سپریم کورٹ نے 29برس سے قید ذہنی مریض خاتون کی پھانسی روک دی
لاہور (نوائے وقت نیوز) سپریم کورٹ نے ذہنی معذور خاتون کی سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا، ذہنی حالت کا جائزہ لینے کیلئے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کا حکم دیدیا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا کسی ذہنی مریض کی سزائے موت پر عملدرآمد کیا جا سکتا ہے؟ میری عقل اور سمجھ میں نہیں آتا کہ کسی ذہنی مریض اور معذور کو پھانسی پر لٹکایا جائے۔ مینٹل ہسپتال کا دورہ کیا تو پتہ چلا تھا بچیوں کو جنسی ہراساں کیا جاتا ہے، مینٹل ہسپتال علاج گاہ نہیں جیل ہے۔ بعد ازاں عدالت نے ذہنی طور پر معذور خاتون کی پھانسی روکتے ہوئے معاملہ 5 رکنی لارجر بنچ کے پاس بھجوا دیا۔ عدالت نے خاتون کا علاج پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ سے کرانے کا حکم دیا۔ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ میں ڈائریکٹر کی خالی اسامی پر تعیناتی کے حوالے سے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی دی۔ 5 رکنی لارجر بنچ اسلام آباد میں سماعت کرے گا۔ عدالتی معاون نے بتایا کہ کنیز فاطمہ 1989ء میں قتل کے مقدمہ میں ملوث ہوئی تھیں۔ کنیز فاطمہ کو 2000ء میں سزائے موت پر عملدرآمد کا حکم دیا گیا تھا جبکہ سزائے موت کی قیدی کی سزا کیخلاف اپیلوں کے تمام قانونی راستے ختم ہو چکے ہیں۔ چیف جسٹس نے نفسیاتی ہسپتال ڈاکٹر طاہر منیر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کافی عرصہ پہلے جب نفسیاتی ہسپتال کا دورہ کیا تھا تب پتہ چلا تھا کہ وہاں بچیوں کو جنسی ہراساں کیا جاتا ہے۔ اب آپ تیار رہیں میں کسی بھی وقت نفسیاتی ہسپتال کا دورہ کر سکتا ہوں۔ واضح رہے کہ کنیز فاطمہ کا کیس اس وقت سامنے آیا تھا جب اس کی معافی کے لئے ان کے والد کے قلم سے لکھی گئی درخواست حالیہ دنوں میں میڈیا میں شائع کی گئی تھی۔ 2016ء میں لکھے گئے خط میں صدر ممنون حسین سے رحم کی اپیل کی گئی تھی اور بتایا گیا تھا کہ کس طرح 16 سال کی عمر کی کنیز فاطمہ کو پولیس نے قتل کے مقدمے میں جھوٹے اعتراف کے لیے تشدد کا نشانہ بنایا اور ذہنی طور پر معذور بنا دیا ہے۔ کنیز فاطمہ اب تک 29سال قید میں گزار چکی ہیں۔ ان کے والد 2سال قبل انتقال کر گئے تھے۔