انتہائی بد قسمتی کی بات ہے کہ ایک طرف غیر مسلم قوتیں اسلام۔قرآن اور نبی اکرم ﷺکے خلاف توہین آمیز رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں اور دوسری طرف ہم بحیثیت قوم یہ دیکھے بغیر کہ حکومت وقت کے جذبات بھی وہی ہیں جو ہمارے اپنے ہیں مگر ہم آنکھیں بند کرکے احتجاجی سیاست گھیرائو،جلائو پر اتر آتے ہیں۔اسلام کے خلاف اہانت آمیز رویہ کوئی اور ملک اختیار کرتا ہے مگر ہم اس ملک کا کچھ بگاڑ ے بغیر اپنا ہی سب کچھ بگاڑنے پر تل جاتے ہیں۔
پچھلے ایک ہفتے میں پاکستانی قوم کو بہت برے حالات سے گزرنا پڑا،وزیر اعظم نے حالات کی نزاکت اور سنگینی کو بھانپتے ہوئے ایک نشری تقریر کی اور واضح کیا کہ وہ خود یا ان کی حکومت اسلامو فوبیا کے مسئلے کی طرف سے غافل نہیں ہے بلکہ غیر مسلموں نے جب بھی ہرزہ سرائی کی تو حکومت کی سطح پر اس کی مذمت کی گئی۔
حکومتی کوششوں کو اگر ایک مکمل تناظر میںدیکھا جائے تو سب سے پہلے جون 2019 ء میں سعودی عرب کے شہرمکۃ المکرمہ میں ہونے والے او آئی سی کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان نے آواز بلند کی اور مشترکہ طور پر اس فتنے سے نبٹنے کے لیے کوششوں پر زور دیا۔
2019میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کو کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے جب وزیر اعظم عمران خان نے پہلی بار اس فورم میں اسلامو فوبیا کی کھلے لفظوں میں شدید مذمت کی اور عالمی برادری پر زور دیا کہ اس ہرزہ سرائی کا سلسلہ بند کیاجائے اور اس کے لیے مشترکہ کوششیں کی جائیں۔وزیر اعظم کی یہ تقریر اس قدر جذباتی تھی کہ ملائیشیاکے وزیر عظم مہاتیر محمد نے ان کو فرط جذبات سے گلے لگایا اور ترکی کے صدر طیب اردوان نے ان کا ماتھا چوم لیا۔ویسے بھی وزیر اعظم عمران خان کی تقریر کے دوران پورا ہال تالیوں سے گونجتا رہا کیونکہ وہ اپنا موقف بلا جھجک ، بلا خوف و خطر اور دبنگ الفاظ میں بیان کر رہے تھے۔وہ اپنے دل اور دماغ کی سوچ کی عکاسی کر رہے تھے،اس لیے غیر مسلم مندوبین بھی ان سے اختلاف کی جرات نہیں کر سکتے تھے۔
وزیر اعظم نے اپنی کوششیں جاری رکھیں اور اسلامو فوبیا کا زہر اور زورختم کرنے کے لیے پچھلے سال بھی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں اسی مسئلے کو موضوع بحث بنایا اور بڑی تفصیل سے دنیا کو باور کرانے کی کوشش کی کہ آپ لوگ مسلمانوں کے جذبات کو سمجھیںا ن کے صبر اور حوصلے کو نہ آزمائیں، اسلام اور شعائر اسلام کا احترام ملحوظ رکھیں اور خاص طور نبی آخرالزماں ﷺ کی توہین کا خیال بھی دل میں نہ لائیں تاکہ بین المذاہب یکجہتی اور ہم آہنگی کی فضا نفرت کے بارود کی بھینٹ نہ چڑھے۔
وزیر اعظم اپنے موقف پر مسلسل ڈٹے ہوئے تھے، انہوں نے مسلم دنیا کو جگانے کے لیے اسلامی ممالک کے تمام حکمرانوں کو ذاتی طور پر خط لکھا اور یہ تجویز پیش کی کہ ہمیں بیک آواز اسلامو فوبیا کے خلاف احتجاج کرنا چاہیے۔
گزشتہ برس نومبر میں افریقی ملک نائیجر نے او آئی سی کے سالانہ اجلاس کی میزبانی کے فرائض ادا کیے، اس میں جہاں دیگر مسائل زیر غور اور زیر بحث آئے وہاں پاکستان نے اسلامو فوبیا کے خلاف ایک زور دار قرار داد پیش کی جسے متفقہ طور پر منظور کیا گیا۔
