خیر!آر پی او گوجرانوالہ طارق عباس قریشی نے بات پتے کی کہی ، وہ چارج سنبھالنے کے بعد اہم شہریوں سے ملاقات کر رہے تھے۔ ایس اے حمید بولے۔ ’’ضلع گوجرانوالہ میں تیس تھانے ہیں۔ آپ پنجاب بھر سے ہمارے تھانوں کے لئے تیس ایماندار پولیس انسپکٹر ڈھونڈ لائیں‘‘۔ آر پی او انہیں سمجھانے لگے ۔ ’’ہم پولیس والے معاشرے سے الگ تھلگ نہیں رہتے ۔ ہم بھی اتنے ہی اچھے برے ہیں جتنے معاشرے کے دوسرے طبقات۔ میں اتنے ایماندار بندے کہاں سے لائوں گا‘‘۔ بھانڈ شادی بیاہ پر پولیس کی کارکردگی کا تقابل دوسری ملکوں کی پولیس سے کرتے ہوئے بڑے مزے لے کر بتاتے ہیں کہ ہماری پولیس جرم ہونے سے پہلے ہی جرم سے باخبر ہوتی ہے ۔ ہماری پولیس اور ڈاکوئوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ پولیس اور سیاستدانوں کا رزق بھی سانجھا ہے ۔ آپ کسی ممبر اسمبلی کا نام بتائیں جو پولیس کے مالی معاملات میں حصہ دار نہ رہتا ہو۔ آپ جھٹ سے کوئی ایک آدھ نام ضرور بتا دیں گے ۔ گندے سے گندا معاشرہ بھی کسی ایک آدھ اچھے بندے سے کبھی خالی نہیں رہتا۔لیکن ہماری اخلاقی گراوٹ کا یہ عالم ہے کہ کچھ ’’سیانے‘‘ایسے پاکیزہ لوگوں کے بارے میں یہ رائے بھی رکھتے ہیں۔ ’’یہ ایماندار نہیں کمزور آدمی ہیں۔ در اصل یہ بد دیانتی ’’جوگے‘‘ نہیں ہوتے۔ چوری ، یاری بددیانتی کیلئے بڑا دل گردہ چاہئے ‘‘۔ادھرکرپشن کی قبولیت کا یہ عالم ہے کہ چوہدریوں کے گجرات میں ن لیگی باریش چیئرمین بلدیہ جعلی ڈگری کیس کے باعث عمر بھر کیلئے نا اہل قرار پائے ۔ لیکن نئے الیکشن میں پھر انہی کا نامزد امیدوار کامیاب ہواہے۔ جب ہمارے معاشرے میں’’ دھڑا ایمان ہے‘‘ والا اصول سنایا جاتا ہے تو اس اظہار میں کرپشن کی قبولیت کا اقرار بھی ہوتا ہے ۔ کرپشن کے کئی انداز ہیں۔ ن لیگی دور میں پنجاب کے مختلف شہروں کے فنڈ ز لاہور میں لگائے جار ہے تھے ۔ یہ بھی ن لیگی کرپشن کی ایک قسم تھی ۔ ان دنوں ابھی گوجرانوالہ شہر میں اوور ہیڈ برج تعمیر نہیں ہوا تھا۔ ایک خبر آئی ہے کہ اس برج کا فنڈ بھی لاہور منتقل کیا جا رہا ہے ۔ اس روز میاں شہباز شریف کا گوجرانوالہ میں سرکاری دورہ تھا۔ خیر مقدمی بینرز اور اشتہاروں کی بھرمار میں اخبارات میں اک عجب ڈھب کا اشتہار بھی شائع ہوا۔ شہری چونک اٹھے ۔ یہ ایک اپیل تھی جو گوجرانوالہ چیمبر کے سابق صدر ملک ظہیر الحق کی طرف سے کی گئی تھی ۔ اس کا متن یوں تھا۔’’معلوم ہوا ہے کہ گوجرانوالہ اوور ہیڈ برج کے فنڈز لاہور میں منتقل کر لئے گئے ہیں۔ یقینا اس فنڈ سے لاہور شہر میں کوئی اوور ہیڈ برج ہی بنایا جائیگا۔ ہماری مودبانہ درخواست ہے کہ ہمارے فنڈ سے تعمیر ہونے والے اوور ہیڈ برج کا کم از کم نام ہی گوجرانوالہ برج رکھ دیا جائے ‘‘۔ وہ آج کی طرح حکومتی بے خبری کا زمانہ نہیں تھا۔ گوجرانوالہ دورے پر روانہ ہونے سے پہلے میاں شہباز شریف یہ اشتہار دیکھ چکے تھے ۔ پھر یہ فنڈز بھی لاہور منتقل نہ ہو سکے اور گوجرانوالہ میں اوور ہیڈ برج بھی بن گیا۔ اگرچہ ایک مقامی سیاستدان کے غیر قانونی پٹرول پمپ کو بچانے کی خاطر اس کی لمبائی ضرور کم رکھنی پڑی ۔شہر آج تک اس لالچ کو بھگت رہا ہے ۔ گوجرانوالہ ایک مکمل ن لیگی شہر ہے ۔ لیکن بدلتے ہوئے ملکی حالات میں اسے بدستور ن لیگی شہر رکھنا ہمارے گورنر پنجاب کا کمال ہے ۔ میاں برادران نے ان کو گورنر ہائوس تک محدود رکھا ہوا تھا۔ اسی لئے موصوف کا ن لیگ میں دل نہ لگا اور وہ پی ٹی آئی میں چلے آئے ۔ یہ بڑے لوگ ایک سیاسی جماعت سے دوسری میں یوں آرام سے چلے جاتے ہیں جیسے بندہ ڈرائنگ روم سے کھانے والے کمرے میں داخل ہوجائے۔ اب پی ٹی آئی کی گورنر شپ میں انہیں ہر قسم کی آزادی میسر ہے ۔ ن لیگ کا مردانہ وار مقابلہ کرنے والے پی ٹی آئی کے ٹکٹ ہولڈروں کی بجائے انہوں نے شہر گوجرانوالہ کے دو اہم اداروں کی چیئرمین شپ اپنے ایک ہی خاندان کو بخش دی ہے ۔ یہی اس شہر میں پی ٹی آئی کا سانحہ ہے ۔ پچھلی حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کے باعث ہماری انڈسٹری تباہ ہو چکی ہے ۔ تمام سرمایہ ہائوسنگ کے کاروبار میں آگیا ہے ۔ کرپٹ نوکر شاہی سے مل کر ٹائون ڈویلپرز نے ہائوسنگ کے قوانین کی خوب خلاف ورزی کی ۔ بچوں کی گرائونڈز ہڑپ کر لیں۔ پارکوں کو پلاٹوں میں منتقل کرلیا۔ زندوںکوچھوڑیں۔ قبرستان نہ ہونے کے باعث مردوں تک کی حق تلفی ہوتی رہی ۔ غرض وہ سب کچھ کیا گیا جس سے ناجائز منافع میں اضافہ ممکن ہو۔ پہلے جی ڈی اے کے چیئرمین نے ان ٹائون ڈویلپرز کے خلاف مقدمات درج کروائے ۔ ان کی بیلٹنگ روکی گئی۔ ان کے دفاتر مسمار کئے گئے ۔ جی ڈی اے کے یہ چیئرمین سرور فائونڈیشن کے ڈائریکٹر بھی ہیں۔ پی ٹی آئی کے بنیادی رکن چوہدری انصر نت اس’’ چندہ مہم‘‘ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پوچھ رہے ہیں۔ یہ سوال بڑا اہم ہے کہ سرور فائونڈیشن کیلئے صرف گوجرانوالہ کے ٹائون ڈویلپرز ہی کیوں کھلے ہاتھوں چندہ دے رہے ہیں؟
وہ جو تعمیر ہونے والی تھی
لگ گئی آگ اس عمارت کو
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024