کے پی کے میں سیاست اور گورنس
عمران خان نے PTI کے 20 ممبران صوبائی اسمبلی کو پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا ۔ الزام ہے کہ انہوں نے سینیٹ کے الیکشن میں اپنے ووٹ بیچ دئیے اور اپنی پارٹی کے بجائے دوسری پارٹی کے امیدواروں کوو وٹ دئیے۔ دو سے چار کروڑ تک کا الزام ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی میڈیا پر ہرطرف سے عمران کی اصول پسندی کو خوب سراہا گیا۔ کہا گیا الیکشن کے اتنے قریب اصولوں کی خاطر ، کرپشن کے خلاف اپنے موقف پر قائم رہنے کے لئے بہت بڑا رسک لیا۔ نہ صرف کے پی کے کی حکومت کو خطرہ میں ڈال دیا بلکہ الیکشن میں بھی اپنی پوزیشن کو خطرہ میں ڈال دیا۔ چند گھنٹے خوب واہ واہ ہوئی لیکن اگلے روز تبصرہ نگاروں اور کالم نگاروں نے اپنے ذہن کے دریچے کھولنے شروع کئے اور ادِھر اُدھر سے خبریں بھی سنیں اور کچھ سوچ بچار بھی کی۔ سب سے پہلے سوال یہ اٹھا کہ عمران خان جو پنجاب میں کرپشن میں لتھڑے ہوئے Electables کو اپنی پارٹی میں جمع کررہے ہیں۔ ایسے لو گ بھی جن پر کروڑوں نہیں اربوں کی کرپشن کے الزامات لگائے جاتے ہیں مشرف بہ انصاف کئے جارہے ہیں۔ ایسے میں ان بیچاروں کو جن پر صرف دو سے چار کروڑ لینے کا الزام ہے پارٹی سے نکالا جارہا ہے۔ سوال یہ بھی اٹھایا جارہا ہے کہ پنجاب میں صرف30 ممبران کے ہوتے ہوئے جبکہ 42درکار تھے عمران نے چوہدری سرور کو ٹکٹ دیا تو کیا خود ووٹ خریدنے کا نہیں کہا۔ چوہدری سرور کے 14 رشتہ دار ایم پی اے تو پنجاب اسمبلی میں موجود نہ تھے جو انہوں نے 44 ووٹ لے لئے وہ یقینا دوسری پارٹی سے خریدے گئے ہونگے۔ کیا ووٹ خریدنا جرم نہیں صرف بیچنا جرم ہے۔ سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ اگرعمران خان نے یہ معلوم کرلیا کہ کس کس نے ووٹ خریدے نکے نام بھی بتادیتے تو بہتر تھا۔ سوال یہ بھی اٹھایا جارہا ہے کہ عمران خان نے جو پی ٹی آئی کے 13 سینیٹر کے ووٹ پیپلز پارٹی کو ڈلوادئیے تو کیا سودا ہوا ۔اگر ایک ایم پی اے کا ووٹ2-4 کروڑ کا ہے تو سینیٹر کے ووٹ کی قیمت کیا ہوگی؟ سراج الحق نے گواہی دی ہے کہ کوئی سودے بازی نہیں ہوئی انہوں نے کہا ہے کہ عمران خان نے بتایا کہ اوپر والوں نے ایسا کرنے کیلئے کہا ہے۔ جب یہ بات سمجھ آجائے کہ عمران خان نے یہ کسی اصولی موقف کے تحت کرپشن کے خلاف ایکشن نہیں لیا تو پھر ایسا کیوں کیا۔ اندرکی خبریںیہ ہیں کہ ان ممبران صوبائی اسمبلی کے بہت عرصے سے وزیراعلیٰ پرویز خٹک سے مختلف معاملات پر اختلافات چل رہے تھے ۔ان ممبران نے فارورڈ بلاک بنالیا تھا اور وزیراعلیٰ کو دھمکی دی تھی کہ ہم بجٹ پاس نہ ہونے دینگے۔ اسی لئے عمران خا ن اور پرویز خٹک نے کے پی کے کا اگلا بجٹ پیش نہ کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ کہا یہ جارہا تھا کہ اگلی اسمبلی کو یہ بجٹ پیش کرنے کا موقع دیا جائے گا اگر بجٹ پیش ہوتا اور یہ منحرف ممبران بجٹ پاس نہ ہونے دیتے تو حکومت گرجاتی اور بڑی خفت کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس صورت حال سے بچنے کیلئے مجبوراً یہ قدم اٹھانا پڑا۔ عمران خان نے پریس کانفرنس میں کہا کہ اس قدم کا ہمیں سیاسی نقصان ہوگا۔ لیکن انہوں نے یہ قدم بڑے نقصان سے بچنے کیلئے اٹھایا ہے۔ اس قدم سے ایم پی اے بدنام ہوگئے ان کو کسی دوسری پارٹی سے ٹکٹ ملنا بھی مشکل ہوگا اور شاید یہ بھی جنوبی پنجاب کی طرح آزاد ہوجائیں یا بلوچستان کی طرح نئی پارٹی بنائیں۔ عمران خان کے اس قدم سے ایک بات ثابت ہوگئی کہ پانچ سال تک کے پی کے حکومت چلانے والے لوگوں میں بڑے کرپٹ لوگ شامل تھے۔