معیشت سمیت ہر میدان میں حکومت کی کامیابیوں کے بلند بانگ دعوئوں کے باوجود وفاقی کابینہ میں ایک بار پھر بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ خصوصاً محض اٹھارہ دن بعد تیسرے وزیر خزانہ کی چھٹی اور چوتھے کی تقرری ظاہر کرتی ہے کہ معاملات ابھی تک حکومت کے قابو میں نہیں آسکے۔ یہ بات ضرور ہے کہ وزیر خزانہ کی اس مرتبہ تقرری گزشتہ ڈھائی سال میں تحریک انصاف حکومت کا پہلا صحیح اقدام ہے جو تحریک انصاف حکومت نے دل سے تو نہیں مجبوری میں ضرور کیا ہے کیونکہ انکی تمام معاشی ٹیم ناکامی کا منہ دیکھ چکی ہے۔ حکومت میں آتے ہیں اسد عمر کو ایک بہترین معیشت دان کے لبادے میں پیش کیا گیا، پھر آئی ایم ایف کے سامنے جب کشکول لیکر گئے تو وہ اسد عمر کے بس کی بات نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے ہی Under Coverکو لانا پڑا ، جنہوں نے آلو پیاز کی وہ قیمت لوگو ںکو بتائی جو پاکستان کی تاریخ میں شاید قیام پاکستان کے وقت ہی رہی ہوگی ۔جس شخص کو عام آدمی کی مشکلات کا اندازہ نہیںوہ مسائل کس طرح حل کرسکتا ہے یا پالیسی بنا سکتاہے ۔ آئی ایم ایف کی قربت کی وجہ سے بادل نخواستہ بقول وزیر اعظم پی پی پی کے ہی وزیر خزانہ کو تعینات کرنا پڑا جو پی پی پی کی حکومت میں بھی معیشت کا بیڑا پار کرکے واپس بیرون ملک جاکر اپنی خدمات انجام دینے لگے تھے۔امید ہے کہ حزب اختلاف شوکت ترین کو سینیٹ کا ممبر بننے دیگی اور حفیظ شیخ کی طرح انہیں ناکامی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گابلکہ انکی تقرری بلا مقابلہ ہونا چاہیے کیونکہ قوانین کی رو سے ان کاآئندہ چھ ماہ میںرکن اسمبلی یا رکن سینیٹ بننا ضروری ہے ۔ شوکت ترین ہماری معیشت کا ایک آخری سہارا ہے۔ شوکت ترین نہایت صاف گو ، غیر سیاسی اور اپنے کام کے دھنی ہیں۔ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہتے ہیں ۔پی پی پی کے دور حکومت میںجب وہ وزیر خزانہ تھے میری انکی ایک ملاقات جدہ کے ہوائی اڈے پر ہوئی۔ اس وقت بجلی کی کمی کے معاملات بہت زیادہ تھے۔ ان سے اس مسئلے پر بات ہوئی ۔ انہوںنے کہا کہ ہماری بجلی کا پیداوار کا چالیس فیصد ناجائز کنکشن کھا جاتے ہیں اور حکومت کو اس کا ریونیو نہیںملتا۔ انہوںنے صاف الفاظ میں کہا تھا نشاندہی کرنا میرا کام ہے ، مگر اب یہ کام حکومت کے انتظامی اداروںکا ہے کہ وہ بجلی چوروں کو نکیل ڈالیں جو پی پی پی حکومت کرنہیںپارہی، انکی رٹ ہی کوئی نہیں۔ یہ بات ایک ایساتجربہ کار اور غیر سیاسی شخص ہی کہہ سکتا ہے جسے ملک سے محبت ہو۔حال میںجب وزیر اعظم کی نظر ان پر پڑی اسوقت بھی شوکت ترین نے میڈیا کو یہی بتایا کہ موجودہ حکومت کے آئی ایم ایف سے کیے جانیوالے معاہدے پاکستانی معیشت کیلئے بہتر نہیں ۔انکے اس بیان کے بعد انکی تقرری کو دو ہفتے کی تاخیر کا سامنا کرناپڑا بالآخر انکی اپنی شرائط پر انہیں معیشت کی بہتری کا ٹاسک دیا گیا ۔ انکے آبائو اجداد کا تعلق بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ رہا ہے، اوروہ ایک محب وطن شخصیت ہیں۔ کاش انہیں موقع دیا جائے۔ اگر وزیر اعظم عمران خان چاہتے ہیںکہ معیشت بہتری کی طرف جائے (جو و ہ یقینا چاہتے ہیں) تو اپنے بعض اراکین کو روکناہوگا کہ انکے کام میں ٹانگ نہ اڑائیں وہ اراکین ڈھائی سال کچھ نہ کرسکے اب کسی تجربہ کار سے امید ہے تو اسے کام کرنے دیں ، چونکہ شوکت ترین کی حلف برداری سے قبل ہی تحریک ا نصاف کے معیشت دان اسد عمر کا بیان سامنے آگیا تھا کہ ’’شوکت ترین کی سوچ سے میں اتفاق نہیں کرتا ۔‘‘ کاش اسد عمربیان اسوقت دیتے جب وہ خود معیشت کی بہتری میں کوئی جھنڈے گاڑ چکے ہوتے ۔ انتخابات سے پہلے تحریک انصاف کا دعویٰ تھا کہ دوسری سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں اس کے پاس تعلیم، تجربے اور اہلیت کے اعتبار سے کہیں زیادہ بہتر افراد کا وسیع نیٹ ورک موجود ہے۔وزیر اعظم عمران خان یہ دعویٰ کرتے تھے کہ وہ ٹیم سازی میںخوب مہارت رکھتے ہیں ۔سابقہ حکومتوں کی معاشی حکمت عملی کو مسترد کرتے ہوئے ایسے اقدامات کی یقین دہانیاں کرائی جاتی تھیں جو برسوں میں نہیں دنوں اور ہفتوں میں ملک کی کایا پلٹ دینگے ۔مراد سعید کی حکومت سنبھالتے ہی 200ملین ڈالر منہ پر مارنے والی تقریر اب لطیفہ بن چکی ہے۔ ماضی کا کیا ذکر، حفیظ شیخ کے ہاتھوںمعیشت کے میدان میں کامیابیوں کے دعوے اُن کی رخصتی سے ایک دن پہلے تک جاری رہے۔ (جاری)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024