پیر ‘ 16 ؍ شعبان المعظم ‘ 1440ھ‘ 22؍ اپریل 2019ء
پنجاب اسمبلی کی بلڈنگ اس سال
مکمل کی جائے گی: پرویز الٰہی
لگتا ہے پنجاب اسمبلی کی موجودہ عمارت کی تکمیل ق لیگ کے دور میں ہی لکھی ہے۔ جبھی تو ایک عشرہ سے زیادہ کا وقت بیت چکا ہے۔ یہ منصوبہ شیطان کی آنت بنا ہوا ہے اور اسمبلی کی عمارت ہنوز نامکمل ہے۔ کسی غریب کی جواں بیٹی کی طرح رشتہ کے انتظار میں ہے۔ مگر اس عمارت کی تکمیل میں روپیہ پیسہ تو رکاوٹ رہا ہی نہیں ۔ ہر حکومت فنڈز جاری کرتی رہی مگر شاید ان کی نیت نہیں تھی۔ یہ عمارت مکمل ہو۔ سو جب نیت کا فتور ہو تو پھر ہونے والا کام بھی مکمل نہیں ہو پاتا۔ اس نئی عمارت کی تعمیر کا آغاز بھی پرویز الٰہی کے زیر سایہ ہوا تھا اب امید ہے اس کا افتتاح بھی انہی کے ہاتھوں لکھا ہے۔ سو اسے عجب اتفاقات زمانہ کہیں یا نیک نیتی یہ عمارت انہی کے انتظار میں کب سے دلہن بننے کے انتظار میں تھی اور اب اس کی رخصتی بھی انہی کے ہاتھوں انجام پا رہی ہے۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ بالآخر ایک طویل منصوبہ اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ ورنہ ہم کوئی اچھا کام بھی اس لیے انجام تک نہیں پہنچاتے کہ اس سے مخالف کی واہ واہ ہو گی۔ اس طرح اب اگر پرویز الٰہی اپنے دور کے باقی بھولے بسرے منصوبے بھی مکمل کروا دیں تو لوگ انہیں دعائیں دیں گے۔ گنگا رام ہسپتال کی ایمرجنسی اس بات کی گواہ ہے کہ لوگ آج بھی وہاں جب جاتے ہیں تو ان کے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ سو اس وقت دعائیں لینے کا موقع ملا ہے تو کیوں نہ فائدہ اٹھایا جائے…
٭٭٭٭
بھارتی جیل میں مسلمان قیدی پر
تشدد کمر پر ’’اوم‘‘ لکھ دیا
پہلے زمانہ کی بات نہیں ابھی بھی کیا مشرق کیا مغرب ہر جگہ جانوروں کو شناختی نشان لگایا جاتا ہے۔ جسے داغنا کہتے ہیں۔ مخصوص نشان یا نمبر والا لوہے گرم کر کے سرخ انگارہ بنا کر جانور کے جسم پر یا ران پر داغا جاتا ہے۔ جس سے وہ پہچان کی علامت بن جاتی ہے۔ قدیم دور میں غلاموں کو بھی اس تکلیف دہ عمل سے گزرنا ہوتا تھا ان کے جسم بھی ان گرم لوہے کی دہکتی سلاخوں سے داغے جاتے تھے۔ آج کے اس جدید دور میں بھارت جیسے سیکولر اور نام نہاد جمہوری ملک میں یہی ظالمانہ فعل بھارتی جیلوں میں مسلمان قیدیوں پر استعمال ہو رہا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ پہلے غلاموں کو اور جانوروں کو داغا جاتا تھا۔ اب بھارت میں مسلمانوں کو غلام سمجھتے ہوئے بھارتی جیلر انہیں سزا کے طور پر ایسا کرتے ہیں۔ بدنام زمانہ دہلی کی تہاڑ جیل میں معمولی سی شکایت پر بھارتی جیل حکام نے جس طرح ایک مسلمان قیدی کی کمر پر ’’اوم‘‘ کا نشان داغا اس سے سوائے تکلیف کے اس قیدی کو کیا ہوا ہو گا۔ مگر بھارت کا مکروہ چہرہ ضرور بے نقاب ہوا ہے اور خود لفظ ’’اوم‘‘ کی بھی بے حرمتی ہوئی ہے۔ سچ کہتے ہیں تعصب عقل کو کھا جاتا ہے۔ یہ لفظ داغتے ہوئے اس انتہا پسند ہندو کو یہ خیال نہیں آیا کہ کمر پر مقدس الفاظ یا نشان داغے نہیں جاتے۔ خود ہندوئوں کو ہی دیکھ لیں شاید ہی کسی کی کمر پر یہ مقدس لفظ لکھا ہو…
