اسلام میں پاک چاہینہ فرینڈشپ سنٹر میںدسواں قومی کتاب میلہ منعقد ہوا ۔صدرِ پاکستان جناب عارف علوی نے اس قومی کتاب میلہ کی افتتاحی تقریب کی صدارت کرتے ہوئے کتاب کے حوالے سے ایسی خوبصورت باتیں کیں کہ ہال میں بیٹھے لوگ صدر صاحب کی کتاب دوستی کے گرویدہ ہو گئے ۔محترم صدر ِ پاکستان نے حاضرین تقریب کو بتایا کہ کیسے بچپن میں جناب کی والدہ مرحومہ ان کے دل میں کتاب سے محبت پیدا کرنے کی کوشش کیا کرتی تھیں ۔صدر صاحب نے بتایا کہ ان کی والدہ نہ صرف انہیں کتاب کی اہمیت سے آگاہ کیا کرتی تھیں بلکہ وہ ان کے ذوق مطالعہ کے لیے انہیں اچھے لکھاریوں کی کتابیں مہیا بھی کیا کرتی تھیں۔والدہ کی محبت کا ایسا اثر ہوا کہ وہ آج ہر طرح کی مصروفیت کے بعد بھی کتاب پڑھنا کبھی نہیں بھولتے۔انہوں نے کہا کہ دنیا میں چاہے جتنی مرضی جدت آجائے ۔جتنی مرضی اپلیکیشنز آجائیںکتاب ہاتھ میں لے کے پڑھنے کا حُسن ہمیشہ برقرار رہے گا۔ صدرِمملکت جناب عارف علوی نے بتایا کہ وہ بہت جلد ایوانِ صدر میں اہل قلم دوستوں کو دعوت دیں گے جہاں انہیں قائد اعظم کے لکھے خطوط اور اس کے علاوہ بہت سا ادبی ورثہ دکھایا جائے گا ۔ڈاکٹر عارف علوی نے ایک بات بہت خوبصورت کہی جس پر ہال میں بیٹھے سبھی لوگ جھوم اٹھے ,آپ نے فرمایا کہ کتاب کی بات کرتے ہیں تو اصل بات اس علم کی کرتے ہیں جو اس کتاب کے زریعے ہم تک پہنچتا ہے ۔آج ہم نے کتاب بھی پڑھنی ہے اور اپنی علم سے محبت کا ثبوت بھی فراہم کرنا ہے ۔جس وقت صدر ِ مملکت جناب عارف علوی کتاب اور علم کی اہمیت پر بات کر رہے تھے ہال میں میرے ساتھ بیٹھے ملک کے نامور شاعر و گلوکار عدیل برکی نے مجھے کہا دیکھ لو عتیق صاحب کرسیوں پہ بیٹھے لوگوں کے لوگ نام تک بھول جاتے ہیں لیکن کتاب اور قلم سے جڑے لوگ ہمیشہ کیلئے یاد رہ جاتے ہیں ۔وفاقی وزیر تعلیم و قومی ورثہ جناب شفقت محمود نے بتایا کہ ان کے پاس آج بھی ہزاروں کتابیں ہیں اور وہ آج ہر طرح کی سہولت ہونے کے باوجود صبح خبریں ,حالات حاضرہ اور تحریریں پڑھنے جاننے کیلئے اخبار(پرنٹنگ کی شکل میں) پڑھنا پسند کرتے ہیں ۔انہیں کتاب پڑھنے کا شوق زمانہ طالب علمی سے تھا اور کالج کے دنوں میں وہ اور ان کے دوست آپس میں مقابلہ کیا کرتے تھے کہ کس کے پاس زیادہ کتابیں ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر آج ہم نے نیا اور روشن پاکستان بنانا ہے تو ہمیں اپنے بچوں کو کتاب کی اہمیت سے روشناس کرانا ہوگا ۔آج کے بچوں کیلئے کتاب پڑھنا ہمارے دور سے بہت زیادہ آساں ہوچکا ہے ۔آج بہت سی اپلیکیشنز کے زریعے گھر بیٹھے,سفر میں یا کہیں بھی بیٹھ کے بہت کچھ پڑھا جاسکتا ہے ۔