مزدوروں کی کون سنے گا (2 )
کیونکہ آنے والے کل میں بھی یہی ظلم وجبر کا طبقہ ہی ہماری قسمت کے فیصلے کرتا رہے گا ۔ہمیں تو یہ انتظار رہے گا کہ اگلا اقتدار میں آنے والا کون اور کیسا ہو گا۔آخری گزارش عرض کرتا ہوں کہ پوری دنیا میں انصاف ناپید ہے جھوٹی طفل تسلیوں اور جھوٹے اعلانات و دعووں کے علاوہ کہیں غریب کی شنوائی نہیں ہر جگہ ہر ملک ہر خطے میںوسائل کا دھارا غریب عوام کی طرف اور مسائل کا دھاراصرف اور صرف محتاج و بے بس مزدوروں کی طرف نہ عزت نفس ،نہ دو وقت کی روٹی کا بندوبست،نہ بچوں کی تعلیم کا کوئی آسرا ،نہ علاج کی کوئی سہولت بس ایک ترستی زندگی،ایک لاچار زندگی اور کام کا اتنا بوجھ کہ اس کی تھکن کچھ اور سوچنے کی مہلت ہی نہیں دیتی ۔دنیا کو نہ کمونیزم کوئی راحت دی سکا اور نہ مکارانہ سرمایدارانہ نظام کسی قسم کی آسودگی دے سکا اس لیئے ایک ہی نظام ہے جو اگر نافذ ہو سکے جس کی دور دور کوئی امید نظر نہیں آتی اس لیے کہ آج کفر پورے زور و شور سے عالم انسانیت کو ظلم کے شکنجے میں جکڑ چکا ہے اور بدقسمتی کی انتہا ہے مسلم اَمہ اور خاص طور پر اس کے حکمران کفر کی ریشہ دوانیوںاور مکرو فریب کا ایسا شکار ہو چکے ہیں کہ ساری مسلم اَمہ ان کی چندا چوک کی بدمعاشیوں کا شکا ہو چکی ہے۔کوئی غیر شرعی کام نہیں جو ہم میں سرائیت نہ کر گیا ہواور مسلمان ہونے کے ناطے ہی ہمارے لیئے ہر طرح کے مسائل کی وجہ ہے جسے سمجھنے سے نہ صرف قاصر ہیں بلکہ سمجھتے ہوئے بھی سمجھنا نہیں چاہتے البتہ مزدور اگر سمجھنا چاہے کہ اسلامی حکومت اور غیر اسلامی حکومت میں کیا فرق ہو تا ہے تو اسوئہ حضرت عمر بن عبدلاعزیزسے جان سکتا ہے انہوں نے عراق کے امیر عبدالحمید بن عبدالرحمان کو لکھا کہ لوگوں کو جو وظیفے دیئے جاتے ہیں وہ جلد ادا کر دیئے جائیں انہوں نے ادائیگی کے بعد اطلاع کی کہ ادا کر دیئے ہیںاور یہ بھی کہ بیت المال میں رقم موجود ہے ۔آپ نے دابارہ لکھا کہ ان مقروضوں کو ڈھونڈ کر ان کے قرض ادا کر دو جو فضول خرچی،بے کاراور بے مقصد کاموں میں مقروض نہ ہوئے ہوں۔انہوں نے قرضوں کی ادائیگی کے بعد پھر اطلاع دی کہ اب بھی خزانے میں رقم موجود ہے تو حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حکم کیا ایسے جوانوں کی چادیاں کرا دو جو مالی مشکلات کی وجہ سے شادی نہ کر سکے ہوں یہ حکم بجا لانے کے بعد پھراطلاع کی خزانے میں رقم ہے تو پھر حکم آیا کہ ان غیر مسلموں جن پر ٹیکس عائد ہیںاور وہ مالی کمزوری کی وجہ سے زمین سے پورا فائدہ نہیں اٹھا سکتے ایسے تمام لوگوں کو قرض دو تاکہ وہ کھیتی باڑی کے لیئے سامان درست یا نیا خرید سکیں اور یہ بھی کہ ان سے ایک یا دو سال ٹیکس بھی نہ لیا جائے یہ ہے اسلامی حکومت میں حکمرانوں کا طرز عمل اس بات کو ہم تسلیم کرتے ہیں کہ نہیں اس میں ہماری نجات ہے اور اسی میں ہماری اولادوںکی اس ملک میں زندگی بن سکتی ہے اگر یہ نا ہو تو یہی غلامی ہمارا مقدر ہے ۔جو آپ کی سمجھ میں آے کر گزرئیے نہیں تو اس تنخواہ پر گزارہ تو ہو ہی رہا ہے ۔ (ختم شد)