وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے پاکستانیوں کو جس تبدیلی کا خواب دکھایاتھا اسکی تعبیر اب آنا شروع ہوئی ہے جن پر تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے چنانچہ شجر کابینہ سے پتے گرنا بلکہ جھڑنا شروع ہو چکے اور نئے پتے نمودار ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم کی 47 رکنی کابینہ میں 16 غیر منتخب نمائندے شامل ہیں۔ کرپشن کی بھنک ملنے پر عمران خان نے تین وزراء کے خلاف تحقیقات کی ہدایت جاری کی ہے۔ ا یک وزیرقبضے کرانے اور اربوں کمانے پر اوردوسرے کو دوائیوں سے پیسہ کمانے کی جلدی تھی۔ کیمرے کی آنکھ ہر وزیر مشیراور معاون خصوصی کودیکھ رہی ہے۔ اسد عمر نے باوقار انداز میں خیرباد۔ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں کچھ وزیروں ، مشیروں کے پتے جھڑنے اور کچھ نئے چہروں کی قسمت جاگنے والی ہے۔ جو کام نہیں کرے گا وہ نہیں رہے گا۔ عثمان بزدار اور محمود خان کے کان بھی کھڑے ہو گئے ہیں۔ مہلت کا عرصہ دنوں اور ہفتوں سے زیادہ نہیں۔ اعجاز شاہ سب سے طاقتور وزیر داخلہ بن کر ابھرے ہیں۔ فردوس عاشق اعوان وزیر اطلاعات رہ چکی ہیں۔ میڈیا کا سارا قاعدہ حفظ کر رکھا ہے۔ فواد چودھری کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی بور سبجیکٹ ہے۔ عبدالحفظ شیخ کوڈھونڈ کر خزانے کا رکھوالا بنایا گیا ہے ، انہیں باتوں بیانوں اور میڈیا کو درشن کرانے سے ذرا کم دلچسپی ہے۔ ان کے کپڑوں پر کوئی داغ دھبہ نہیں کہ انہیں نیب کے سرف کی ضرورت پیش آئے۔ ا نہوں نے معاشی فیصلوں کے لیے اپنا روڈ میپ تیار کر لیا ہے۔ عمران خان کے تبدیلی کے ایجنڈے کی مخالف اندرون خانہ قوتوں نے بجلی اور گیس کے نرخوں میں اس قدر اضافہ کرایا کہ صارفین مالی دبائو کا شکار ہو گئے۔ ادویات کی قیمتیں دوگنی کر دی گئیں۔ اسد عمر، عمر ایوب (فیلڈ مارشل ایوب خان کے پوتے) اور غلام سرور خان کی کارکردگی عوام نے دیکھ لی۔ نظام کو جوں کا توں رکھنے والی قوتیں دیدہ اور نادیدہ دونوں ہیں۔ عبدالحفیظ شیخ کو اب بھی پیپلز پارٹی والے دور کا سامنا ہے۔ جب وہ 2010ء سے 2013ء کے دوران وزیر خزانہ تھے۔ وہ 20 ممالک کے لیے معاشی بحالی کے پلان بنانے میں شریک رہ چکے ہیں۔ وزیراعظم ہائوس کی بھینس اور گاڑیوں کی نیلامی سے خزانے کا پیٹ کتنا بھرا؟ ہزاروں گاڑیاں کراچی بندرگاہ پر کلیئر ہونے کی منتظر ہیں۔ فیصلوں میں تاخیر عادت ہو چکی ہے اور ان کا نفاذ بھی قابل ذکر نہیں ہے۔ وزیراعظم ہائوس کو کسی اور چیز میں بدلنے کا منصوبہ، گورنر ہائوس لاہور کی دیواریں گرانے کی سوچ سے عوامی مفاد وابستہ نہیں۔ شیلٹر ہومز کتنے ہی بنا لیے جائیں جس طرح طبلے بجانا ایک پیشہ ہے اسی طرح گداگروں کو محل میں بھی بٹھا دیا جائے۔ وہ خود کو سونے کے نوالوں سے آراستہ میز پر بھی مقید نہیں رکھ سکتے۔ وزیراعظم کو اپنے 165 سے زائد ارکان قومی اسمبلی اور سینئرز میں سے ایک بھی رکن اس قابل نہیں ملا کہ خزانے پر بٹھا سکتے، خزانے، صحت، اطلاعات اور پٹرولیم کیلئے غیر منتخب افراد کی خدمات حاصل کی ہیں۔ عمران خان کیلئے پارٹی کے اندرونی اختلافات دھڑے بندی بھی اہم مسائل ہیں۔ حالیہ تبدیلی نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ حکومت 8 ماہ بعد بھی وہیں کھڑی ہے جہاں سے سفر کا آغاز کیا تھا۔ زرمبادلہ کے ذخائر سے لے کر گروتھ ریٹ تک ہر اشاریہ منفی سمت میں جا رہا ہے۔ چہرے بدلتے رہیں گے۔ تبدیلی نہیں آئیگی۔ تھانیدار آئے روز بدلتے رہتے ہیں۔ تھانیداروں کی وردی تبدیل کی گئی اس سے تھانہ کلچر تو جوں کا توں ہے۔ تھانوں میں پیسوں کے بغیر بات ہی نہیں بنتی۔ اس صداقت کو کون جھٹلا سکتا ہے۔ یوٹیلٹی بلوں، ڈالر کے ریٹ اور مہنگائی میں کمی نہ آئی تو کابینہ میں تبدیلی بے معنی ثابت ہو گی۔ تین وزارتوں پر ٹیکنو کریٹس کو صدارتی نظام کی طرف پیش قدمی ہی سمجھا جائے گا۔ سٹاک ایکس چینج میں مندی کا تسلسل جاری ہے۔ سرمایہ کاروں کو ایک کھرب 43 ارب کا جھٹکا لگا ہے۔ مئی سے مارچ، اشیا 36 فیصد تک مہنگی ہوئی ہیں۔ ڈیزل 12.92 فیصد، گیس 13.58 فیصد مہنگی ہوئی ہے۔ لہسن 132.39 سے 180.30 روپے کلو جبکہ دال مونگ 21.12 فیصد مہنگی ہوئی۔ احتجاج کے بعد 395 ادویات کی قیمتوں میں کمی کا اعلان ہوا۔ سونا 550 روپے فی تولہ سستا ہو کر 70 ہزار روپے کی سطح پر آ گیا۔ ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد 1.9 ملین ہو گئی ہے۔ 2017ء میں 1.84 ملین گوشوارے جمع کرائے گئے تھے۔ غیر ملکی کرنسی لانے کے قوانین میں تبدیلی کا امکان ہے۔ منی چینجرز سے ڈالر خریدنے والوں کا ریکارڈ طلب کیا جا رہا ہے تاکہ معلوم ہو سکے کے کون لوگ ڈالر خرید رہے ہیں۔ قانونی ذرائع کے بغیر آنے والی غیر ملکی کرنسی کیخلاف بھی آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ حکومت پروٹیکشن آف اکنامک ریفارمز ایکٹ 1992ء کا قانون ختم کرنے پر غور کر رہی ہے ۔ جس کے تحت تمام شہریوں کو بیرونی ممالک سے بینکنگ ذرائع سے غیر ملکی کرنسی میں حاصل ہونیوالی رقم جس کی مالیت چاہے کتنی بھی ہو پر محکمہ انکم ٹیکس یا کسی دوسرے ادارے کی تحقیقات سے استثنیٰ حاصل ہے۔ اس قانون کے بعد ملک میں زرمبادلہ کے غیر ملکی ذخائر میں اضافے کی حوصلہ افزائی ہوئی تھی۔ کاروباری طبقہ نے اس دھن کو سفید کرنے کیلئے استعمال کیا جس پر اس نے کبھی ٹیکس نہیں د یا تھا۔ رمضان سے پہلے ہی یوٹیلٹی سٹورز سے گھی، چاول، دالیں اور چینی غائب ہو گئی ہیں۔ 8 ماہ میں یوٹیلٹی کارپوریشن کے چار ایم ڈی تبدیل ہوئے ہیں جیسے پنجاب میں 8 ماہ کے دوران چوتھا آئی جی پولیس لگا آیا ہے۔ کارپوریشن 7 ارب کی مقروض ہے۔ ایمنسٹی سکیم بھی حکومت کیلئے ایک آزمائش بن چکی۔ معاشی فیصلے جذباتیت سے نہیں سوچ سمجھ کر ہونے چاہئیں۔ رخصتی سے پہلے اسد عمر یہ بتا دیتے کہ آخر پاکستان کی معیشت بہتر کیوں نہیں ہو سکتی۔ جاری معاشی بحران کا واحد حل آئی ایم ایف سے یاری ہے یار کے ہاتھوں ہی بجٹ 19-20 بنے گا۔ اگست 2018ء سے اب تک سٹاک ایکس چینج کا گراف ہچکولے کھاتا رہا، سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی ڈانواں ڈول رہا۔ روپے کی ناقدری کے باوجود برآمدات کا حجم نہ بڑھ سکا۔ ادائیگیوں کا توازن غیر متوازن ہو گیا۔ قرضے بڑھتے چلے گئے۔ افراط زر سے عام آدمی کی قوت خرید جواب دے گئی۔ یہ اسد عمر کا کیسا روڈ میپ تھا؟
غلام سرور خان نے 2018ء کے الیکشن میں چودھری نثار کو دو حلقوں سے ہرایا تھا لیکن وزارت پٹرولیم جیلی کی طرح ہلتی رہی۔ ندیم بابر نے بالآخر خان کو چت کر دیا۔ پرویز مشرف کے جگری یار اب سب سے طاقتور وفاقی وزیر ہیں وہ کم و بیش نصف وزیراعظم ہیں وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے رابطہ کار ہیں۔ فواد اور فردوس دونوں پر میڈیا تیر برسا رہا ہے۔ خزانے کے نئے رکھوالے حفیظ شیخ آئی ایم ایف سے سینہ تان کر بات کرتے ہیں یا پھر سی پیک کی ساری جزیات سے ’’آقا‘‘ کو آگاہ کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف سی پیک میں چینی سرمایہ کاری کی زیر زبر جاننا چاہتا ہے۔ یوں لگتا ہے جمہوریت ابھی آزمائشی پرواز پر ہے۔ 73, 62, 56 کے آئین جمہوری فلائٹ کو بار بارکریش لینڈنگ سے نہ روک سکے۔ اب بھی جمہوری ائر لائنز ہچکولے کھا رہی ہے۔ ممکن ہے اسے ہنگامی صورت حال میں صدارتی ائرپورٹ پر لینڈ کرنا پڑ جائے۔ جمہوریت آمریت کی کھچڑی جتنی ہمارے ہاں پکی ہے اتنی شاید کسی اور ملک میں نہیں پکی۔ ایسی ڈش دیکھنی ہو تو دور حاضر میں مصر کو دیکھ لیں۔السیسی کے ہاتھوں مرسی کا جمہوری طیارہ کریش ہوا خوش قسمتی سے پائلٹ جاں بحق ہونے سے بچ گیا۔
