’’توں میرے نال مل کے کم کر‘‘ پیپلزپارٹی کی وفاقی وزیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اس کالم نگار کو اصلاح احوال کے لئے ’مل جل‘ کر کام کرنے کی دعوت دے رہی تھیں۔یہ میری ڈاکٹر صاحبہ سے دوسری یا تیسری ملاقات تھی۔ ہوا کچھ یوں کہ اشتہارات کے اعدادوشمار پر وفاقی وزیر اطلاعات کے ساتھ معاصر گروپ کا تنازعہ چل رہا تھا۔ یہ کالم نگار ان دنوں اُس گروپ میں پالیسی سمیت دیگر معاملات پر نگاہ رکھتا تھا۔ وفاقی حکومت ہمیشہ سے ذرائع ابلاغ کا سب سے بڑا گاہک (کلائنٹ) رہی ہے۔ اس لئے اشتہارات پر تنازعات چلتے رہتے ہیں جو اعدادوشمار اور نرخ (ریٹس) وزارت کے بابو ہمیں بتا رہے تھے وہ ان کی اپنی روزانہ تیار کی جانے والی رپورٹ سے متصادم تھے۔یہ اعلیٰ درجے کی رپورٹ روزانہ صدر، وزیراعظم اور وفاقی وزیر اطلاعات کے لئے تیار کی جاتی ہے جس میں اشتہارات سے لے کر خبروں اور کالموں کا بھی تفصیلی تجزیہ کیاجاتا تھا۔ اشتہارات کی مکمل تفصیل ہوتی تھی کہ کتنے اشتہارات جاری کئے گئے ؟ کس کس اخبار کا حصہ کتنا تھا؟ اس کی مالیت کیا تھی؟ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو وزیر بنے چھ ماہ ہوچکے تھے اور وہ اس رپورٹ کے بارے میں مکمل لاعلم تھیں کہ شاطر اہلکار اسی طرح وزیروں کو لاعلم رکھ کر بے وقوف بناتے ہیں۔یہ کالم نگار سید والا تبار جناب عباس اطہرکے ہمراہ وفاقی وزیراطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سے بات چیت کر رہا تھا۔ ہمارے پیش کردہ اعدادوشمار کو تسلیم کرنے پر ڈاکٹر صاحبہ آمادہ نہیں تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ ہمارے پیش کردہ اعدادوشمار من گھڑت ہیں۔ اس پر خاکسار نے عرض کی کہ یہ مستند اعدادوشمار وزارت اطلاعات کی رپورٹ سے لئے گئے ہیں اور وہ رپورٹ مادام وزیر کو پیش کردی جس پر انہوں نے انکشاف کیا کہ انہیں اس رپورٹ کا کوئی علم نہیں تھا لیکن آج شام تک اگر یہ رپورٹ برآمد نہ کراسکی تو وزارت سے مستعفی ہوجائوں گی اور رپورٹ انہوں نے برآمد کرالی۔ اس کے بعد ملاقاتوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔جس کے بعد ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی ہمہ رنگ شخصیت کے مختلف پرت منکشف ہونا شروع ہوگئے اور ہم ان کی شخصیت کے اسیر ہوتے چلے گئے۔ کھلی ڈلی پنجابی، بے تکلف زندگی ایک خاتون کا ہمارے پدرسری معاشرے میں بلکہ دیہی سماج میں اپنی جگہ بنالینا ہمالیہ کی چوٹی سر کرنے کے برابر ہے۔
دیہی علاقے کے غیر سیاسی خاندان سے تعلق رکھنے والی خاتون ڈاکٹر کا میدان سیاست میں آنا اور چھا جانامعجزہ سے کم نہیں جبکہ برادری کا عوامل بروئے کار نہیں تھا۔ مولا علی کی غیر فاطمی اولاد سے تعلق رکھنے والے اعوان پوٹھوہار اور سرگودھا خوشاب اور میانوالی کے نواح میں پائے جاتے ہیں۔ سیالکوٹ جاٹوں اور گوجروں کا علاقہ ہے اور ڈاکٹر فردوس عاشق کا مقابلہ تو بابائے گوجراں انور عزیز چودھری کے شاگرد رشید چودھری امیر حسین سے تھا جو سپیکر قومی اسمبلی کے منصب جلیلہ تک جا پہنچے تھے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ باہمی احترام اور محبت میں اضافہ ہوتا چلاگیا پھر سیالکوٹ اورگوجرانوالہ تک بات جاپہنچی اور اب بے تکلفی کا یہ عالم ہے کہ گوجرانوالہ سے تحریک انصاف کے نوجوان رہنما رانا ساجد علی خان کو سیاسی تربیت کے لئے آزمودہ کار رہنما کی سرپرستی میں دینے کا مرحلہ درپیش ہوا تو فوراً مادام ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان سے مدد مانگی۔ انہوں نے مایوس نہیں کیا اور خوش دلی سے رانا ساجد علی خان آف ایمن آباد کے سرپراپنا دست حق پرست رکھ دیا۔ اس بہانے اس کالم نگار کو بھی سیالکوٹ کے اس دیہی حلقے انتخاب میں گھومنے پھرنے کا موقع مل گیا۔ ایک درجن سے زائد انتخابی میٹنگز کے بعد رات گئے جب ہم نے رخصت چاہی تو خدا گواہ ہے کہ مادام فردوس عاشق اعوان ہشاش بشاش تھیں جبکہ اس کالم نگار کا جوڑ جوڑ چیخ وپکار کررہا تھا، جواں سال عدنان وزیر اور سیاستدان بننے کے شوقین رانا ساجد علی کانوں کو ہاتھ لگارہا تھاکہ اس شاگردی سیاست سے باز آیا۔ انہی دنوں پیپلزپارٹی کے کسی مہربان رہنما نے بتایا کہ بلاول کے اپنے والد زرداری کے ساتھ مراسم بڑے تلخ ہیں، وہ ان کی موجودگی میں سگریٹ نوشی کرتا ہے جب ڈاکٹر صاحبہ سے تصدیق کے لئے استفسار کیا تو انہوں نے سماجی ادب آداب اور خاندانی ریت و رواج کا ذکر کرتے ہوئے معاملہ ٹال دیا۔ یہی مروت کارفرماتھی کہ انہوں نے عدالتی فیصلے تک زرداری کو کرپٹ کہنے سے انکار کردیا۔
اپنی والدہ کی جس جانفشانی سے ڈاکٹر صاحبہ نے خدمت کی ہے، ان کے مقدر پر رشک آتا ہے۔ پڑھی لکھی، دلیر اور سچ منہ پردے مارنے والی ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان ایک مرتبہ پھر اطلاعات ونشریات کا مشکل محاذ سنبھال چکی ہیں۔ ایک ایسے وقت میں ’فائر فائٹنگ‘ کے لئے میدان میں آئی ہیں جب ہر طرف سے ویسے ہی آگ لپک رہی ہے اور سیاسی مفادات کی گولہ باری پوری بے رحمی اور بدلحاظی سے جاری ہے۔ مفادات میں جکڑے قلم کار اس فائرنگ میں اپنے اپنے حصے کی ہاہاکار مچانے پر مامور ہیں۔ مسئلہ ’حقائق‘ یا ’سچائی‘ کا نہیں بلکہ اپنی اپنی ’نفرتوں‘ کی فتح کا ہے۔
سیاست فردوس عاشق اعوان کی ’گْھٹی‘ میں شامل ہے۔ ان کی پیدائش اس گھرانے میں ہوئی جو پیپلزپارٹی کی شناخت تھا۔ ان کے والد عاشق حسین اعوان منجھے ہوئے سیاستدان اورپاکستان پیپلزپارٹی کے پرزور حامی تھے بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ ہی پیپلزپارٹی کی شناخت اور پہچان تھے۔ ملک عاشق حسین اعوان ہی کی وجہ سے سیالکوٹ پیپلزپارٹی کا مضبوط حلقہ بنا۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کے بھائی ملک اعجاز حسین اعوان پی پی پی کے سینئر ایگزیکٹو کے رکن رہے۔ انہیں عام انتخابات میں دو بار پارٹی ٹکٹ بھی دیا گیا۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کا مقصد ومحور سیاست نہیں تھا۔ وہ عوامی خدمت کے جنون میں مبتلا تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے سیاسی جکڑ بندیوں، خاندانی سیاسی مجبوریوں یا دباؤ کو اپنانے اور اس کا اسیر بننے کے بجائے آزاد لیکن مشکل راستے کا انتخاب کیا۔ ایک خاتون ہونے کے باوجود یہ ان کا جراتمندانہ اور غیرمعمولی فیصلہ تھا۔ سیاست گھر میں تھی اس لئے اس کی توجہ عوامی خدمت کی طرف مبذول ہوئی۔ تعلیم وتوجہ کی بناء پر وہ طب کے شعبے کی طرف راغب ہوئیں۔ فاطمہ جناح میڈیکل کالج جو اب یونیورسٹی بن چکا ہے،ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے اسی میڈیکل کالج سے تعلیم پائی۔ 90 کی دہائی کے وسط میں فاطمہ جناح میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ سر گنگا رام ہسپتال میں ہائو س جاب پر مامور ہوگئیں۔ ہاؤس آفیسر کے طورپر ان کی شہرت یہ بن گئی کہ وہ نادار اور پریشان حال مریضوں کے ساتھ ایک سے دوسرے ہسپتال دوڑتی، بھاگتی اور مدد کرتی نظرآتیں۔ ہر مریض ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کو ڈھونڈ رہا ہوتا تھا جو کسی جان پہچان کے بغیر مصیبت زدہ مریضوں کی دن رات مدد میں مصروف دکھائی دیتیں۔ لوگوں کو کہنا تھا کہ اس لڑکی کو نہ نیند آتی ہے اور نہ ہی تھکاوٹ کا اس پر کوئی اثر ہوتا ہے۔
طب کے شعبے میں غریبوں کی مدد کا جذبہ لے کر آنے والی اس لڑکی کی پہچان نہ سیاست تھی، نہ اس کا گھرانہ بلکہ محض ایک مددگار ڈاکٹر کا۔ کسی کو علم نہ تھا کہ اس کا پس منظر کیا ہے۔ لیکن اس لڑکی کے ذہن میں کئی سوالات کلبلا رہے تھے۔ مریضوں کی مدد اور بطور ڈاکٹر سرکاری شعبہ میں پیش آنے والے مسائل نے اس کے ذہن میں یہ سوال لاکھڑا کیا کہ اس مسئلے کا حل شاید ڈاکٹر بننا نہیں؟ اس سوچ کے ساتھ ہی اس نے ’’سوسائٹی فار ہیلتھ اینڈ ڈیویلپمنٹ ایکس چینیج‘‘ یا ’’سایہ‘‘ (شیڈ) کی بنیاد رکھ دی۔ اب اس کا عزم یہ تھا کہ وہ صحت کے شعبے میں عوامی فلاح کا کام کرے گی۔ ’سایہ‘ یا ’شیڈ‘ کا پہلا دفتر سر گنگا رام ہسپتال کے احاطے کے اندر ہی قائم کیا گیا جہاں نادار مریضوں کو مفت دوائیں دی جاتیں اور علاج معالجہ کے اخراجات میں مدد کی جاتی۔ عوامی خدمت کا ’پاگل پن‘ کی حد تک کا یہ جذبہ ہی تھا کہ 1996ئ میں پنجاب جب سیلاب کی بدترین تباہی سے دوچار تھا تو ’شیڈ‘ کے بینر تلے یہ نوجوان ڈاکٹر چوبیس گھنٹے سیلاب متاثر ین کی مدد میں مصروف عمل رہتی۔ اس کے اس جذبے کی وجہ سے ہی اس وقت کے وزیراعظم محمد نوازشریف نے ان رابطہ کیاتھا۔ اس کی محنت، لگن اور صحت کے شعبہ میں اصلاح کی جذبے کو ہسپتالوں کی ایڈمنسٹریشن کے موضوع پر اقوام متحدہ کے سپانسرڈ پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ کی صورت میں پزیرائی ملی۔
قومی اسمبلی میں اپنے حسن، میک اپ، دولت، خاندانی سیاسی طاقت اور اثرورسوخ کی بناء پر آنے والی خواتین میں سے وہ ان خواتین میں شامل ہے جو متاثر کن تعلیمی ریکارڈ کی حامل ہے، جس نے براہ راست عوام کی خدمت کی ہے، مردوں کو ہرا کر ایوان میں آئی۔ سیالکوٹ کے منجھے ہوئے سیاستدان چوہدری امیر حسین کو ہرانا کوئی بچوں کو کھیل نہیں تھا۔ (جاری)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024