٭٭٭٭
شاہد آفریدی کی زندگی پر کتاب
30 اپریل کوشائع ہو گی
لوگ جو جی چاہے کہیں مگر لگتاہے کہ یہ کتاب کوئی بڑی ہلچل پیدا نہیں کرے گی یا لوگوں کی فوری توجہ حاصل کرے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لالہ کی زندگی میں
’’وہ جوانی جوانی نہیں جس میں کوئی کہانی نہ ہو،،
والا حسین چیپٹر دور دور تک ڈھونڈنے سے نہیں ملتا اگر ہے بھی تو اس پر انہوں نے کبھی بات نہیں کی ویسے بھی اپنے معاشرے اور ماحول کے مطابق انہوں نے شادی بھی بروقت یعنی جلدی کی اس طرح انہیں
’’بچنا اے حسینوں کہ میںآ گیا‘‘ کی صدا لگانے کا بھی زیادہ موقع نہیں ملا۔ لوگ اسی کتاب میں دلچسپی لیتے ہیں جس میں پھلجڑیاں ہو۔ کہانیاں ہو۔ انکشافات ہوں، اگرصرف کرکٹ کرکٹ اور کرکٹ پر ہی لکھنا ہے تو ایسی بے شمار معلوماتی کتابیں بازار میں دستیاب ہیں جو لوگ خرید کر بھی نہیں پڑھتے اب جس لکھاری نے یہ کتاب لکھی ہے دیکھنا ہے وہ اس میں کتنا گلیمر لاتے ہیں لالہ کے دوستوں اور گرل فرینڈز کی کونسی فہرست سامنے لاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کوئی زبردست قسم کا رومانس یا دکھ سامنے آئے۔ اگرسارا زور انہیں نیک پارسا اور صرف کھلاڑی بنانے پر صرف ہوا تو پھر یہ ٹھنڈی کتاب اس گرما گرم ماحول میں کہاں چلے گی۔ ہمارے ہاں تو بد شکل لکھاری بھی خود کو رومیو ثابت کرنے میں سارا زورقلم صرف کرتے ہیں لالہ تو پھر ہیرو ہے ہیرو ابھی تک بقول فراز:
’’سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں‘‘ تو پھر کتاب میں بھی ایسا کچھ ہونا چاہئے ناں ورنہ بکے گی کیسے؟!
٭٭٭٭٭
کابینہ کو دیکھ کر لگتا ہے اب بھی حکومت
پیپلزپارٹی کی ہے: سراج الحق
سراج الحق بھی اپنا دکھڑا عوام کو سنانے پر مجبور ہو گئے ہیں حالانکہ یہ حقیقت سب جانتے ہیں صرف لگتا ہی نہیں بلاول زرداری کو بھی کابینہ میں اپنے اڈے سے اڑ کر جانے والے کبوتروں کے ایک پورے جتھے کو پی ٹی آئی حکومت کی کابینہ کی چھتری پر بیٹھا دیکھ کر بہت حیرت بھی ہو رہی ہے۔ وہ تو برملا کہہ بھی رہے ہیں کہ موجودہ وزیروں اور مشیروں کو دیکھ کر پتہ چلتا ہے حکومت صرف پی پی پی ہی چلا سکتی ہے۔ بے شک اس وقت وزراء اور مشیروں کی بڑی تعداد پی پی کے پسماندگان پر ہی مشتمل ہے۔ مگر سچ تو یہ بھی ہے کہ ان کے ہاتھوں ملک کا جو حال ہوا۔ معیشت کاجو حشر ہوا اس کی ذمہ داری بھی تو پیپلزپارٹی والے قبول کریں۔ کہتے ہیں جو چھوڑ کر چلا جائے وہ اپنا کب ہوتا ہے سو یہ سب بھی دوسری جماعتوں سے پی پی میں آئے تھے اور اپنی اس روایت پر عمل کرتے ہوئے یہ جب موقع ملا نئی جماعت میں چلے گئے۔