مقبوضہ کشمیر کے بوگس انتخابات عالمی برادری کے لیے لمحۂ فکریہ
مقبوضہ کشمیرمیں قابض فوج نے بارہ مولا کے علاقے وائر گرام میں دہشت گردی کرتے ہوئے ایک نوجوان کو شہید کر دیا جبکہ اوانتی پورہ میں سرکاری ملازم فراز احمد خاں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ دوسری طرف بھارتی لوک سبھا کا انتخابی ڈرامہ بھی فلاپ ہو گیا، جس کا عملی مظاہرہ گزشتہ روز دیکھنے میں آیا۔ کہ سری نگر کے انتخابی حلقے کے 90 سٹیشنوں پر ایک ووٹ بھی نہ پڑا۔
مقبوضہ کشمیر کے عوام جس طرح یک جہت ہو کر آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں ا ور اس راہ میں اب تک جتنی قربانی دے چکے ہیں ، اُس کی مثال نہیں ملتی۔ یوں تو تحریک آزادی کشمیر کی تایخ اُس دن سے شروع ہوجاتی ہے، جب 19 ویں صدی کی تیسری دہائی میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے مسلم اکثریتی ریاست کشمیر جنت نظیر پر قبضہ کیا۔ انگریزوں نے 1848ء میں سکھوں کو شکست دے کر جب تخت لاہور پر قبضہ کر لیا تو کشمیر کو آزادی دینے کی بجائے ڈوگرہ گورنر مہاراجہ گلاب سنگھ کے ہاتھ 75 لاکھ روپے میں فروخت کردیا گیا۔ برصغیر کی آزادی کے بعد بھارت نے تقسیم کے فارمولے سے انحراف کرتے ہوئے مہاراجہ ہری سنگھ سے سازباز کر کے وادی میں فوجیں داخل کر دیں اور سری نگر پر قبضہ کر لیا۔ یہ دن کشمیریوں کے لیے انتہائی مایوسی کا دن تھا، جو سمجھ رہے تھے کہ انگریزوں کے جانے کے بعد وہ اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے۔ بھارت نے تحریک آزادی کو دبانے کی خاطر، سلامتی کونسل میں کشمیریوں کو استصواب رائے دینے کا وعدہ کیا لیکن حالات معمول پر آتے ہی مُکر گیا۔ جس پر کشمیری اُٹھ کھڑے ہوئے، اُنہیں اندازہ ہو گیا کہ اُنہیں آزادی کی جنگ تنہا ہی لڑنا ہو گی۔ کیونکہ عالمی معاہدوں نے پاکستان کے ہاتھ باندھ رکھے ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ سفارتی ، سیاسی اور اخلاقی حمایت ہی کر سکتا ہے (اور وہ کر رہا ہے) اگرچہ اس کے نتیجے میں پاکستان، بھارت کی تین مرتبہ جارحیت سے دوچار ہو چکا ہے اور اُس کا مشرقی بازو کاٹ کر بنگلہ دیش بنا دیا گیا ہے۔ بھارت نہ صرف عالمی فورموں پر کئے معاہدوں سے پھر چکا ہے بلکہ ریاستی اور بھارتی سطح پر انتخابی ڈرامہ رچا کر عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ناکام کوشش کرتا رہتا ہے۔ کشمیریوں نے الیکشنوں کا ہمیشہ بائیکاٹ کر کے ثابت کر دیا ہے کہ بھارت غاصب ہے۔ دوچار، پانچ دس نہیں، اکٹھے 90 پولنگ سٹیشنوں پر ایک ووٹ بھی نہ پڑنا چشم کشا ہے۔ یہ صورتِ حال ایک آئینہ ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں، انسانی آزادیوں کے عالمی علمبراروں کے لیے یہ بوگس انتخابات لمحہ فکریہ ہونا چاہئیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ امریکہ چین اور روس بھارتی بیڑیوں میں جکڑے محکوم کشمیریوں کو آزادی دلانے کے لیے انڈیا پر عالمی اداروں کی قراردادوں پر عمل کے لیے دبائو ڈالیں۔