری حاصل ہے۔ پیپلزپارٹی چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی کی جگہ اپوزیشن کا کوئی متفقہ چیئرمین لانے میں (ن) لیگ کا ساتھ دینے کے لئے تیار ہو سکتی ہے کیونکہ سینٹ میں قائد حزب اختلاف کا عہدہ پیپلزپارٹی سے نکل کر (ن) لیگ کے ہاتھ میں چلا جائے گا۔ پیپلزپارٹی کا سینٹ میں صرف ڈپٹی چیئرمین رہ جائے گا۔ سینٹ میں تحریک انصاف اور حکومتی اتحاد کے 31 سینیٹرز ہیں اور حزب اختلاف کے سینیٹرز کی تعداد 63 ہے۔امکان غالب ہے کہ نوازشریف پیپلزپارٹی کو مشترکہ صدارتی امیدوار کے لیے رضا ربانی کا نام تجویز کر سکتے ہیں اور میر حاصل بزنجو کا نام دوبارہ چیئرمین سینیٹ کے لیے تجویز کردیں۔ اس معاملے میں مولانا فضل الرحمان اپنے کمالات فن کا مظاہرہ کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024