یہ منظر بھی ہم نے کوئی پہلی بار نہیں دیکھا۔ ایسے کئی مناظر کئی بار ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔ ایک گروہ، تنظیم یا جماعت کے کارکنوں نے جتھوں کی صورت سڑکوں پر آ کر پورا پاکستان ہی یرغمال بنا لیا۔ خصوصاً پنجاب تو مکمل طور پرہنگاموں کی زد میں رہا۔ سندھ کے دارالحکومت کراچی اور خیبرپختونخوا کے کیپٹل پشاور میں بھی اس شورش نے نظامِ زندگی کو مکمل طور پر مفلوج اور درہم برہم کئے رکھا۔ ریاست کی رٹ چیلنج ہوتی نظر آئی۔ سوشل میڈیا جو کچھ دکھا رہا تھا وہ بظاہر ایک ’’مہذب قوم‘‘ کو حیران و ششدر کر دینے کیلئے کافی تھا۔ ہم جو کچھ دیکھ رہے تھے اُسکے مطابق دس، پندرہ لوگ یا کہیں ڈیڑھ دو سو افراد کا جتھہ نمودار ہوتا۔ کسی اہم شاہراہ یا چوک پر قبضہ کرتا اور اسے بند کر دیتا جس سے آنے جانے والی ٹریفک رک جاتی۔ ایمبولینس بھی کسی جاں بلب مریض کو لیکر ہسپتال نہ پہنچ پاتی۔ حتیٰ کہ کرونا مریضوں کو، جو شہر کے مختلف ہسپتالوں کے وینٹی لیٹرز پر پڑے ہوئے تھے، آکسیجن کی سپلائی تک رُک جاتی۔ جس سے ہر طرف ہراسگی اور پریشانی کا سماں دیکھنے کو ملتا۔تنازع کا آغاز اُس وقت ہوا جب ایک جماعت کے سربراہ کو گرفتار کیا گیا۔انکی گرفتاری کی خبر جیسے ہی طشت از بام ہوئی۔ انکے کارکن ٹولیوں کی صورت میں سڑکوں پر نکل آئے جس کے بعد ہنگامے پھوٹ پڑے۔ ہنگاموں کا مرکز پنجاب رہا۔ جس کے کئی شہر متاثر ہوئے بِنا نہیں رہ سکے۔ کراچی اور پشاور میں بھی شدید ہنگامہ آرائی دیکھنے میں آئی۔ ہمیں لاہور، کراچی اور پنجاب کے مختلف شہروں میں جو مناظر دیکھنے کو ملے وہ بہت ہی افسوس ناک تھے۔ پولیس والوں کو مارا پیٹا گیا۔ لاہور میں چھ پولیس والوں کی جانیں بھی گئیں، ایک ہزار سے زائد اہلکار اور پولیس افسر زخمی ہوئے۔ مظاہرین میں سے بھی کئی پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے اور جان سے گئے۔ تحریک لبیک کا مطالبہ تھا کہ فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کیا جائے۔ کیونکہ حکومتِ فرانس حضرت محمدؐ کی شان میں گستاخی کرنیوالوں کے جرم میں برابر کی شریک ہے۔ چونکہ حکومت کیلئے یہ ممکن نہ تھا اس لیے حالات میں کشیدگی پیدا ہوئی اور یہ کشیدگی اتنی بڑھی کہ بہت ہی سنگین رخ اختیار کر گئی۔اس سارے معاملے میں حکومت کی کوتاہی اور غفلت بھی نظر آئی۔ جماعت ک قائد کی گرفتاری کے بعد کارکنوں کی جانب سے ممکنہ سخت ردعمل کو روکنے یا اُس پر قابو پانے کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی۔ انکی گرفتاری پر جو ردعمل ہونا تھا، وہ ہوا۔ گفتگو کے سارے راستے بند نظر آئے۔ یوں انارکی پھیلی، جس نے کئی شہروں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ناموِس رسالتؐ پر ہر مسلمان کی جان بھی قربان ہے۔ اس معاملے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ ضرور ہونا چاہیے کہ ہم اخلاق، صبر اور برداشت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیںہماری سیاسی جماعتوں نے بھی ماضی میں کچھ ایسی ہی روائتیں قائم کیں۔ بے نظیر کا زمانہ ہو یا نواز شریف کا۔ اپوزیشن میں رہنے والوں نے خوب دھینگا مشتی کی۔ موجودہ حکمران جماعت پی ٹی آئی نے بھی نواز شریف کے دورِ حکومت میں کوئی اچھی مثالیں قائم نہیں کیں۔ ایک سو چھبیس دن کے دھرنے کی بات ہو۔ ٹیلی ویژن، پرائم منسٹر ہائوس اور نیشنل اسمبلی کی عمارتوں پر یلغار کی۔ یہ دھبہ پی ٹی آئی کے دامن پر لگا ہوا ہے اور لگا رہے گا۔ایک مذہبی جماعت جو سیاسی پس منظر بھی رکھتی ہے۔ الیکشن کا زمانہ ہو تو الیکشن بھی لڑتی ہے۔ اُسکے مذہبی یا سیاسی عزائم کیا ہیں۔ یہ وہی جانے، لیکن اب بات ہو رہی ہے اُس پر پابندی کی۔ پنجاب حکومت نے اس حوالے سے ایک سمری وفاقی حکومت کو بھجوائی۔وزیراعظم عمران خان نے اسے فوری منظور کیا ہے جبکہ وفاقی وزارتِ داخلہ نے پابندی کا نوٹیفیکشن بھی جاری کر دیا ہے ۔ پابندی کی صورت میں اب وہ جماعت ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ سے بھی رجوع کر کے اس پابندی کو چیلنج کر سکتی ہے ۔اہم بات یہ بھی ہے کہ حکومت اور اس جماعت کے مابین مذاکرات کا آغاز ہوا۔یہ بھی ملکی وحدت کیلئے اچھا شگون ہے کہ اعلیٰ سطحی حکومتی وفد اور یہ جماعت کے مابین موجودہ صورت حال پرجو مذکرات ہوئے ، وہ کامیاب رہے۔ جس کے نتیجے میں انکے سربراہ کی رہائی ممکن ہوئی ۔ قومی اسمبلی میں بھی اس حوالے سے ایک قرار داد منظور کر لی گئی جس کے تمام نکات آپ تک پہنچ چکے ہوں گے۔ کہنا یہ ہے کہ بڑی خونریزی اور تصادم کے بعد بالآخر ایک مثبت حل نکل آیا۔ ثابت ہوا کہ مکالمہ کیا جائے تو ہر مشکل مسئلے کا حل نکل سکتا ہے اور نکالا جا سکتا ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38