ایم این اے، ایم پی اے کسی بھی سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو، حکومتی پارٹی سے ہو یا اپوزیشن، ہر دو صورتوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ نظام حکومت کا حصہ ہی ہوتا ہے۔ بحیثیت رکن اسمبلی ان کی مراعات میں کوئی فرق پڑتا ہے نہ تنخواہ کم ہوتی ہے۔ یہ بھی نہیں ہوتا کہ اپوزیشن کے ایم پی اے ، ایم این اے کی حکومتی پارٹی سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی سے پارلیمنٹ میں وقعت کم ہو، بلکہ کئی ارکان اسمبلی تو اپوزیشن میں رہتے ہوئے حکومتی ارکان اسمبلی سے بھی زیادہ ’’ڈاہڈے‘‘ ہوتے ہیں۔ ارکان اسمبلی حکومتی بنچوں پر بیٹھیں یا اپوزیشن ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر تو حزب اقتدار میں شامل ہو گئے تو ’’چپڑی اور دو ، دو کا مزہ‘‘ اگر وہ حزب اختلاف کا حصہ بنے تو پھر بھی ’’وارے نیارے‘‘ ہی رہے۔
اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے، ایم این اے حکومت سے تو اپنا حصہ ’’جثہ‘‘ سے بھی زیادہ وصول کرتے ہیں۔ ’’پھولوں کو تقسیم کرتے ہیں، کانٹوں کو تقسیم کرتے ہیں۔‘‘ لیکن ’’پھول‘‘ اپنے لیے اور ’’کانٹے‘‘ اپنے انتخابی حلقے کے لیے بچا رکھتے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنے ووٹرز، سپورٹرز کو بھی ’’پھولوں‘‘ کی ’’خوشبو‘‘ تک سے محروم رکھتے ہیں۔ یوں اگلے الیکشن تک ان کا وقت بڑا ہی پرسکون گزرتا ہے اور ان کے پاس ایک معقول بہانہ اور ’’شری عذر‘‘ ہوتا ہے کہ ’’کیا کریں جی اپوزیشن میں ہیں۔‘‘ اس لیے کوئی سائل ان کے دروازے پر دستک دیتا ہے نہ کوئی ووٹر، سپورٹر ان کی نیند خراب کرتا ہے اور ملازمتوں کے لیے ان کے کسی ’’کارندے‘‘ پر ’’دہاڑی لگانے‘‘ کا الزام بھی نہیں لگتا البتہ ایسی صورتحال میں ووٹرز سپورٹرز کی ’’خوشی ، غمی‘‘ میں شریک ہونا ارکان اسمبلی کا ’’بونس‘‘ ہوتا ہے جو ووٹرز کے دل جیتنے کا آسان ترین طریقہ ہے۔ ووٹر بھی اس پر پھولا نہیں سماتا ۔
وہ آئے گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو یکھتے ہیں
وہ ’’شاہ کا مصاحب‘‘ بننے پر اتراتا پھرتا ہے۔ کئی ایم پی اے، ایم این اے ’’عوامی مزاج‘‘ رکھتے ہیں ، بعض کا سٹائل ’’بیورو کریٹانہ‘‘ ’’پیرانہ‘‘ اور’’ جاگیردارانہ‘‘ ہوتا ہے…لیکن آج کل تو تمام ارکان اسمبلی خواہ وہ اپوزیشن میں ہوں یا حکومت میں عوامی سیاست کا انداز بھولے ہوئے ہیں اور کرونا کے خوف سے ’’قرنطینہ‘‘ میں ہیں۔ وزیر، مشیر بھی سماجی فاصلہ رکھتے ہوئے صرف ٹی وی چینلز پر ہی جلوہ افروز ہو رہے ہیں جبکہ اپنے انتخابی حلقہ اور ووٹرز سے مکمل طور پر لاتعلق ہوتے ہیں ایسی صورتحال کا سامنا آج کل تقریباً ہر حلقے کے ووٹرز کو ہے۔ کسی ایم پی اے، ایم این اے کو غرض نہیں کہ اسکے انتخابی حلقے میں کرونا کے باعث حالات کیسے ہیں، محنت کشوں، مزدوروں کو کن مسائل کا سامنا ہے، کسی کا چولہا جلتا ہے یا نہیں۔ انہیں فی الحال کرونا سے بچائو کے لیے خود کو ’’قرنطینہ‘‘ میں رکھنا ہے لیکن اگر یہی کرونا پاکستان میں کسی ’’انتخابی موسم‘‘ میں آتا تو پھر عوامی نمائندوں کا جذبہ دیدنی ہوتا۔ پھر ’’ہر چیز کا ایک وقت مقرر ہے، ہم تو صرف اللہ پر توکل رکھتے ہیں، کرونا، ورونا کیا شے ہے‘‘ جیسے کلمات زبان پر ہوتے اور عوام سے بھرپور یکجہتی کااظہار ہوتا۔ ہر ووٹر کے ساتھ معانقہ نہیں تو کم از کم مصافحہ ضرور ہوتا جبکہ دائیں جانب مسلح محافظ اور بائیں جانب سینیٹائزر ، ماسک اٹھائے کوئی ’’چمچہ کڑچھا‘‘ بھی کھڑاہوتا جونہی وہ کسی سے مصافحہ کرتا تو فوری بعد سینیٹائزر سے ہاتھ صاف کرتا، ہر گھنٹے ، آدھ گھنٹے بعد ماسک بھی تبدیل کرتا، کہیںکہیں ووٹرز میں بھی ماسک اورسینیٹائزر تقسیم کرتا جو اسے خوشی سے شو کیس میں سجا کر رکھتے۔ یوں دلوں کو ’’فتح‘‘ کر کے لینڈ کروزر میں بیٹھ کر ’’عقیدت مندوں‘‘ کی فوج ظفر موج کے ساتھ ’’اگلے مورچوں‘‘ کی طرف عازم سفر ہوتا۔ پھر دیکھتے کہ کرونا کس طرح اپنے ایم پی اے، ایم این اے اور ووٹرز کے درمیان دوریاں پیدا کر سکتا ہے۔ لیکن برا ہو کرونا کا، جس نے ارکان اسمبلی اور حلقہ انتخاب میں دوریاں پیدا کر دی ہیں ، حالانکہ آج بھی عوام انتخابی گہماگہمی، ’’دگڑ دگڑ‘‘ اور دھول ، مٹی اڑتی دیکھنے کے منتظر ہیں۔ ووٹر آج بھی اپنے دروازے پر نہ سہی ، گائوں اور گلی ، محلے میں ارکان اسمبلی کو ماسک، دستانے پہنے ہی سہی، بغیر مصافحہ کیے ہی لوگوں کا حال پوچھتے دیکھنے کا منتظر ہے۔ عام آدمی کرونا جیسی آزمائش میں انتخابی ایام کی طرح لوگوں کی خبر گیری کی اُمید لگائے بیٹھا ہے۔ کاش ’’انتخابی موسم‘‘ جیسا جذبہ ہمدردی بیدار ہو تو پھر حکومت کو زیادہ پاپڑ نہ بیلنے پڑیں، وزیراعظم کو بھی عوام کے فاقوں مرنے کی فکر ہر دم دامن گیرنہ رہے کیونکہ ایک ایم پی اے، ایم این اے کو اپنے انتخابی حلقے کے مستحقین کا خوب علم ہوتا ہے اور نہ صرف ایم پی اے، ایم این اے بلکہ ان کے کئی ’’چیلے چانٹے‘‘ اور سپورٹرز بھی مالی لحاظ سے اپنے اپنے حلقہ، وارڈ، گلی ، محلہ یا گائوں میں عوام کی خدمت کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024