کتاب میلہ کی افتتاحی تقریب کی کمپیرنگ سب کے محبوب جناب محبوب ظفر نے کی ۔جن کا ہر لفظ سننے والوں کے دلوں کو اپنے سحر میں لیے جا رہا تھا ۔ڈاکٹر انعام الحق جاوید جو اس میلے کے روح رواں ہیں انہوں نے دورانِ تقریب اپنے خطاب میں بتایا کہ پاکستان میں آج بھی ہر سال لوگ کروڑوں کتابیں خریدتے ہیں جو میرے وطن کے لوگوں کی علم دوستی سے محبت کی عکاسی ہے ۔ڈاکٹر انعام جاوید واقعی ایک بڑے انسان ہیں ۔ کتاب میلہ کو شاندار انداز میں ترتیب دے کے انہوں نے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ قلم قبیلے کے لوگ انتظامی کام بھی احسن انداز میں کر سکتے ہیں ۔ڈاکٹر انعام الحق جاوید کی ا ن کا کامیابیوں کی وجہ ان کی ذاتی شخصیت بھی ہے ۔جناب ہر کسی سے ایسے مل رہے تھے جیسے کوئی بچپن کا دوست اچانک کسی میلے میں مل گیا ہو ۔اللہ کرے میرے ملک میں اہل قلم کو وہ عزت دی جانے لگے جس کے وہ حق دار ہیں ۔ڈاکٹر یاسر اور میڈیم افشاں اور بہت سے نامعلوم ورکرز کی محنت سے میلہ کو چار چاند لگ گئے ۔افتتاحی تقریب کے بعد کتابوں کے سٹال پر جانے کا موقع ملا ۔جہاں بہت سی کتابوں کو بہت خوبصورتی سے میلہ میں شریک لوگوں کی توجہ کیلئے سجایا گیا تھا ۔میلے میں ہر قسم کی کتابیں نظر آرہی تھیں ۔لوگ اپنے ذوق اور اپنی ضرورت کے پیش ِ نظر کتابیں خرید تے چلے جارہے تھے ۔قومی کتاب میلے میں بڑوں کیساتھ ساتھ بچوں کیلئے بھی بہت کچھ تھا ۔بچوں کیلئے ایک ہال میں کتاب سے محبت کا شوق پیدا کرنے کیلئے بہت تیاری سے مختلف پروگرامز ترتیب دئیے گئے تھے۔شام کو ایک عالمی مشاعرے کا انعقاد کیا گیا ۔جس میں واقعی عالمی معیار کے شاعر موجود تھے ۔اس مشاعرے کی صدارت ملک کے نامور شاعر ,ادیب جناب افتخار عارف نے کی ۔قریب تین گھنٹے جاری رہنے والے مشاعرے میں حاضرین تقریب کو اعلی شاعری سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔یاد رہے کہ پاکستان میں یہ میلہ ان دنوں منعقد ہوا ہے جن دنوں(23 اپریل) دنیا بھر میں کتاب کا عالمی دن منایا جاتا ہے ۔میلے زندہ قوموں کی پہچان ہوتے ہیں ۔میرے ملک کے جب جب میلے سجتے ہیں لوگ اپنا دامن خوشیوں سے بھر کے گھروں کو جاتے ہیں ۔لیکن قومی کتاب میلہ ایک ایسا میلہ ہے جس میںآنے والے بہت سی دیگر خوشیوں کے ساتھ اپنے ساتھ علم (نور) لے کے لوٹ رہے تھے ۔ایسے میلے تسلسل سے ہوتے رہتے چاہیں۔ کیونکہ ایسے میلوں میں ہی دنیا بھر سے آئے اہل قلم لوگوں سے ملاقات کا موقع ملتا ہے ۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024