آپ قوم کا فخر ہو
جناب چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے قوم کو نوید دی کہ ایک سال میں پاکستان تبدیل ہو جائے گا،یقینا آج پوری قوم عدالت عالیہ کی جانب آس اور اُمید سے دیکھ رہی ہے،اس میں قوم کی اُمید پیدا ہوئی کہ کام بہتر ہو رہا ہے۔ صرف اسلام آباد میں سی ڈی اے کو دیکھیں تو بہت انقلابی اقدامات ہوئے بلکہ نصف صدی میں اگر سی ڈی اے کا قبلہ درست ہوا تو صرف عدالت عالیہ نے کیا،اس میں اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کا بہت اہم کردار ہے۔مثلاََ گذشتہ 30 سال سے قائم I-11 کی کچی آبادی ناقابل تسخیر حیثیت اختیار کر گئی بلکہ نوگو ایریا بن گیا۔پولیس اور سی ڈی اے کارکن داخل نہیں ہو سکتے تھے، یہ سیکورٹی رسک بن گئی تھی ۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم پر راتوں رات ختم ہو گئی،آج سی ڈی اے کی رٹ قائم ہو گئی۔اللہ کرے سی ڈی اے پھر قبضہ نہ کرا دے ،اس طرح اسلام آباد کے شہری Non Confirming استعمال کی وجہ سے پریشان تھے، رہائشی علاقوں کی گلی میں کمرشل ،دفاتر،اسکول اور ہسپتال شروع ہو گئے۔ساری گلی پریشان ،کوئی قانون اور ادارے کچھ نہیں کر سکتے تھے۔تمام قابل ذکر سیاسی پارٹیوں کے دفاتر رہائشی علاقوں میں کھل گئے۔گیسٹ ہاﺅس ،ہوٹل،ریسٹورنٹ اور بیکری غرض کہ میسز سینٹر تک کھل گئے۔کچھ مالکان کی جائیداد کی چاندی ہو گئی،کرایہ بے شمار ،ایڈوانس بے حساب ،آخر سپریم کورٹ نے وہ کام کیا جس کا تصور شائد سی ڈی اے کبھی کر نہ سکا۔پچاس سال میں پہلی بار ریکارڈ مکانات سیل ہوئے،Non Confirming Use پر لوگوں کی جائیدادوں کے قبضے ختم ہوئے۔آج رہائشی علاقوں سے کمرشل ادارے ختم ہونے سے اسلام آباد میں کرائے بھی کم ہو گئے۔ماحولیات کے حوالے سے نیشنل پارک ایریا سی ڈی اے کے زون III- سے تمام کریشز ختم کرا دئے،تعمیرات اور عمارتی میٹریل پر پابندی لگا دی بلکہ ٹرانسفر/ انتقال پر پابندی لگ گئی،بغیر اجازت یا پھر قانون والے کمرشل مالز کا بھی نوٹس لیا گیا۔ بنی گالہ میں تعمیرات پر پابندی اور قانون سازی کی ہدایت کے علاوہ وفاقی وزیر کو ہدایت کی کہ راول ڈیم کے قریب کمپ آفس قائم کریں اور راول ڈیم میں آلودگی کا سبب بننے والے تمام عوامل کو ختم کریں۔حالانکہ کام حکومت اور سی ڈی اے کے تھے کر عدالت عالیہ رہی ہے۔اس پر یقینا سپریم کورٹ اور چیف جسٹس مبارکباد کے مستحق ہیں، سی ڈی اے اسلام آباد میں ایک امتیازی سلوک روا رکھا ہوا ہے۔ایک جانب 44 کچی آبادیاں ریاست کی زمین پر غیر قانونی بن گئی۔تین تین منزلہ بلڈنگ بن گئیں،کوئی بلڈنگ کوڈ کے مطابق نہیں ،نقشے نہیں پر بجلی،پانی اور گیس لگ گئی،کمرشل دوکانیں اور پلازے بن گئے۔جس میں کم و بیش 2 لاکھ افراد رہائش پذیر ہیں مگر قوانین کا عمل درآمد کوئی نہیں،اس کو قانون کے دائر ہ اختیار میں لانے کی ذمہ داری کس کی ہے؟۔یہاں بلڈنگ کوڈ کون نافذ کرے گا؟۔بلڈنگ بائی لاز کیا ہوں گے،کون اور کس سے Complition سرٹیفیکیٹ لے گا۔اب ان کچی آبادیوں کے سامنے یا پھر قریب تر کمرشل اور رہائشی عمارتیں یہ اس وقت تعمیر ہوئیں جب اسلام آباد میں پچاس سال قبل کوئی آتا نہیں تھا۔اخباری اشتہارات اور دیگر آسان اقساط کی ترغیب پر لوگوں نے سرمایہ کاری کی مگر کمرشل جائیداد 99 سالہ لیز پر تھیں۔یعنی 33 سال قبل تجدید لیز ،اب آئے روز نئے قوانین بنتے ہیں۔