عمران خان اپوزیشن میں تھے تو ن لیگ دور کی ایمنسٹی کو ٹیکس دینے والوں کے منہ پر طماچہ قرار دیا تھا۔ پاکستان میں آج تک احتساب کے عمل کو کس نے اور کن طریقوں سے متنازع اور مشکوک بنایا؟ کیا مخالفوں پر چور ڈاکو لٹیرے ہونے کے القابات نئے ہیں۔ زرداری کومسٹر 10 پرسنٹ کہنے اور سڑکوں پرگھسیٹنے کا دعویٰ کرنے والے کون تھے ا ور آج اپوزیشن لیڈر بلاول بھٹو زرداری کو قومی اسمبلی میں بیٹھنے کیلئے اپنا سرکاری دفتر آفر کر چکے ہیں۔ کیا باول کی دھمکی کے بعد لانگ مارچ اور ملین مارچ کی بنیاد رکھی جا چکی ہے۔ وکٹ گرییا سنچری بنے فی الحال عوام کا مسئلہ نمبر ون مہنگائی ہے۔ ہے کوئی جو دودھ والوں پر حکمرانی کا دعویٰ کرسکے؟ سبزیوں اور پھلوں کی قیمتوں کو آگ لگی ہوئی ہے۔ کیا پولٹری والوں کو ریٹ بڑھانے کیلئے کوئی اجازت نامہ درکار ہوتا ہے؟ پرائیویٹ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں سے فیس بارے کون ہے جو سوال کر سکے۔ خدمات کے شعبے سے منسلک ان پڑھ مزدور سے لیکر ڈاکٹر وکیل ٹیچر دھوبی بال کاٹنے والا درزی من مانے پیسے وصول نہیں کرتے۔ بیوٹی پارلروں کے ریٹ دلہنیں ہی جانتی ہیں۔ ابھی گزرے بجٹ پر 100 فیصد عمل نہیں ہو پاتا کہ اگلا بجٹ سر پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ مالی سال کیلنڈر سال کی طرح یکم جنوری سے 31 دسمبر کا کرنے میں کیا حرج ہے؟ پی ٹی آئی میں اندرون خانہ سینئرز کے مابین اختلافات کامظاہر کوئی حل دکھائی نہیں د ے رہا۔ خیبر پختونخوا حکومت نے دھرنے کے بعد 28 ہزار خاصہ دار اور لیویز اہل کاروں کو پولیس میں ضم کر کے صوبے کی تاریخ بدل دی ہے۔ انضمام کے بعد تنخواہوں کا بوجھ اب صوبائی حکومت کو برداشت کرنا پڑیگا۔ 2018ء کے انتخابات میں 37 ملین ووٹروں نے حکومت بنائی۔ 97 فیصد پاکستانی مہنگائی کا شکار ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر نے سونے کے انڈے پیدا کرنا بند کر دیا ہے۔ زیر گردش نوٹوں کی تعداد 2013ء میں 1.9 کھرب سے بڑھکر 4.6 کھرب روپے ہو چکی ہے۔ گردشی قرضہ 1.6 کھرب روپے سے اوپر جا رہا ہے۔ یہ بوچھ بھی بجلی کے 23 ملین صارفین ہی کواٹھانا ہے۔ ہر صارف 70 ہزار دے گا تو قرضہ ناپید ہو گا۔ ڈومور کے تحت ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو مطالبات کی نئی فہرست تھما دی ہے۔ ملک میں صدارتی یا پارلیمانی نظام کی بحث کس نے چھیڑ دی ہے۔ آئینی ڈھانچے کئی بار بدلے گئے ملک میں تین بار آئین تشکیل دیا گیا۔ اب 1973ء کے متفق علیہ آئین کو بدلنے کی کیا ضرورت ہے۔ اخراجات بچانے ہوں تو صدارتی نظام میں صدر نمائشی نہیں اصلی اور طاقتور ہوتا ہے۔ ایوب، ضیائ، مشرف سچ سچ صدر تھے لیکن پارلیمانی نظام میں صدر اور گورنر نمائشی عہدے ہیں۔ اگر ایوان صدر اور گورنر ہائوس سیرگاہیں بنانے ہیں تو ان کے مہنگے ترین مکینوں کی کیا ضرورت اور افادیت ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024