علامہ محمد اقبال کی دانش و فراصت کے نقوش صدیوں پر محیط ہیں آپ نے اپنی قوم کو عظمت رفتہ سے روشناس کرانے کے ساتھ مغربی تہذیب و تمدن کو کھنگالتے ہوئے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ۔ کمال مہارت سے اسلام اور مغربی تہذیب کا موازنہ کرکے نسل نو کو اسلام کا اعلیٰ پیغام ازبر کرایا ۔ علامہ آگے بڑھ کر وار کرتے دکھائی دیتے ہیں اہل مغرب سے فرماتے ہیں
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پر آشیانہ بنے گا نہ پائیدار ہوگا
علامہ نے مغرب کی فرعونیت پر ضرب لگاتے ہوئے اپنی قوم کا اعتماد بحال کرنے کا سامان کیا ۔ احیائے اسلام کے ثمرات کے مقابلے میں مغربی تہذیب ایک کھوکھلی ، ظاہری اور نمائشی حیثیت ثابت ہوتاہے جو جز وقتی ہے جبکہ اسلام دائمی بقا کا پیغام ہے ۔ حضرت علامہ نے مسلمانوں میں ایک ملت کے تصور کو عام کیا ان کی شاعری میں مسلم ملت کا درد نمایاں جھلکتا ہے وہ جہاد کے علمبردار تھے یقینا ان کے کلام نے دنیا کے مسلمانوں میں جہادی خصوصیات اور جذبے پروان چڑھائے جو کسی ایک علاقہ اور زمانہ تک محدود نہیں۔ جب ہم اقرار کرتے ہیں تو پاکستان کی آزادی علامہ اقبال کے تصور کا شاہکار ہے تو پاکستان کے بعد آزاد ہونے والی مشرقی وسطیٰ کی ریاستوں اور آج وسط ایشیائی ریاستوں کی آزادی میں بھی اقبال دکھائی دیتا ہے ۔ انقلاب ایران کے رہبر تسلیم کرتے ہیں کہ انقلاب میں کلام اقبال کا بڑا حصہ ہے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ پورا عالم اسلام اقبال سے متاثر ہے بلکہ تمام بے کس مظلوم مخلوق کے لئے پیغام حیات ہے ۔ علامہ نے خواتین کے حقوق پر بھی خاصی توجہ دی ۔
حضرت علامہ نے فلسفہ خودی کا جو درس مسلم قوم کو دیا آپ نے اپنی زندگی میں بھی خودی ، خود شناسی کا عملی مظاہرہ کیا ۔ حضرت مجید نظامی فرماتے تھے کہ اگر اقبال نہ ہوتے تو پاکستان نہ ہوتا اسی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہوں کہ علامہ اقبال مسلمانان ہند کی قیادت قائد اعظم کو نہ دیتے تو پاکستان نہ بنتا ۔ حضرت علامہ کا صرف ایک یہ عمل خودشناسی اور مردم شناسی کے علاوہ زمانوں کی نبض شناسی کی اعلیٰ اور واضح دلیل ہے ۔ تمام ہندوستان کہہ رہا تھا کہ مسلمانان ہند علامہ کی شاعری سے بیدار ہوئے لہذا انہیں ہی اپنا رہبر اور نجات دہندہ تصور کرتے ہیں مگر علامہ کی نگاہ بصیرت کو کسی اور کی تلاش تھی کسی رفیق درد شناس کی تمنا تھی کسی دیدہ ور کے لئے متلاشی تھے آپ نے قیادت کا ایک معیار واضح کر دیا ۔
علامہ کے اس خط نے ہی تاریخ کا دھارا موڑ ڈالا جس میں آپ قائد کو مخاطب کرکے فیصلہ سناتے ہیں مسٹر جناح! مسلم قوم کی کشتی کو آپ کے سوا کوئی منجدھار سے نہیں نکال سکتا صرف علامہ کا یہ فیصلہ قیام پاکستان کا موجب ثابت ہوا ۔ بڑا مشکل مرحلہ ہوتا ہے کہ وقت کے صاحب علم ودانش علامہ کو رہبر مانتے ہیں اور حضرت علامہ اپنی ذات کی نفی کرتے ہوئے کسی دوسرے کے ہاتھ میں فتح کا پرچم تھماتے ہیں اسی لئے آپ کو مستقبل شناس اور صدیوں آگے بصارت کا حامل رہبر مانا گیا ۔
حضرت علامہ محمد اقبال کو 1934ء میں گرم دودھ میں سویاں کھانے سے گلا بیٹھنے کی شکایت ہوئی ۔ حکیم نابینا نے سردا (پھل) علاج تجویز کیا ۔ افغان حکمران بطور تحفہ آپ کو سردا بھیجتے۔ آم کے بھی بڑے شوقین تھے مگر شوگر ہونے کے بعد خود نہ کھاتے دوستوں کو کھلا کر خوش ہوتے ۔ عشق رسول ﷺعلامہ کی نس نس میں سرایت کر چکا تھا یہی وجہ ہے کہ کلام اقبال قرآن اور صاحب قرآن کے علاوہ کچھ نہیں ۔
علامہ اقبال دعاگو ہیں کہ اگر میری شاعری میں قرآن پاک کے علاوہ کچھ اور پوشیدہ ہے تو مجھے قیامت کے روز خوار اور رسوا کیجئے ۔ اے حضورپاکﷺاپنی قدم بوسی سے محروم رکھنا ۔ ایک اور موقع پر التجا کرتے ہیں کہ اے رب !میں بے حد گناہ گار ہوں اور تیری رحمت بے حد وسیع ہے میری تمنا ہے کہ رو ز محشر میرا حساب نہ کرنا اگر یہ حساب کتاب ناگزیر ہو تو میرے آقاﷺ سے پوشیدہ رکھنا تاکہ مجھے ان کے سامنے شرمندہ نہ ہونا پڑے ۔ علامہ کی تمنا تھی کہ آپ کی عمر نبی کریم ﷺسے زیادہ نہ ہو لہذا رب رحمن و رحیم نے 9نومبر 1874ء میں پیداہونے والے اقبال نامی عاشق مصطفی کی تمنا کے عین مطابق 21اپریل 1938ء کو جہان فنا سے جہان بقا کا سفر عطا فرمایا ۔آپ کی رحلت پر پورے عالم اسلام میں کہرام مچ گیا حضرت قائداعظم بھی اپنے رفیق درینہ سے محروم ہونے پر بڑے ملعول اور آبدیدہ تھے ایک موقع پر حضرت قائداعظم نے فرمایا کہ اگر مجھے کسی سلطنت اور اقبال میں انتخاب کا کہا جائے تو میری پسند اقبال ہیں۔ حضرت اقبال کی رحلت پر سب سے پہلے طویل نظم مولانا اختر کاکوی نے تحریرکی جس کے چند اشعار یہ ہیں
اب قوم کی آنکھوں کا ستارا نہ رہا
جس سے اردو کو تھا سہارا نہ رہا
سرپیٹ کے دنیائے ادب کہتی ہے
افسوس کہ اقبال ہمارا نہ رہا
قبلہ مولانا ظفر علی خان بڑے غم و الم سے دو چار تھے آپ نے فرمایا
گھر گھر میں چرچا ہے کہ اقبال کا مرنا
اسلام کے سرپر ہے قیامت کا گزرنا
کلکتہ کابل میں بچھی ہیں صف ماتم
اس غم میں سیاہ پوش ہے بغدادو سمرنا
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024