اگر تعلیم اور صحت ترجیح ہوتے تو آج تعلیم بازاری جنسی کہلاتی نہ موت صحت سے آسان ہوتی۔ قابل احترام" چیف جسٹس" نے بجا فرمایا واقعی سرکار سے لوگ پریشان ہیں مگر اتنی سی ترمیم کے ساتھ کہ آج سے نہیں بلکہ سالہا سال سے پریشان ہیں ۔ ریاست تعلیم اور صحت کی یکساں بنیادوں پر تمام تر شہریوں کو فراہمی کی کلیدی ذمہ دار ہے مگر یہ شعبے تو عوام کے ایک خاص طبقے نے یر غمال بنا کر جواہرات کے ٹکسال بنا ڈالے ۔ ہماری استدعا ہے کہ" معزز اعلیٰ عدلیہ" نجی سکولز کے معاملہ میں "والدین" کی مشکلات کو ضرور مدنظر رکھے وہاں" نجی ہسپتالوں" کے معاملات کو بھی دیکھا جائے کہ کیسے لُوٹ مار کا بازار گرم ہے ۔
حالیہ بارشوں سے بہت نقصانات ہو گئے ۔ بارشیں ہر سال ہوتی ہیں رحمت ہیں پر ہماری بے تدبیری سے قیمتی ابر کرم سیلاب کی صورت کبھی نقصان ڈھا جاتا ہے۔ اور کبھی ندی نالوں میں جا ضائع ہوتا ہے ۔ "زمینی آفات" (ہماری قسمتوں پر قابض مافیاز) کو سہتی قوم مزید دُکھی ہوگئی ۔
اچھا فیصلہ ہے گرفتار سرکاری ملازم کو ہتھکڑی نہ لگانے کا ۔ احسن ہو گا کہ اِس پہلو کا ہر معزز شہری پر بھی ضرور اطلاق کیا جائے ۔ دباوٗ کے بغیر کام اور سزا کے خوف کی بجائے" اللہ ۔ رحمن ۔ رحیم ۔ کریم "پر یقین رکھیں تو مشکلات واقعی حل ہو جائیں گی ۔ ایک بے حد اہم نازک موقع پر "چیئرمین نیب" کا "پنجاب سول سیکرٹریٹ" کا دورہ اِن حالات میں کہ بیورو کریسی پکڑ دھکڑ کی صورتحال سے سخت متوحش حتیٰ کہ دستاویزارت پر دستخط کرنے سے گریزاں۔
عوامی خیال ہے کہ تحفظات اپنے مفادات پر زد کے حوالے سے زیادہ ہیں بہ نسبت خوف کے ۔ تقریر ۔ اعداد و شمار اور زمینی حقائق میں بہت فرق ہے۔ دستخط پر ہچکچاہٹ کیوں ؟ کِس بات کا خوف؟ کیا نہیں جانتے کہ ہر معاہدے ۔ پروگرام کا سارا دارومدار کاغذات پر ہوتا ہے۔ کاغذ ثبوت ہے اِس کے بغیر سب بے معنی ۔ سچائی وہی جو مذکور تحریر میں ہوتی ہے۔ بیورو کریسی کا اصل کام ڈلیوری ہے۔ آئین ۔ ریاست ۔ حکومت کی متعین کردہ حدود ۔شرائط کے اندر رہتے ہوئے خود پر عائد فرائض کی انجام دہی ۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ کام رشوت ۔ کرپشن سے پاک ہونا چاہیے ۔ حکم عدولی ۔ خلاف ورزی کی سزا بھی درج ہے۔ اگر ایک سرکاری اہلکار ٹھان لے کہ غلط کام کرنا ہے اور نہ ہی کِسی کو کرنے دینا ہے تو پھر رونا دھونا ختم ہو جاتا ہے۔ غلط کام ۔ غلط مشورے ۔ کمیشن ۔ ڈبل تنخواہ ۔ حکمرانوں کو "گھماوٗ پھراوٗ "والی کیفیت کہ حقائق تک پہنچ نہ پائیں ۔ یہ سب لت ۔ امراض بلاشک و شبہ افسر شاہی کے پیدا کردہ ہیں ۔قومی ہوں یا صوبائی ادارے شخصیات کی تصویروں پر نہیں چلتے۔ نیب ہو یا سرکاری ملازمین ان کا تعلق ریاست سے ہے ۔ یہ تعلق زیادہ وفاداری کا متقاضی ہے ۔ ویسے بھی آئین میں ہر اہلکار کے فرائض ۔ حقوق درج ہیں ۔ ہر جرم کی سزا موجود ہے۔ اِس ملک میں کچھ بھی غلط نہیں ۔ قوانین موجود ہیں ۔ سزائیں مذکور ہیں ۔ کمی ہے تو عمل در آمد کی۔ موجودہ حکومت کے 100"فیصد" مسائل حل ہو سکتے ہیں اگر یہ دباوٗ سے بے پرواہ ہر کر قوانین پر عمل درآمد کا فیصلہ کر لے۔جب" آپ" نے کوئی کام غلط ہی نہیں کرنا تو پھر کاہے کا ڈر ۔ جس کے چہرے کا رنگ صاف ہو وہ آئینہ زیادہ نہیں دیکھتا۔
معیشت ۔ موسم ۔ امن عامہ کِسی طرف بھی تصویر خوشی کُن نہیں ۔ سینکڑوں مرتبہ لکھا کہ معیشت وہی جو ہمارے شہروں ۔ قصبات کے گلی۔ محلوں میں مروج ہے۔ ہروہ آدمی ماہر معیشت ہے جو اپنی طے شدہ آمدنی کے مطابق روٹی سالن گھر کا انتظام چلاتا ہے ۔ نہ پہلے قرضوں سے ۔ عام آدمی کی حالت بہتر ہوئی نہ آنے والے دنوں میں سدھرے گی جب تک ہمارا قبلہ درست نہیں ہوتا ۔ طویل فقرے۔ گنجلگ گراف ہماری ضروت نہیں نہ ہمارے لا یخل مسائل حل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں دراصل ہماری" نیت" آئی سی یو میں ہے نا کہ معیشت ۔ ہم نے ذاتی طور پر اور بعذریعہ کالمز متعدد مرتبہ تجاویز دیں کہ بڑے دہیو ہیکل منصوبے خوشی آئیند ضرور ہیں مگر خوشحالی کی آخری سیڑھی پر ۔ لمحہ موجود میں پہلی ضرورت اشیائے ضروریہ کی گرانی کو روکنا ہے ۔ کتنا اچھا ہوتا کہ حکومت ہاوٗسنگ کے معاملہ میں ہمارے ٹاپ کے" پراپرٹی کنگ" کو کہتی کہ یہ لو ہر شہر میں فلاں فلاں زمین اور اِس پر مکانات بنا کر ہمارے حوالے کر دو ۔ جو جرمانہ ہم نے 7"سال "میں وصول کرنا ہے وہ اِس طرح فوری وصول ہو جاتا ۔ عام آدمی پر بوجھ دالنے کی بجائے مجرمان سے یکمشت وصولی کا فیصلہ کر لیں تو غیر ملکی قرضے کی احتیاج ختم ہو جائے ۔
کوسٹل ہائی وے پر ایک اور دلخراش سانحہ ۔ ابھی توکچھ دن پہلے والی کلنگز کا غم نہیں بھولا تھا ۔ مذمت یا رپورٹ طلب کرنے سے پہلے بھی معاملات ٹھیک ہوئے نہ اب ہونے والے ہیں ۔ روایتی طریقوں سے ہٹ کر ٹارگٹ طے کریں ۔ ٹھوک بجا کر دشمن کے اڈے ختم کریں ۔ اُن کی نر سریوں کو اُکھاڑ دیں ۔ مقامی یا غیر ملکی کِسی کو نہ چھوڑا جائے ۔ روزانہ کی بنیاد پر عوامی سماعت۔ فوراً سزائے موت ۔ یہ ہماری تمام خرابیوں ۔ فساد کا علاج ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024