سارے سرکاری کواٹر وںمیں اضافی کمرے تعمیر کر لئے۔44 کچی آبادیوں کے علاوہ تقریباََ 20 ہزار کنال سی ڈی اے کی زمین نا جائز قابضین کے قبضے میں ہے۔جس میں G-12 اور F-12 کا سارا علاقہ شامل ہے۔مگر سی ڈی اے NOC نہیں دیتا کہ اپنی بلڈنگ کو پچاس سال پرانی پوزیشن پر لائیں۔پچاس سال قبل تمام عمارتیں 60 فیصد کورڈ ایریا پر بنتی تھیں۔آج 90 فیصد پر تعمیر ہوتیں ہیں۔صرف لیز کی تجدید کریں جو کہ ہر کمرشل مالک کا بنیادی حق ہے اور قانونی حق ہے۔اگر لیزتجدید ہوں تو اربوں روپے کا ریونیو ادارے کو ملے گا مگرشائد ملازمین کی جیب میں نہیں آئے گا روزانہ لوگوں کو تنگ کرتے ہیں۔قوانین آنے والے وقت کے مطابق بہتر سے بہتر ہوتے ہیں۔پچاس سال قبل تعمیر ہونے والی عمارت اب بوسیدہ ہو گئی دوبار تعمیر کی اجازت ہونی چاہئے۔ سی ڈی اے ایک ترقیاتی ادارہ ہے لوگوں اس پر اعتماد ہونا چاہئے۔عمارتیں،پلازے ،مکان،فارم ہاﺅس ،ہاﺅسنگ سوسائٹیوں ،شادی ہال،سی این جی اسٹیشن اور ہائی رائیز بلڈنگ بن جاتی ہیں،مگر قوانین بعد میں مرتب ہوتے ہیں۔پچاس سال قبل جو کمرشل کلاس تھری سینٹر سی ڈی اے نے خود تعمیر کر کے دیے اس کا کورڈ ایریا پلاٹ کا صرف 60 فیصد تھا۔آج مالکان کمرشل کا کورڈ ایریا 90 فیصد ہو گیا۔بلیو ایریا میں صرف گراﺅنڈ + 4 منزلہ کی اجازت تھی۔آج 37 منزلہ بلڈنگ بن رہی ہیں۔بڑے مراکز میں صرف ایک اضافی منزل بنتی تھی،آج دو بن رہی ہیں۔ٹی سٹال پر پلازہ بن گیا،سینما کے پلاٹ پر دوکانیں اور ہوٹل بن گئے۔انڈسٹری کے پلاٹ پر شادی ہال،شوروم بن گئے۔I&T سینٹر میں سروس اسٹیشن ،ورکشاپ ،ڈینٹر اور پینٹرز آ گئے، کباڑ خانے کھل گئے۔ ڈے کیئر سینٹر کمرشل ہو گئے۔فارم ہاﺅس ،شادی ہال بن گئے، نرسریوں کے پلاٹوں پر گھر بن گئے۔سبزی منڈی،مٹن اور بیف کے نام پر کم قیمت پلاٹوں پر پلازے اور ہوٹل بن گئے۔سرکاری کواٹروں میں اضافی کمرے بن کر کرائے پر چڑھا دیے،سرکاری زمینوں پر قائم کچی آبادیوں اور سرکاری کواٹروں کو مالکانہ حقوق دینے کی بات ہو رہی ہے۔سیاسی جماعتوں کے منشور میں لکھا گیا کہ مالکانہ حقوق دیں گے مگر پچاس سال قبل جائیداد کے خریداروں کو لیز کی تجدید Complition Certificate کے بغیر نہ ہو گی،کیسا انصاف اور دستور ہے اس اسلام آباد کا ۔صرف حکمرانوں کے لئے سب کچھ جائز یا پھر صرف غیر قانونی کام کریں۔آج سی ڈی اے کی لیز والی جائیداد رجسٹری کے ذریعے سی ڈی اے سے باہر ٹرانسفر ہو رہی ہے،لوگ خریدو فروخت کر رہے ہیں۔سوال صرف اتنا ہے کہ سی ڈی اے کیا کر رہا ہے؟،2سال سے عوامی نمائندوں کا قانون موجود ہے۔لوکل باڈیز بن گئی،پچاس یونین کونسل قائم ہوئیں،میئر آئے اضافی چارج چیئر مین سی ڈی اے کا بھی مل گیامگر کچھ نہ ہوا۔ ایم این اے،کونسلر اور چیئر مین کو اپنی کامیابی کے لئے ووٹ چاہئے۔E-7 کے 20 کروڑ کے گھر میں رہنے والے کا ووٹ بھی اسی قیمت پر ہے اور کچی آبادی کا مکین سرکاری زمین پر گھر میں رہنے والے کے ووٹ بھی اتنے اہم ہیں۔جناب چیف جسٹس آف پاکستان سے گذارش ہے کہ سی ڈی اے میں حقیقی معنوں میں ون ونڈوکا کام ہونا چاہئے۔لیز کی تجدید ہونی چاہئے۔Non Confirming پر کروڑوں کی جائیدادیں سیل ہوتیں ہیں تو سرکاری زمینوں پر ناجائز قابضین کو بھی کسی قانون اور قاعدے میں لانا چاہئے۔
Well Done Cheif Justice of Supreme Court.