جن لوگوں نے2-4 کروڑ لینے کا موقع بھی نہ چھوڑا وہ پانچ سال تک ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہے ہونگے بلکہ جہاں موقع لگتا ہوگا مال بناتے ہونگے۔ انہی معاملات میں انکے وزیر اعلیٰ سے اختلافات پیدا ہوئے۔وزیراعلیٰ کا اپنا کرداربھی اس معاملے میں شفاف نہیں ہے۔ کے پی کے میں نیب کے سربراہ مستعفی ہوکر چلے گئے تھے اور جاتے جاتے بتاگئے تھے کہ جب وزیر اعلیٰ اور کچھ وزیروں کے خلاف مقدمات تیار ہورہے تھے تو انکو مستعفی ہونے پر مجبور کیا گیا۔
ایک طرف کے پی کے میں عمران خان اعلان کررہے ہیں کہ انکی حکومت میں بڑی تعداد میں کرپٹ ایم پی اے موجود تھے دوسری طرف چیف جسٹس صاحب کے پی کے حکومت کی کارکردگی کا کچا چٹھا کھول گئے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب نے سندھ اور پنجاب کے بعد اب پشاور میں بھی پانی، صحت اور تعلیم کے معاملات اٹھائے۔ سیکرٹری تعلیم سے پوچھا کتنے بچے سکول نہیں جاتے ۔جواب ملا سروے کرایا ہے 18 لاکھ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ پوچھا پانچ سال میں کتنے نئے سکول بنائے۔ جواب آیا بنائے ہیں لیکن آبادی زیادہ بڑھ گئی۔ عمران خان صاحب فرماتے ہیں سرکاری سکول اتنے بہتر ہوگئے ہیں کہ اس سال پرائیویٹ سکولوں سے ڈیڑھ لاکھ بچہ سرکاری سکولوں میں آگیا۔ سیکرٹری تعلیم کہتے ہیں 18 لاکھ بچوں کے لئے جگہ نہیں اور خان صاحب پرائیویٹ سکولوں سے بھی سرکاری سکولوں میں پہنچا رہے ہیں۔ سیکرٹری تعلیم کو یاد نہ تھا کہ کتنے سکول نئے بنے لیکن ریکارڈ بتاتا ہے پورے صوبے میں صرف13 پرائمری سکول نئے بنے ہیں۔ چیف جسٹس صاحب نے وزیر اعلیٰ سے پوچھا کہ کتنے نئے ہسپتال بنائے تو فرمایا نئے نہیں بنائے پرانے بہت بُرے حال میں تھے انکو ٹھیک کیا ہے۔ سیکرٹری تعلیم کہتے ہیں آبادی بہت بڑھ گئی وزیراعلیٰ کو معلوم نہیں آبادی بڑھنے سے مزید ہسپتالوں کی بھی ضرورتی ہوتی ہے ۔ پوچھا گیا صوبے میں عطائی ڈاکٹر کتنے ہیں بتایاگیا 15 ہزار۔ انکے خلاف کوئی ایکشن ہوا ہے۔ بتایا گیا 122 کے خلاف ایکشن ہوا ہے۔ چیف جسٹس صاحب پشاور کا بڑا لیڈی ریڈنگ ہسپتال دیکھنے چلے گئے۔ وزیراعلیٰ کہتے ہیں ہسپتال بہت بہتر ہوگئے ہیں۔ چیف جسٹس نے بہت مایوسی کا اظہار کیا لوگوں نے شکایتوں کے انبار لگادئیے۔ گندے پانی کی نکاسی کا پوچھا گیا تو بتایا گیا 1100 جگہوں پر نہروں اور دریائوں میں ڈال دیا جاتا ہے گندے پانی کا کوئی Treatment Plantنہیں ہے۔ پینے کے پانی کو ٹیسٹ کرنے کا کیا انتظام ہے۔ معلوم ہوا کوئی لیبارٹری اور سازوسامان اس کام کیلئے موجود نہیں۔ پنجاب سے پانی کے نمونے ٹیسٹ کروانے کا حکم دیا گیا۔ مثالی پولیس کے سربراہ سے پوچھا کہ کتنے اہلکار غیر ضروری طور پر مختلف افراد کی سیکورٹی پر مامور ہیں ۔ بتایا گیا کہ 3 ہزار۔ حکم دیا گیا آج ہی انکو واپس بلا لو۔ اگلے دن آئی جی پولیس نے رپورٹ دی کہ 1769 افراد سے سیکورٹی واپس بلالی ہے۔ چیف جسٹس نے اس کام کی تعریف کی اور شاباش دی ۔ عمران خان بغلیں بجارہے ہیں کہ چیف جسٹس نے پولیس کی تعریف کی ہے۔ چیف جسٹس نے ایک ہی دن میں1769 افراد کی سیکورٹی واپس لینے کی تعریف کی ہے۔ عمران خان یہ تو بتائیں انکو سیکورٹی کس نے دے رکھی تھی اور وہ کون لوگ تھے۔
عمران خان کو سوچنا پڑے گا کہ وہ اس کارکردگی کے ساتھ اور کرپشن میں لتھڑے ہوئے Electables کے ساتھ اگلے الیکشن میں جائیں تو نتیجہ کیا ہوگا۔ کیا پھر دھاندلی اور دھرنا ہوگا۔ اب تو اوپر والے بھی آپ سے مایوس ہوگئے ہیں اور زرداری کو اگلی سیٹ پر لے آئے ہیں۔