خطہ پوٹھوہار کی ’’دبنگ‘‘ سیاسی شخصیت چوہدری نثار علی خان کو 25 جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں پارلیمنٹ تک’’ پہنچنے‘‘ نہیں دیا گیا تو انہوں نے پنجاب اسمبلی میں قدم رکھنے سے انکار کر دیا انہوں نے تاحال پنجاب اسمبلی کا محض اس لئے حلف نہیں اٹھایا کہ اگر وہ حلف اٹھا لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ’’انجینئرڈ ‘‘ الیکشن کے نتائج کو تسلیم کر لیا ہے وقفے وقفے سے بعض اخبار نویس جن کی براہ راست چوہدری نثار خان تک ’’رسائی ‘‘ ہی نہیں ’’بے پر ‘‘کی اڑاتے رہتے ہیں ایک بار پھر چوہدری نثار علی خان کے پنجاب اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے’’حلف‘‘ اٹھانے کی ’’افواہ ‘‘ گردش کر رہی ہے دلچسپ امر یہ ہے کہ چوہدری نثار علی خان اس افواہ کی تصدیق یا تردید کرنے کے لئے کسی کو مل پا نہیں رہے لیکن صحافی برادری مجھ سے اس خبر کی صداقت کے بارے میں پوچھ رہی ہے سب کو میرا ایک ہی جواب ہے چوہدری نثار علی خان ایک بار جو فیصلہ کر لیتے ہیں اس سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹتے ۔ سو چوہدری نثار علی خان پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف نہیں اٹھا رہے ۔ میری ان سے چار عشروں سے سے یاد اللہ ہے ایک صحافی کی کسی سیاسی لیڈر سے ’’دوستی‘‘ خبر کے حصول کے لئے ہوتی ہے لیکن چوہدری نثار علی خان سے ’’ دوستی ‘‘ ایک قدم بڑھ کر ہے ۔ ان کی کچن کیبنٹ پانچ صحافیوں پر مشتمل ہے جس کے بارے میں عام تاثر یہ ہے چوہدری نثار علی خان ان کی مشاورت سے اپنے سیاسی فیصلے کرتے ہیں جب کہ حقیقت اس سے مختلف ہے چوہدری نثار علی خان اپنے دل و دماغ سے سوچتے ہیں ایک ذہین سیاست دان کی طرح جو فیصلہ کر لیتے ہیں اور پھر اس پر قائم رہتے ہیں ہماری تمام تر کوشش کے باوجود میاں نواز شریف سے ملاقات پر آمادہ نہیں ہوئے ان کا کہنا یہ ہے جب تعلق بوجھ بن جائے تو اسے توڑ دینا ہی بہتر ہے ۔ ’’کچن کیبنٹ ‘‘ سے مشاورت تو محض ’’کتھارسس‘‘ ہوتی ہے ۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں چوہدری نثار علی خان جس سے ’’دوستی‘‘ رکھتے ہیں تو عمر بھر ’’دوستی ‘‘ نبھاتے ہیں اسی طرح وہ ’’دشمنی ‘‘ بھی ’’قبر‘‘ تک قائم رکھتے ہیں ۔ پچھلے ہفتے ان سے ملاقات ہوئی ، اس ملاقات میں سینئر صحافی طاہر خلیل اور طارق عزیز بھی موجود تھے یہ ملاقات اس لحاظ سے ’’ادھوری‘‘ تھی کہ اس میں سینئر صحافی عامر الیاس رانا اور برادر اصغر طارق محمد سمیر موجود نہیں تھے ۔ دو گھنٹے تک جاری رہنے والی ’آف دی ریکارڈ‘‘ گفتگو میں انہوں نے ملکی سیاسی صورت حال کا تجزیہ پیش کیا میں نے ان کو اس سے قبل پاکستان کے بارے میں اس قدر متفکر نہیں پایا جتنا اس روز کی گفتگو میں دیکھا۔ انہوں کہا کہ ’’ نہ صرف پاکستان کو بند گلی میں دھکیل دیا گیا ہے بلکہ حکومت ، اپوزیشن سمیت تمام قوتیں بند گلی میں چلی گئی ہیں ‘‘ 25جولائی 2019ء کے عام انتخابات میں چوہدری نثار علی خان کو جس طرح ’’شکست‘‘ سے دوچار کیا گیا اس کے پیچھے ایک طویل ’’کہانی ‘‘ ہے جو چوہدری نثار علی خان ’’مناسب ‘‘وقت پر سنائیں گے چوہدری نثار علی خان کے سیاسی ’’مخالفین ‘‘ نے ان کی ’’شکست‘‘ کے بعد یہ کہنا شروع کر دیا تھا کہ ’’ چکری کے چوہدری کی سیاست ختم ہو گئی ہے‘‘ لیکن وقت نے یہ ثابت کیا ہے کہ 9ماہ سے پارلیمنٹ سے باہر رہنے کے باوجود وہ تاحال ملکی سیاست میں ’’غیر معمولی‘‘ اہمیت رکھتے ہیں سیاسی حلقوں میں تازہ ترین ’’افواہ‘‘ گردش کر رہی ہے کہ چوہدری نثار علی خان کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا جا رہا ہے اس لئے وہ پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھا رہے ہیں جب کہ اس ’’افواہ‘‘ میں کوئی حقیقت نہیں وزیر اعظم عمران خان بھی بار بار یہ کہہ چکے ہیں’’ عثمان بزدار ہی پنجاب کے وزیر اعلیٰ رہیں گے‘‘ وزیر اعظم عمران خان کی ان کو مکمل حمایت حاصل ہے لیکن اس کے باوجود ’’افواہ طراز ‘‘ فیکٹریاں اپنا کام دکھا رہی ہیں ۔ میری ذاتی اطلاع کے مطابق سا بق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے اور نہ ہی انہوں نے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی پیشکش قبول کی ہے چوہدری نثار علی خان پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھانے کو قومی اسمبلی کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے کے مترادف سمجھتے ہیں ۔ پچھلے چند دنوں سے چوہدری نثار علی خان کو وزیر اعلیٰ پنجاب بنائے جانے کی افواہ تیزی سے گردش کر رہی ہے چوہدری نثار علی خان کے قریبی ذرائع نے کہا ہے کہ’’ انہوں نے اقتدار کی سیاست کی ہے اور نہ ہی کرسی کے لئے سیاسی وفاداریاں تبدیل کی ہیں انہوں نے ہمیشہ اصولوں پر مبنی سیاست کی ہے لہذا وہ کسی وقتی فائدے کے لئے اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے‘‘ انہوں نے کہا’ کہ ’ جو لوگ چوہدری نثار علی خان کو نہیں جانتے وہ اس طرح کی قیاس آرائیوں اور افواہوں پر یقین کر لیتے ہیں ‘‘ جب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی اعلیٰ قیادت اور ان کے درمیان ’’رومانس‘‘ ختم ہوا تو عام انتخابات میں انہیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ نہ دینے کا فیصلہ کیا گیاانہوں نے پاکستان تحریک انصاف کی ’’بیساکھیوں ‘‘ پر پارلیمنٹ میں جانے کی بجائے آزاد امیدوار کی حیثیت سے الیکشن لڑا ۔ انہوں نے عام انتخابات سے قبل مختلف’’ حلقوں ‘‘کی جانب سے ’’ترٖغیبات‘‘ کو مسترد کر دیا انہوں نے کو ئی پیشکش قبول نہیں کی ان کا یہ طرز عمل ہی ان کی ’’شکست‘‘ کا باعث بن گیا۔ عام انتخابات سے قبل ان کے پرانے دوست عمران خان نے ان کو تحریک انصاف کے ٹکٹ پر انتخاب لڑنے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر تحریک انصاف ’’جائن ‘‘ نہیں کی ۔ جب وہ پنجاب اسمبلی کے آزاد رکن منتخب ہو گئے تو اس وقت بھی ان سے پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے پرکشش منصب کو قبول کرنے کے لئے ذمہ دار حلقوں کی جانب سے ’رابطہ ‘‘ قائم کیا گیا لیکن انہوں نے اس وقت بھی تحریک انصاف کی’’ بیساکھیوں ‘‘ پر پنجاب کا انتظامی سربراہ بننے سے انکا ر کر دیا ۔ تازہ ترین اطلاع کے مطابق وہ پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف نہیں اٹھا رہے چوہدری نثار علی خان نے دو روز قبل راقم السطور سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ میں حلف نہ اٹھانے کے فیصلے پر قائم ہوں ۔
چونکہ چوہدری نثار علی خان تک بہت کم صحافیوں کی رسائی ہے اس لئے وہ ان کے بارے میں ’’افواہوں ‘‘ پر مبنی خبریں چلاتے رہتے ہیں چوہدری نثار علی خان سے بڑا قریبی رابطہ رہتا ہے لہذا میں انتہائی وثوق یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ وہ پنجاب اسمبلی کی رکنیت کا حلف نہیں اٹھائیں گے اگر عدالت ان سے ان کا چوائس پوچھا تو وہ استعفاٰ دینے کو ترجیح دیں گے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024