حملہ وزیراعظم کا دورہ سبوتاژ کرنے کی بھارتی سازش، ایران خبردار رہے
سانحہ گوادر پر پاکستان کا دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ ایران کی تعاون کی یقین دہانی
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ گوادر میں سیکورٹی اہلکاروں پر حملے کے ذمہ داروں کی کمیں گاہیں ایرانی سرحد کے اندر ہیں اور ایران کو اس بارے میں تفصیلات سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ یہ بات انہوں نے وزارت خارجہ کے دفتر میں ایک نیوز کانفرنس میں کہی۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا چند روز قبل ’ ہمارے سپاہیوں کو جیسے ہاتھ باندھ کر شہید کیا گیا پوری قوم غم و غصہ میں ہے اور جاننا چاہتی ہے کہ یہ واقعہ کیوں ہوا۔ انہوں نے بتایا کہ ’ایک اتحاد سامنے آ چکا ہے جو بی آر اے کے نام سے پہچانا جاتا ہے جس میں کئی بلوچ دہشت گرد تنظیمیں شامل ہیں، انہوں نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ وہ اس لئے اب تک خاموش تھے کیونکہ بقول ان کے ’جب تک ان کے پاس مصدقہ اطلاعات نہیں ہوں گی وہ تب تک انڈیا کی روایت دہراتے ہوئے الزام تراشی نہیں کریں گے۔ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ ’میرے پاس کافی مصدقہ اطلاعات ہیں جو میں شیئر کرنا چاہتا ہوں۔ ایک تو یہ کہ یہ بلوچ دہشت گردوں کی کارروائی ہے اور اس کے کیمپس ایرانی سرحد کے اندر ہیں۔ ہم نے تحقیق و تصدیق کے بعد ایرانی حکام کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کیا ہے۔ ان کیمپس کے مقامات کی بھی نشاندہی کر دی ہے۔ ایران پاکستان کا ہمسایہ ہے اور ہمارے دیرینہ تعلقات ہیں انہیں سامنے رکھتے ہوئے ہم توقع کرتے ہیں کہ ایرانی بھائی ان تنظیموں کے خلاف ایکشن لیں گے۔ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ ان کی ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف سے تفصیلی گفتگو ہوئی ہے جس میں انہوں نے پاکستانی قوم کے جذبات اور اپنی توقعات سے بھی آگاہ کیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے یقین دہانی کروائی کہ وہ نہ صرف اس واقعے کی مذمت کرتے ہیں بلکہ وہ پاکستان کے ساتھ مکمل تعاون کرنے کیلئے تیار ہیں۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ ہم نے کچھ اقدامات پہلے ہی کر رکھے ہیں اور وہ اس سرحد کی حساسیت کو سامنے رکھتے ہوئے اٹھائے گئے ہیں تاہم ان میں مزید بہتری کی جا سکتی ہے۔ ایران سے ملحقہ سرحد کے بہتر انتظام کیلئے پاکستان نے ایک نئی کور ’فرنٹیئر کور‘ بھی بنائی ہے۔ ایران اور پاکستان نے باہمی مشاورت سے یہ طے کیا ہے کہ سرحد کو پرامن رکھنے کیلئے چند بارڈر سنٹرز بنائے جائیں گے۔ سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ اگرچہ یہ مہنگا منصوبہ ہے تاہم اس کی اہمیت کیلئے یہ ضروری ہے۔ جن علاقوں کا سب سے زیادہ غلط استعمال ہوتا ہے وہاں باڑ کی تعمیر کا آغاز کیا گیا ہے۔ 950 کلو میٹر طویل یہ باڑ لگائی جائے گی۔ فیصلہ کیا گیا ہے کہ سرحدی گشت میں ربط پیدا کیا جائے گا۔ سرحدی نگرانی کیلئے ہیلی سروس بھی شروع کی جائے گی۔ دریں اثناء پاکستان نے گوادر میں شہید کئے گئے 14 افراد کے قاتلوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر ایران سے شدید احتجاج کیا ہے۔ وزارت خارجہ نے اس سلسلہ میں احتجاجی مراسلہ اسلام آباد میں ایرانی سفارتخانہ کو بھجوا دیا۔ احتجاجی مراسلہ میں کہا گیا گوادر میں پاکستانیوں کو شہید کرنے والے پاک ایران سرحد کے قریبی علاقہ سے آئے اور فرار ہوکر اسی علاقہ میں روپوش ہو گئے۔ احتجاجی مراسلہ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان نے ایرانی علاقہ میںاس گروہ کی کمین گاہوں ، تربیتی کیمپس اور لاجسٹک کیمپوں کی اطلاعات اور شرپسند سرگرمیوں کی تفصیلات پہلے بھی تہران کو بھیجیں مگر افسوس کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ ایران نے اب تک ان گروہوں کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی۔ علاوہ ازیںوزیراعظم عمران خان گزشتہ روز ایران کے دو روزہ دورے پر چلے گئے۔ وہ ایران کے صدر اور سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ آی سے ملاقات کریں گے،ان ملاقاتوں میں دوطرفہ ایشوز کے علاوہ دہشت گردی کا ایشو بھی زیر غور آئے گا۔
پاک ایران خوشگوار اور گرم جوشی پر مبنی تعلقات کی ایک تاریخ ہے۔ دونوں پڑوسی اور برادر مسلم ممالک ہر کڑے وقت میں ایک دوسرے کے کام آتے رہے ہیں۔ پڑوسی ہونے کے ناطے پاکستان اور ایران نے ایک دوسرے کی سالمیت و سلامتی کیلئے عالمی قواعد و ضوابط کے تحت جو ممکن تھا کرنے کی کوشش کی۔ دونوں طرف تعلقات میں دراڑیں ڈالنے والے عناصر بھی موجود ہیں جن کو خارجی قوتوں کی تائید حاصل ہو سکتی ہے۔ ایران میں جنداللہ بدترین دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہی۔ اس کے کارندے پاکستان میں بھی چھپ جاتے تھے، پاکستان نے ایران کا بھرپور ساتھ دیا جس کے باعث پاکستان سے جنداللہ کا وجود مکمل طور پر ختم ہو گیا اس کے سربراہ مالک ریگی کی گرفتاری بھی پاکستان کے تعاون سے عمل میں آئی جسے بعد ازاں ایران میں سرعام پھانسی دے دی گئی۔ جند اللہ کے دیگر رہنمائوں اور کارکنوں کی گرفتاری بھی پاکستان کے تعاون سے ممکن ہو سکیں۔ آج وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزارت خارجہ پورے ثبوتوں کے ساتھ پاکستان میں دہشت گردی کیلئے ایرانی سرزمین کے استعمال ہونے کے ناقابل تردید ثبوت پیش کر رہے ہیں۔ ایران میں پاکستان کو مطلوب دہشت گردوں کے ٹھکانوں کی نشاندہی کی گئی ہے، لوکیشن بتائی گئی ہے۔ پاکستان امید کرتا ہے کہ ان دہشت گردوںکے خاتمے کیلئے پاکستان کے ساتھ اسی طرح تعاون کیا جائے گا جس طرح پاکستان نے جنداللہ کے خاتمہ کیلئے کیا تھا مگر ایرانی متعلقہ اداروں نے پاکستان کی طرف سے فراہم کردہ معلومات کے مطابق ٹھوس کارروائی نہیں کی جس پر قواعد کے مطابق احتجاج کیا گیا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا یہ بیان حوصلہ افزا ہے کہ گوادر میں دہشت گردوں کے حملے کو ایران پر حملہ تصور کرتے ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
