صدارتی ایوارڈ یافتہ شاعر ،ادیب اور محقق نجیب احمد75برس کی عمر میں انتقال کرگئے۔
نجیب احمد کا اصل نام محمدطفیل تھا اور وہ8اگست 1946 کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے، نجیب احمد معروف شاعر احمدندیم قاسمی کے منہ بولے بیٹے تھے اور ان کا ادب کے حلقوںمیں خاص مقام تھانجیب احمد کی علم وادب کیلئے خدمات کو دیکھتے ہوئے حکومت پاکستان کی طرف سے انہیں صدارتی ایوارڈ حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔ نجیب احمد کے شعری مجموعے، عبارتیں، زرملال اور گریزاں کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ نجیب احمد باکمال شخصیت تھے کسی کی شعری اصلاح میں کبھی دیر نہیں کیا کرتے، پرانے وقتوں کے بچھڑے ہوئے ساتھیوں کیلئے اکثر آزردہ رہتے احمدندیم قاسمی کے نام پہ آبدیدہ ہوجاتے ایک ملاقات میں کہنے لگے اگر احمدندیم قاسمی کی محبت کا احاطہ کرنا ہوتو میں یہ کہوںگا کہ میں خوش قسمت انسان ہوں جو انکی محبت کی چادر اوڑھ کراپنے غموں کو بھلادیاکرتا تھا۔نجیب احمد مرحوم محفلوںمیں خاموشی سے آنے والوں کا ایک جائزہ لیتے اگر کوئی بھی بات ناگوار گزرتی تو خاموش رہتے، اگر انہیں کوئی عزت دیتا تواسے حد درجہ عزت سے نوازتے ان سے مل کر اور انکی باتیں سن کر ایک خاص نقطہ ذہن میں ابھرتا تھا کہ وہ عزت، ادب اور محبت کو زندگی میں بہت اہمیت دیتے ہیں،ایک مرتبہ ریڈیو کی کینٹین پہ راقمہ نے ان کو چائے پیش کی تو کہنے لگے رابعہ بیٹی چائے آپ نے پلائی ہے تو اب بسکٹ میں کھلائوں گا، زندگی کی چھوٹی چھوٹی یادیں دل میں آنسوئوں کی طرح برستی رہیں یہی توخراج عقیدت ہے۔ ایسی نابغہ روزگار ہستیوں کیلئے ہمارے پاس جو ہم انکے بچھڑنے کے بعد ان کو پیش کرتے ہیں۔
ؔاس تماشے میں کسی کی نہیں سنتا کوئی
یہ بتانے کیلئے چیخ رہا ہوں کب سے
نجیب احمدکا یہ کلام بھی دیکھئے۔
ؔتھکن سے چور بدن دھول میں اٹا سر تھا
میں جب گرا تو مرے سامنے مرا گھر تھا
تہی ثمرشجرخواب کچھ نڈھال سے تھے
زمیں پہ سوکھی ہوئی پتیوں کابستر تھا
متحدہ عرب امارات میں گزشتہ35سال سے مقیم پاکستانی شاعر شفیق سلیمی بھی اپریل ہی کے مہینے میں ہم سے ہمیشہ کیلئے جدا ہوگئے اس نفیس شاعر کا تعلق لاہور سے تھا ۔انہوں نے ابوظہبی کے ایک تعلیمی ادارے میں بطور معلم اپنے فرائض انجام دیئے سکول میں استاد ہونے کیساتھ ساتھ وہ شاعری میں بھی استاد مانے جاتے تھے، انکے اشعار قاری سے گفتگو کرتے ہیں اور تمام جذبوں کے ساتھ دل میں اترتے محسوس ہوتے ہیں۔ ویسے بھی عمر جیسے بڑھتی ہے تجربہ اور قلبی وارداتیں بھی بڑھتی اور پختہ ہوجاتی ہیں شفیق سلیمی مرحوم کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ تھا ۔