ظاہر ہے کہ مسلم دنیا سے اٹھنے والی ایک ایسی بلند آواز تھی جس سے غیر مسلم دنیا اغماز نہیںبرت سکتی تھی مگر مسلمانوں کے صبر کا امتحان لینے کے لیے فرانسیسی میگزین چارلی ہبڈو نے رسول پاکﷺ کے اہانت آمیز خاکے پھر شائع کر دیئے۔ فرانسیسی حکومت بھی اس ہرزہ سرائی میں شامل ہوگئی اور یہ توہین آمیز خاکے سڑکوں کے کنارے آویزاں کر دیئے گئے،اس سے مسلم دنیا میں اشتعال پھیلنا ایک لازمی امر تھا اور فرانس نے یہ کہہ کر جلتی پر تیل ڈالا کہ مسلم عوام آزادی اظہارکے حق کو تسلیم نہیں کرتے۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے ناروے کے ایک کارٹونسٹ نے یہ کہہ کر اہانت آمیز خاکے بنائے کہ وہ مسلم دنیا کے صبر و تحمل کا امتحان لینا چاہتا ہے اور وہ یہ بھی جاننا چاہتا ہے کہ مسلمان اظہار رائے کی آزادی کا حق کسی کو دیتے بھی ہیں یا نہیں۔
اسی طرح امریکہ کے ایک ملعون نے اعلان کر دیا تھاکہ وہ قرآن پاک کو آگ کے شعلوں کی نذر کرے گا۔غیر مسلم دنیا کی ان مذ موم حرکتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو وہ دماغی خلل کا شکار ہیں ،یا وہ نفسیاتی مریض ہیں، یا وہ مسلمانوں کی حساسیت کو سمجھنے سے عاری ہیں۔
وزیر اعظم نے اسلامو فوبیا کے خلاف اپنی مہم کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے شنگھائی تنظیم اورای سی او تک پھیلا دیا اور ان پر بھی یہی نقطہ واضح کیا کہ اسلام کو بدنام کرنے کی دانستہ مہم ختم ہونی چاہیے اور دنیا بھر کے پونے دو ارب مسلمانوں کی دل آزاری کا سلسلہ بند کیا جائے، ان کو خواہ مخواہ اور بلاوجہ اشتعال نہ دلایا جائے۔
جہاں تک انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کا تعلق ہے جسے اقوام متحدہ نے منظور کر رکھا ہے اس کی روشنی میں بھی وزیر اعظم عمران خان نے دنیا پر واضح کیا ہے کہ مذہبی منافرت پھیلانا جرم ہے اور کسی دوسرے مذہب کا تمسخر اڑانا اور اس کی تذلیل کرنا، اس کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا اقوام متحدہ نے اسے انسانیت کے خلاف ایک سنگین جرم قرار دیا ہے۔
حالیہ دنوں میں پاکستان میں افسوس ناک واقعات رونما ہوئے وزیراعظم عمران خان نے اس کا بروقت نوٹس لیا اور قوم سے ہنگامی خطاب کرتے ہوئے اپیل کہ وہ اپنے جذبات قابو میں رکھے تاکہ اسلاموفوبیا کی مہم کو روکنے کے لیے ایک مشترکہ اور منطقی مہم جاری رکھی جاسکے اور اس سلسلے میں حکومت وقت پہلے ہی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے جنہیں تیز تر کرنے کی ضرورت ہے۔دنیا میں پچاس سے زائد اسلامی ممالک ہیں، ان کے عوام اور حکمرانوں کو بھی بیدار کرناپڑے گا تاکہ جس طرح غیر مسلم دنیا اسلامو فوبیا کے نقطے پر متحد ہے اسی طرح عالم اسلام کو بھی متحد ہوکر اس ہرزہ سرائی کے سلسلے کوبند کرانا ہوگا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم احتجاج تو دوسروں کے خلاف کرتے ہیں لیکن گھر اپنا جلاتے ہیں ،سر اپنا پھوڑتے ہیں، گاڑیاں اور دکانیں اپنی جلاتے ہیں اور اپنی جانوں تک کا نقصان کرتے ہیں،اس سے دنیا کو ہم اپنا مضحکہ اڑانے کا موقع دیتے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کا نوٹس لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ،وہ جانتے ہیں اور کہتے بھی ہیں کہ یہ مسئلہ ہر مسلمان کے دکھ کا باعث ہے۔ وزیر اعظم نے تو دنیا کے طاقتور ترین میڈیا ٹائکون مارک ذکر برگ کو بھی خط لکھ دیا کہ آپ اپنی فیس بک کو لگام دیں جس پر ہر کوئی ہر کسی کی پگڑی اچھالتا ہے لیکن اہانت اسلام کا جرم ایسا ہے جو یواین او کے بنیادی انسانی حقوق کی نفی کرتا ہے،اس لیے اسلامو فوبیا سے متعلق مواد کو سنسر کیا جائے۔
وزیر اعظم کی ان کوششوں کو سراہنے کی ضرورت ہے،ان کی تحسین و ستائش کرنی چاہیے، ان کے پیش نظر عوام کو اعتماد ہوناچاہیے کہ ان کا لیڈر اس مسئلے پر خود بھی دکھی ہے اور عوام کے دکھ درد کو بھی محسوس کرتا ہے۔
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024