علامہ اقبال مسلمانان برصغیر کے عظیم محسن، آزادی کی تڑپ پیدا کی، خودی کا درس دیا: مقررین
لاہور (خصوصی رپورٹر) علامہ محمد اقبالؒ مسلمانان برصغیر کے ایک عظیم محسن ہیں، انہوں نے مسلمانوں کو غیر اسلامی نظریات سے مرعوب نہ ہونے اور اپنے دین‘ ثقافت اور اقدار سے گہری وابستگی کے ذریعے نشأۃ ثانیہ کی راہ دکھائی۔ علامہ محمد اقبالؒ نے مسلمانان برصغیر میں آزادی کی تڑپ پیدا کی اور انہیں خودی کا درس دیا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی نوجوانوں کو فکرِ اقبالؒ سے روشناس کرایا جائے جس کی بنیاد قرآنی تعلیمات اور اسوۂ حسنہ پر ہے۔ موجودہ حالات سے نبرد آزما ہونے کے ضمن میں افکارِ اقبالؒ ہماری موثر رہنمائی کرتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے ایوان کارکنان تحریک پاکستان میں حکیم الامت، مفکر پاکستان حضرت علامہ محمد اقبالؒ کی 80ویں برسی کے موقع پر خصوصی تقریب کے دوران کیا۔ تقریب کا اہتمام نظریۂ پاکستان ٹرسٹ نے تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ کے اشتراک سے کیا تھا صدارت وفاقی شرعی عدالت کے سابق چیف جسٹس و چیئرمین تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ میاں محبوب احمد نے کی ۔ اس موقع پر علامہ محمد اقبالؒ کی بہو جسٹس(ر) ناصرہ جاوید اقبال، سینیٹر پروفیسر ساجد میر، ولید اقبال ایڈووکیٹ، صاحبزادہ سلطان احمد علی، پروفیسر ڈاکٹر سید اکرم اکرام شاہ، پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر، طاہر رضا بخاری، بیگم مہناز رفیع، بیگم خالدہ جمیل، انجینئر محمد طفیل ملک، محمد یٰسین وٹو، میاں ابراہیم طاہر اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے خواتین و حضرات بڑی تعداد میں موجود تھے۔ تحریک پاکستان کے کارکن‘ چیئرمین نظریۂ پاکستان ٹرسٹ محمد رفیق تارڑ نے شرکاء کے نام پیغام میں کہا کہ یہ مملکت خداداد فکر اقبالؒ کا ثمر ہے۔ علامہ محمد اقبالؒ نہ صرف مسلمانان ہند بلکہ پورے عالم اسلام کے ایک جلیل القدر مفکر تھے۔ ان کا شمار ان اہل فکر و نظر میں ہوتا ہے جن کے افکار کی روشنی سے ہماری آئندہ نسلیں بھی اکتساب فیض کریں گی۔ علامہ محمد اقبالؒ کے فلسفے کا نچوڑ جہد مسلسل ہے۔ ان کی ولولہ انگیز شاعری نے مسلمانانِ ہند کے تنِ مردہ میں ایک نئی روح پھونک دی تھی اور انہیں حریت فکر سے آشنا کردیا تھا۔ وہ محض تصور پاکستان ہی کے خالق نہ تھے بلکہ انہوں نے اس تصور کو عملی شکل عطا کرنے کے لیے ایک میر کارواں کی بھی نشاندہی فرمادی تھی۔ چیف جسٹس(ر) میاں محبوب احمد نے کہا علامہ محمد اقبالؒ کے الگ وطن کے تصور کو قائداعظم محمد علی جناحؒ نے عملی تعبیر دی۔علامہ محمد اقبالؒ راست گو شاعر تھے اور دین اسلام کا ان پر غلبہ تھا۔وہ امت مسلمہ کو بے راہ روی کی طرف جاتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے تھے۔ 1940ء میں قرارداد پاکستان کی منظوری کے ذریعے جس الگ وطن کا مطالبہ کیا گیا اس کا تصور علامہ اقبالؒ نے1930ء میں پیش کر دیا تھا۔انہوں نے کہا پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اس ملک کی تعمیر وترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ جسٹس(ر) ناصرہ جاوید اقبال نے کہا کہ علامہ محمد اقبالؒ نے نوجوان نسل کو جہد مسلسل کا پیغام دیا ۔وہ پرعزم انسان تھے اور انہیں یقین تھا کہ مسلمانان برصغیر کو آزادی کی منزل ضرور ملے گی ۔ انہوں نے کہا جمہوری نظام ہی ملک کو آگے لیکر چل سکتا ہے، علامہ محمد اقبالؒ کاکہنا تھا کہ قوم ایسے افراد کو آگے لائے جو ’’نگہ بلند، سخن دلنواز ، جاں پرسوز‘‘ کی صفات رکھتے ہوں ۔ سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے کہا علامہ محمد اقبالؒ صحیح معنوں میں آفاقی مفکر اور شاعر ہیں۔ آفاقی شاعر کی باتیں ہر زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ علامہ محمد اقبالؒ کا پیغام ابدی ہے اور آج بھی ہماری رہنمائی کر رہا ہے۔ مجموعی طور پر آج امت مسلمہ زوال کا شکار اور پستی کے دور سے گزر رہی ہے۔قوموں کی تاریخ میں عروج و زوال آتے رہتے ہیں ، علامہ محمد اقبالؒ کے دور میں بھی مسلمان غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ علامہ محمد اقبالؒ نے ان حالات کا جائزہ لیا اور اپنی نظم و نثر میں ملت اسلامیہ کے زوال کے اسباب کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی ،اور زوال سے ابھرنے کا ایک واضح طریق کار بھی متعین کیا ۔صاحبزادہ سلطان احمد علی نے کہا کہ علامہ محمد اقبالؒ کا ہر شعر نوجوانوں کیلئے ہے اور انہوں نے نوجوانوں کو شاہین سے تشبیہہ دی ہے۔ نئی نسل کو اس بات پر فخر کرنا چاہئے کہ اقبالؒ نے انہیں شاہین کہہ کر پکارا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان عاشقان رسولؐ کا ملک ہے، قائداعظمؒ اور علامہ محمد اقبالؒ پر یقین رکھنے والوں کا ملک ہے ، لیکن بعض لوگ ہم سے یہ اعزاز چھیننا چاہتے ہیں۔ یہ مٹھی بھر لوگ پاکستان میں انتشار، شر، نسلی امتیاز اور صوبائیت پھیلانا چاہتے ہیں۔مگرہم ان عناصر کی مکروہ سازشوں کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ ولید اقبال ایڈووکیٹ نے کہا 80برس قبل آج ہی کے دن علامہ محمد اقبالؒ اس دار فانی سے کوچ کر گئے۔ علامہ اقبالؒ نے مسلمانان برصغیر میں آزادی کی تڑپ پیدا کی۔ علامہ محمد اقبالؒ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے مابین ہونیوالی خط وکتابت پڑھ کر اندازہ ہو تا ہے کہ یہ حقیقت میں باہمی سیاسی مشاورت تھی ۔ 1936-37ء میں پاکستان کے فکری اور عملی بانیوں کے درمیان ہونیوالی یہ خط و کتابت پڑھ کر پتہ چلتا ہے کہ ان دونوں رہنمائوں کے مابین فکری وسیاسی ہم آہنگی تھی۔سید اکرم اکرام شاہ نے کہا کہ علامہ محمد اقبالؒ عظیم فلسفی شاعر تھے۔ علامہ محمد اقبالؒ لامتناہی شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے پاکستان کا تصور پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مسلمان اور ہندو کبھی اکٹھے نہیں رہ سکتے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے کہاکہ قومیں اپنے تاریخی ورثے اور تہذیب کی بنا پر زندہ رہتی ہیں۔ علامہ محمد اقبالؒ نے ہمیں اپنی تاریخ اور تہذیب پر فخر کرنا سکھایا۔ اپنی روایات پر قائم رہتے ہوئے جدید علوم کا حصول ضروری ہے ۔ڈاکٹر طاہر رضا بخاری نے کہا کہ علامہ محمد اقبالؒ کی سوچ اور فکر کا مرکز ومحور قرآن اور صاحب قرآن تھے۔ ان کی شاعری راہِ عمل کا تعین اور حرکت کا پیغام دیتی ہے۔ وہ ایسے تصوف کے قائل تھے جو مردہ جسموں میں نئی روح پھونک دے۔ انہوں نے داتا گنج بخشؒ اور میاں شیر محمد شرقپوریؒ سے اکتساب فیض کیا۔بیگم خالدہ جمیل نے کہا کہ علامہ محمد اقبالؒ نے نوجوانوںکو اپنی توجہ کا مرکز بنایا کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ کوئی بھی تحریک نوجوانوں کی شرکت اور جوش و جذبے کے بغیر کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتی۔ شاہد رشید نے کہا کہ علامہ محمد اقبالؒ کے افکارونظریات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ افکار اقبالؒ نے نوجوانوں کو متحرک کیا اورآج ہم ان کے افکار وخیالات پر عمل پیرا ہو کرپاکستان کو خوشحال اور عظیم تر قوم بناسکتے ہیں۔