فروری کے وسط میں پاسداران انقلاب پر خودکش حملہ ہوا، اس پر ایک ایرانی کمانڈر نے پاکستان کو دھمکی دی تھی، کمانڈر کی ایسی دھمکی سفارتی آداب کے منافی اور اخلاقیات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان میں دہشت گرد ایران سے داخل ہوئے، ان کی ایران میں کمین گاہیں ہیں تو ایرانی اداروں کے وہ حلقے ان کی پشت پناہی کرتے ہوں گے جو اپنی حکومت کی اجازت کے بغیر ماورائے اختیارات پاکستان کے خلاف بیان بازی کرتے ہیں۔ یہ لوگ بہرحال اپنی حکومت سے زیادہ طاقت ور نہیں ہیں۔ ایرانی حکومت کی طرف سے پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث افراد اور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کے خلاف سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔
ایران اور پاکستان کے تعلقات کی تاریخ کی طرح بھارت کی طرف سے ایران پاکستان تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنے کی بھی تاریخ موجود ہے۔ ایران کی سرزمین کو بھارت نے پاکستان میں مداخلت کیلئے استعمال کیا۔ چاہ بہار پورٹ کی تعمیر میں سرمایہ کاری کی آڑ میں اس نے پاکستان ایران تعلقات سبوتاژ کرنے کی سازشیں رچائیں۔ کلبھوشن یادیو پاکستان میں ایران کے راستے دہشت گردی میں ملوث رہا اور بالآخر پاکستان سے گرفتار ہوا۔ ایران پر امریکہ نے پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جو ممالک ایران کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعلق رکھیں امریکہ ان کے خلاف بھی پابندیوں کا اطلاق کرتا ہے مگر اس نے بھارت کو خصوصی طور پر استثنیٰ دیتے ہوئے چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر اور افغانستان تک ریلوے ٹریک بچھانے کی اجازت دے دی۔ اس سے لگتا ہے کہ دونوں کا پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا یکساں اور مشترکہ ایجنڈا ہے۔ ایران کو بھارت کی پاکستان دشمنی اور اس دشمنی میں پاکستان کو نقصان پہنچانے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کی جبلت کو سمجھنا ہو گا۔
گوادر میں دہشت گردی میں بلاشبہ بی آر اے ملوث ہے، اس کی پشت پناہی ایران کے اندر سے کوئی حلقہ کر رہا ہے تاہم ایسے گروپوں کی تربیت اور فنڈنگ ہمیشہ سے بھارت کی طرف سے کی جاتی رہی ہے۔ گوادر میں بدترین دہشت گردی کا ارتکاب ایران کی سرحد کے اندر سے کرنے کا مقصد وزیراعظم عمران خان کے دورے کو سبوتاژ کرنا ہی ہو سکتا ہے اور ایسا بھارت کی طرف پہلی بار نہیں کیا گیا۔ اس نے پلوامہ حملہ کا ڈرامہ بھی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے پاکستان کے دورے کے موقع پر رچا کر پاکستان پر الزامات اور دھمکیوں کی بھرمار کردی تھی، اسی موقع پر ایران پاسداران انقلاب پر حملہ ہوا تھا جس کا الزام بھی پاکستان پر لگانے کی بازگشت سنائی دی تھی۔ ایران نہ صرف پاکستان میں دہشت گردی میں کمی خطے میں عدم استحکام کے خاتمے کیلئے اپنے ہاں سے بھارت کا عمل دخل اگر مکمل طور پر ختم کرا دے تو یہ آئیڈیل صورتحال ہو گی ورنہ اسے ممکنہ حد تک کم کر دے تاکہ وہ پاکستان کے خلاف سازشوں کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ایرانی سرزمین استعمال نہ کر سکے۔ پاکستان کی طرف سے ایرانی سرحد پر باڑ لگانے کا بجا طور پر درست فیصلہ کیا گیا ہے، باڑ کی تنصیب دونوں ممالک کے بہترین مفاد میں ہے اس سے دہشت گردوں کی سرحد کے آر پار آمدورفت ناممکن ہو گی جس سے انسانی اور مادی سمگلنگ کے راستے بھی بند ہو جائیں گے۔