ان کا شعور بتدریج بلند ہوتا گیا، جوانی کے جوالہ جذبوں اور لہو کی گرمی میں جب زندگی نے مشقت کی چکی پسوائی تو شعروں کے خالق شفیق سلیمی نے بھی اپنا پسینہ خشک نہیں ہونے دیا، انہیں ادائوں سے بھی محبت تھی اور آنسوئوں سے بھی عشق تھا وہ کرب اور سیرت کی گود میں پروان چڑھتے تھے جس کی وجہ سے غالب طاقتوں سے مقابلہ انہوں نے صبر وقناعت کیساتھ کیا، دریا سمندر تک اچھالنا ہو یا ستاروں پہ کمند ڈالنی ہو ،چاند کی بڑھیا نانی سے مکالمہ کرنا ہو یا زندگی کی دھوپ میں سرسوں اگانی ہو۔ یہ کام ادیب اور شاعر بڑی جانفشانی سے کرتے ہیں شفیق سلیمی نظم گو بھی تھے غزل گو بھی مگر ان کی شعری جولان گاہ اصل میں غزل ہے، انکی غزل ا پنے عہد کے مسائل سے معاملہ کرتی ہے خاص طور پر جب وہ پاکستان سے باہر چلے گئے تو اس وقت ایک مسافرت وہجرت کا مضمون تھا انکی شاعری میں یہ رنگ بھی غالب ہے۔
ؔبے نام دیاروں کا سفرکیسا لگاہے
اب لوٹ کے آئے ہوئے تو گھر کیسا لگاہے
کیسا تھا وہاں گرم دوپہروں کا جھلسنا
برسات رتوں کایہ نگر کیسا لگاہے
انکی شاعری میں اپنے عہد کی تصویر بھی ملتی ہے۔ہم جس سیاسی اور سماجی جبر کے تحت زندگی گزار رہے ہیں انکے ہاں ہمیں اسی مطابقت سے اشعار ملتے ہیں۔
ؔدن میں بھی دہل جاتا ہوں آباد گھروںمیں
سایہ سا میرے ساتھ یہ ڈر کیسا لگاہے
بعض جگہ طنز بھی معاشرے کے افراد کے ذہنوں کی عکاسی کرتاہے۔
ؔجس کے تازہ جسم پر تھے چیتھڑے
اس بھکارن کو سبھی نے بھیک دی
بعض اشعار میں روز مرہ ہونے کی پوری صلاحیت موجود ہے ۔
ؔزندگی کرنے کے ڈھب آتے ہیں
دیرہوجاتی ہے تب آتے ہیں
مگر ان کی غزل خشک مضامین اور شہر آشوب ہی بیان نہیں کرتی بلکہ عشق ومحبت کا روایتی پیراہن بھی ان کی شاعری نے اوڑھا ہواہے جیسے
ؔمحبت پارسائی کی ردا اوڑھے ہوئے ہے
بنام عشق یہ سودا بڑا مہنگا پڑاہے
عہدآشوب یہ لکھتے ہیں
ؔوطن کو لوٹ آئے تھے مگر کیا دیکھتے ہیں
فضابدلی ہوئی ہے سب کا سب الٹا پڑاہے
اوربھی بے شمار اشعار ہیں جن میں زندگی کے جملہ پہلو سماج، معاشرت اور سیاست کا اظہار ملتاہے۔ وہ آمد پہ آورد کا رندا چلاکر تیار کرتے تھے جیسے کمہار کوئی چیز بناتاہے تو وہ کھردری ہوتی ہے پھر وہ اسے دیدہ زیب بنادیتاہے۔ انکے ہاں انکے حالات کی تلخی فن کے حسن سے لبالب ہے اور فن کا اظہار بہت خوبصورت ہے ان کی شاعری استاد شاعر کی شاعری ہے۔انکی زندگی میں انکے فن کو اس انداز میں سراہانہیں گیا جس کے وہ حقدار تھے۔ شفیق سلیمی کی ایک اہم شناخت یہ ہے کہ ڈاکٹرزبیر فاروق عرب دنیا کا اردو شاعر ان کا شاگرد تھا آخری دم تک شفیق سلیمی مرحوم انکی راہنمائی کرتے رہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024