مری مرائی پارٹی کا دکھ۔

Apr 22, 2025

عبداللہ طارق سہیل

سائنس دانوں کے ایک گروپ نے  انکشاف نہیں، دعویٰ کیا ہے کہ ابتدا میں کچھ بھی نہیں تھا، نہ زمان تھا نہ مکان__ بس کچھ بھی نہیں تھا۔ 
ابتدا سے کیا مراد ہے؟۔ خیر ، اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ کچھ بھی نہیں کا کیا مطلب ہے۔ یہ گروپ بتاتا ہے کہ کچھ بھی نہیں سے مراد یہ ہے کہ مطلق کوئی شے نہیں تھی، خلا بھی نہیں تھا۔ خلا کو انگریزی میں سپیس SPACE کہتے ہیں جس کا ٹھیک ترجمہ ’’جگہ‘‘ یا مکان ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ جگہ بھی نہیں تھی اور جب مادہ ظہور پذیر ہوا تو جگہ بھی بن گئی یعنی مکان وجود میں آ گیا۔ پھر جوں جوں مادہ پھیلتا گیا مکان بھی پھیلتا گیا۔ یعنی اگر ابتدا میں مادہ ایک اوسط سائز کے کمرے کی جگہ جتنا تھا تو مکان بھی ایک کمرے کے برابر تھا۔ پھر مادہ کروڑوں، پھر اربوں، پھر کھربوں میل تک پھیلتا گیا تو مکان بھی اربوں کھربوں میل کا ہو گیا۔ 
بھئی یہ تو فزکس کے اس کلیے کی نفی ہو گئی کہ مادہ پیدا ہو سکتا ہے نہ فنا ہو سکتا ہے۔ یعنی جتنا ہے، اتنا ہی تھا اور جتنا تھا، اتنا ہی ہے۔ یوں تو پھر یہ ہے کہ مکان بھی شروع ہی سے ہے۔ کیا خیال ہے؟۔ یہ لوگ مزید فرماتے ہیں کہ کائنات جہاں تک بھی ہے، ہے۔ اس سے آگے کچھ نہیں ہے۔ یعنی خلا (جگہ) بھی نہیں ہے۔ زیادہ تر سائنس دانوں کا کہنا تو اب تک ، یہ تھا کہ، کائنات کہیں ختم ہی نہیں ہوتی، یہ لامحدود ہے۔ لغت والا لامحدود نہیں، سائنسی اصطلاح انفینیٹی والا لامحدود۔ اب یہ لوگ کہہ رہے ہیں کہ نہیں، کائنات کہیں نہ کہیں جا کر ختم ہوئی ہے اور جہاں ختم ہوئی ہے، اس کے آگے کچھ نہیں ہے۔ زماں نہ مکاں۔ 
مزید نتیجہ یہ نکالا ہے، یوں کہیئے کہ حاصل غزل یہ ہے کہ چونکہ زماں تھا نہ مکاں لہٰذا اس بات کی گنجائش نہیں نکلتی کہ خدا موجود ہے۔ 
سائنس دان اگر فارمولے اور مساواتیں دیں تو وہ سائنس ہے۔ سائنس دان اگر مادے کی ماہیت کھولیں تو وہ بھی سائنس ہے۔ سائنس دان اگر مادے کے چال چلن، طور اطوار (خواص مادہ) بیان کریں تو وہ بھی سائنس ہے۔ سائنس دان اگر ایٹموں، خلیوں، مسالموں کے معاشرتی ریویوں یعنی تعامل اور اس کے نتائج پر بات کریں تو وہ بھی سائنس ہے۔ سائنس دان اگر عناصر کے گٹھ بندھن (مرکباتی عمل) کے نتائج بتائیں تو وہ بھی سائنس ہے لیکن جب وہ کائنات کی تشکیل اور اس کی علّت اولیٰ پر اپنے مفروضات بنائیں اور دلائل کی عمارت کھڑی کریں تو وہ سائنس نہیں ہے، وہ فلسفہ ہے اور فلسفے کا یہ ہے صاحب کہ ہر فلسفے کا ردّ فلسفہ ہے، جتنے فلسفے اتنے ہی ان کے مخالف فلسفے اور مضبوط اور ٹھوس دلائل سب فریقوں کے پاس۔ ایسے ایسے ٹھوس اور مضبوط دلائل کہ ہم جیسے ناواقف اور لاعلم حضرات سنیں تو یہی کہیں کہ : 
بات تو آپ ٹھیک کہتے ہیں بھائی صاحب اور بات آپ کی بھی غلط نہیں میاں__ اور بالصّواب تو صرف اللہ ہی کے ساتھ ہے جسے یہ گروپ مانتا ہے۔ 
خلا موجود نہیں تھا، مادہ آیا تو خلا بھی آ گیا۔ ان لوگوں کو یہ بات سمجھ میں آ جاتی ہے لیکن خدا تھا اور ہے، ان کی سمجھ دانی میں اس کی گنجائش نہیں
سلجھا رہا ہے ڈور کو لیکن سرا ملتا نہیں 
فلسفی کو بحث میں کوئی خدا ملتا نہیں۔
