ایک جانب مسلمہ ہندو دہشتگرد خاتون سادھوی پرگیہ ٹھاکر کو BJP نے مدھیہ پردیش کے صوبائی دارالحکومت بھوپال سے لوک سبھا ٹکٹ دیا ہے ۔ یاد رہے کہ یہ عورت مدھیہ پردیش کے سابق کانگرسی وزیراعلیٰ دگ وجے سنگھ کے مقابل چنائو لڑ رہی ہے۔ حالانکہ کسے معلوم نہیں کہ یہ عورت مالیگائوں دہشتگردی اور سمجھوتہ ایکسپریس سانحے کی مرکزی مجرم ہے۔
دوسری طرف 18 اپریل 2019 کو بلوچستان میں دہشتگردی کا ایک سفاکانہ کھیل کھیلا گیا جس کا تصور کوئی نارمل فرد یا گروہ نہیں کر سکتا۔ اس سانحے میں 14 بے قصوروںکو شہید کر دیا گیا جن میں پاک بحریہ کے جوان بھی شامل تھے۔ اس سے محض ایک ہفتہ قبل کوئٹہ میں ایک دوسری واردات میں کئی معصوموں کو زندہ رہنے کے بنیادی انسانی حق سے محروم کر دیا گیا۔ اس کا جائزہ لیتے انسان دوست حلقوں نے کہا ہے کہ اس سے واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں بالعموم اور بلوچستان میں خاص طور پر دہشتگردی کی نئی لہر جنم لے رہی ہے ، یاد رہے کہ چند روز قبل بھی پشاور میں دہشتگردی کا ایک بڑا منصوبہ ناکام بنا دیا گیا تھا۔ یہ صورتحال اس امر کی واضح دلیل ہے کہ RAW اور این ڈی ایس کی ڈوریاں ہلانے کے پس پردہ عناصر کونسے ہیں۔ یہ بھی کوئی راز کی بات نہیں کہ کلبھوشن یادو بھی بلوچستان میں اپنی سرپرستی میں دہشتگردی کا ایک پورا نیٹ ورک چلا رہا تھا۔ ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں قومی سلامتی اور دفاعِ وطن کے تقاضوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے تمام حکومتیں اور ریاستیں غیر معمولی حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے اکثر اوقات معمول سے ہٹ کر اقدامات اٹھاتی ہیں۔ مگریہاں بوجوہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد فی الحال معطل ہے جس کی وجہ سے دہشتگردوں کو نئے سرے سے سر اٹھانے کا موقع مل رہا ہے۔ اسے ستم ظریفی ہی قرار دیا جا نا چاہیے کہ گذشتہ کئی برسوں سے یہ روایت جڑیں پکڑ چکی ہے کہ بعض حلقوں کی جانب سے پاک آرمی اور قومی سلامتی کے دیگر اداروں کو ہدفِ تنقید بنانا ایک فیشن کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے کہا ہے کہ جب وطنِ عزیز کو کسی اندرونی ،بیرونی یا قدرتی آفت کا سامنا ہوتا ہے تو افواجِ پاکستان ہراول دستے کے طور پر اپنا روشن کردار ادا کرتی ہیں۔ بھلے ہی وہ 2005ء کا قیامت خیز زلزلہ ہو،تھر کی قحط سالی یا پھر سیلاب کی تباہکاریاں۔ہر مشکل کی گھڑی میں قوم اپنے ان فرزندوں کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتی ہے اور انہوں نے بھی قوم کو کبھی مایوس نہیں کیا۔ اس کے علاوہ عالمی امن کو یقینی بنانے کی خاطر بھی پاکستان نے اقوامِ متحدہ کی امن فوج کا حصہ بن کر دنیا کے مختلف خطوں میں جو مثبت کردار ادا کیا ہے اس کا معترف ایک زمانہ ہے۔ماضی قریب میں اقوامِ متحدہ کے سربراہ نے دورہ پاکستان کے دوران اس حوالے سے افواجِ پاکستان اور یہاں کے عوام کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔دوسری جانب یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ عالمی میڈیا کا ایک بڑا حلقہ وقتاً فوقتاً قومی سلامتی کے دیگر اداروں کو مطعون کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور اس ضمن میں خود پاکستانی ذرائع ابلاغ اور اربابِ اقتدار میں سے کچھ عناصر شعوری یا نا دانستہ طور پہ حقائق کو اکثر اوقات توڑ مروڑ کر پیش کرتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پہ حالیہ دنوں میں وطنِ عزیز کے میڈیا کا ایک حلقہ پاک فوج کے کردار کے ضمن میں عجیب و غریب افسانے گھڑ رہا ہے اورافواجِ پاکستان ، آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر کے انتہائی مثبت کردار کو منفی بنا کر پیش کیا جا رہا ہے یوں بالواسطہ اور براہ راست دونوں طرح سے مٹھی بھر پاک دشمن عناصر کو تقویت پہنچائی جا رہی ہے۔ یہ گرچہ کوئی نئی بات نہیں مگر یہ روش انتہائی قابل مذمت ہے۔ اس تمام منظر نامے کا جائزہ لیتے غیر جانبدار تجزیہ کاروں نے رائے ظاہر کی ہے کہ تیسری دنیا کے اکثر ممالک کی طرح اگرچہ وطنِ عزیز میں بھی سبھی حکومتی اور سیاسی معاملات مثالی حد تک صحیح نہیں ہیں اور ان میں بہتری کی گنجائش بہر طور موجود ہے مگر اس تلخ حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف ڈس انفارمیشن پھیلانے والے یہ عناصر غالباً کسی مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں کیونکہ گذشتہ کافی عرصے سے نظریہ پاکستان،ریاست اور قومی سلامتی کے اداروں کو ہدفِ تنقید بنانا دانشوری،ترقی پسندی اور انسان دوستی کی واحد علامت بن گیا ہے اور یہ طرزِ عمل وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پختگی اختیار کرتا جا رہا ہے ، حالانکہ مناسب اور تعمیری سوچ غالباً یہ ہونی چاہیے کہ خود احتسابی اور خود مذمتی کے مابین باریک سی حدِ فاصل کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے اور صحافتی،سماجی اور سیاسی اکابرین اپنا سارا زورِ خطابت پاکستان اور اس کے محافظ اداروں کو مطعون کرنے کی بجائے اپنی توانائیاں تعمیری ڈھنگ سے صرف کریں۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38