_____
مزے کی بات یہ ہے کہ یہ وہی گروہ ہے جو اس الہامی دعوے پر سر کجھانے لگتا تھا کہ خدا ’’البدیع‘‘ ہے یعنی جو شے وجود ہی نہ رکھتی ہو ، اسے وجود میں لے آنا ہے۔ زمین و آسماں، زمان و مکان سب خدا عدم سے وجود میں لایا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو شے ہے ہی نہیں، وہ موجود ہو جائے۔ اب یہی کہہ رہے ہیں کہ زماں اور مکان تو تھے ہی نہیں، مادے کے ساتھ یہ بھی وجود میں آ گئے۔ یعنی کوئی شے خودبخود عدم سے وجود میں آ جائے تو عقل کے مطابق، کوئی ہستی انہیں وجود میں لائے تو خلاف عقل۔ 
_____
چلئے اب واپس زمین پر آتے ہیں۔ زمین سے مراد ارض نہیں، سرزمین پاکستان ہے اور یہاں ایک مزے کی بات ہوئی ہے۔ 
جماعت اسلامی نے فلسطین پر بڑے بڑے، بہت ہی بڑے بڑے مظاہروں کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ مزے کی بات یہ نہیں ہے۔ اس سے آگے آئے گی لیکن پہلے اس بات کا ذکر جس سے مزے کی بات نکلی ہے۔ 
اسلام آباد کا مظاہرہ تو بہت ہی بڑا تھا۔ لاکھ سے اوپر لوگ ہوں گے۔ ارادہ ان کا امریکی سفارت خانے کی سڑک پر جانے کا تھا لیکن حکومت نے پابندی لگا دی جس پر جماعت اسلامی نے مظاہرے کی جگہ بدل دی۔ 
سیاسی پارٹیاں ایسا ہی کیا کرتی ہیں، قانون کے مطابق چلتی ہیں۔ اتنے زیادہ لوگ اگر حکومتی پابندی نہ مانتے، مذکورہ سڑک پر جانے کا فیصلہ کر لیتے تو دنگافساد ہو جاتا۔ جو پارٹی دنگا فساد کرے، وہ سیاسی پارٹی نہیں ہو سکتی۔ چند روز قبل ملتان میں بھی جماعت اسلامی نے بہت ہی بڑا مظاہرہ کیا تھا۔ ملتان میں اس سے پہلے اتنا بڑا جلوس نہیں نکلا۔ 
اب 26 تاریخ کو جماعت نے فلسطین کے حق میں یوم احتجاج اور ہڑتال کی کال دی ہے۔ 
یہاں سے مزے کی بات شروع ہوتی ہے۔ مری مرائی پارٹی کا بیرون ملک بیٹھا میڈیا یہ دور کی لا رہا ہے کہ جماعت اسلامی یہ مظاہرے ایک ڈرامے کے طور پر کر رہی ہے اور یہ سب ’’حافظ‘‘ کے کہنے پر ہو رہا ہے۔ حافظ سے مراد حافظ نعیم نہیں، آرمی چیف حافظ عاصم منیر ہیں۔ ملک میں 14 کروڑ کے سرکاری فنڈ ہڑپ کر کے امریکہ فرار ہونے والے ایک نامور بھگوڑے نے کہ جن کے نام سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کسی پیر کے زادے ہیں، ایک پورا ولاگ اس ’’انکشاف‘‘ پر کر ڈالا۔ 
ڈرامے کا خلاصہ، مری مرائی پارٹی کے میڈیا کے بقول یہ ہے کہ پاکستان پر امریکہ اور ایک عرب ملک کا دبائو ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر لے۔ 
حافظ صاحب اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنا چاہتے چنانچہ انہوں نے دوسرے حافظ صاحب کو بڑے بڑے مظاہرے کرنے کا حکم دیا تاکہ امریکہ اور عرب ملک کو یہ بتا سکیں کہ ، یہاں تو اتنے بڑے بڑے جلوس نکل رہے ہیں، ہم کیسے اسرائیل کو تسلیم کر لیں۔ 
یعنی مری مرائی پارٹی کو اصل دکھ یہ ہے کہ پاکستان اسرائیل کو تسلیم نہیں کرنے والا، اسی لئے یہ ڈرامے کئے جا رہے ہیں۔ 
معلوم ہو گا کہ یہ مری مرائی پارٹی کا وہی سوشل میڈیا ہے جو چند روز پہلے تک یہ واویلا کر رہا تھا کہ پاکستان کی اسرائیل کے ساتھ سازباز ہو چکی ہے اور بس کچھ ہی دنوں تک پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرنے والا ہے۔

مزیدخبریں