سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کا موسم
نقل مکانی (یعنی ایک جگہ یا ایک ملک سے دوسری جگہ یا ملک چلے جانا) دنیا بھر میں عام بات ہے۔ ترک وطن یا انتقال مکانی‘ گاہے قانونی اور گاہے غیر قانونی‘ دونوں طریقوں سے ہوتی ہے۔ ترک وطن کی بڑی وجہ مالی پریشانیاں یا دوسرے لفظوں میں غربت ہے۔ یہاں میں ایک ایسی مائیگریشن کی بات کرنا چاہوں گا جس کے سیاستدان مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ مائیگریشن کے اس عمل میں سیاستدان اپنی پارٹی کو چھوڑ کر دوسری میں شامل ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم اس عمل کو اخلاقی پیمانے سے ناپیں تو یہ کبھی بھی قانون کے تحت جائز نہیں‘ نہ اس کا کوئی جواز ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے فصلی بٹیرے یا موسمی پرندے ادھر سے ادھر آتے جاتے رہتے ہیں اور وہ اس کےلئے کسی قانون کے پابند نہیں ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سیاستدانوں کی اس ”آمدورفت“ یا مائیگریشن کا موسم عموماً انتخابات سے 6 ماہ پہلے شروع ہوتا ہے۔ یہ فصلی بٹیرے یا ہری چگ سازگار موسم اور بہترین مواقع کے منتظر رہتے ہیں۔
ایسے بھی پرندے ہیں جو محض زندہ رہنے کیلئے‘ خوراک اور بہتر موسم کی تلاش میں ہزاروں میل کی اڑان بھر کر سائیبیریا سے ہر سال پاکستان پہنچتے ہیں بالکل اسی طرح سیاستدان بھی دلکش ترغیبات اور بہتر مواقع کیلئے ایک پارٹی سے دوسری پارٹی منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ یہ بدقسمتی ہے کہ پارٹیاں بدلنے کا یہ عمل انتہائی غیر اخلاقی ہے اور سیاستدان ایسا کرتے وقت اس فعل کے قانونی نتائج و عواقب کو خاطر میں نہیں لاتے۔ آیئے! دیکھتے ہیں کہ وہ کون سے حالات و اسباب ہیں جو اس ناپسندیدہ مائیگریشن کا باعث بنتے ہیں۔
کیٹیگری 1: یہ مائیگریشن (یعنی پارٹی بدلنے کا عمل) اس لحاظ سے جینوئن ہے کہ پارٹی کی قیادت اپنے کسی ساتھی سے ناخوش ہے۔ اس صورت میں وہ مجبور ہو جاتا ہے کہ اپنے آپکو اور اپنے ووٹروں کو مطمئن کرنے کیلئے پارٹی چھوڑ دے۔ اس صورت کو ایک حد تک قابل قبول گردانا جا سکتا ہے۔
کیٹیگری 2: ایسا بھی ہوتا ہے کہ کبھی سیاستدان محسوس کرتا ہے کہ قیادت اسکی اہمیت کو نظرانداز کر رہی ہے۔ چنانچہ اسکے پاس اور کوئی چارا نہیں رہ جاتا کہ وہ کسی دوسری پارٹی میں چلا جائے۔ جہاں اسے زیادہ قدر و منزلت ملنے کی امید ہو۔
کیٹیگری 3: بعض اوقات دوست اور خاندان کے لوگوں کا دبا¶ ہوتا ہے یا بعض مقامی اور ذاتی وجوہات یا انجانے خدشات اسے پارٹی چھوڑنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔
کیٹیگری 4: اس زمرے میں آنےوالے سیاستدان عموماً ایسی پارٹی میں چلے جاتے ہیں جس کے انتخابات جیتنے کے امکانات روشن ہوں اور جہاں اسے ذاتی مفادات و اغراض کی تکمیل کے بہتر امکانات نظر آتے ہوں۔
پاکستان میں نقل مکانی کرنیوالے سیاسی پرندوں کےلئے چار بڑے مقامات ہیں جن کو اغلباً تحریک‘ پیپلز‘ نون اور ق کے نام دیئے جا سکتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے 2003ءکے انتخابات میں خاصی تعداد میں سیٹیں جیتی تھیں لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ سیاستدانوں نے شہید محترمہ بے نظیر بھٹو اور پارٹی سے عہد وفا کے باوجود ق لیگ کی طرف اڑان بھری۔ میں موقع پر موجود تھا اور اس کا عینی شاہد ہوں۔ چوبیس گھنٹوں کے اندر محب وطن دوستوں نے ق لیگ میں شمولیت اختیار کر لی۔ جنرل مشرف اور اسکی باقی تفصیل تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ ق لیگ ن لیگ سے نکلی تھی اور پھر مسلم لیگ ن نے ق لیگ کے 19 معروف الیکٹیبل واپس کھینچ لئے۔ ان میں قومی اور صوبائی اسمبلی دونوں کے اراکین شامل تھے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے تحریک میں شامل ہونےوالے بیشتر عارضی نقل مکانی کرنےوالے بنیادی طور پر تبدیلی کے نام پر ہونےوالے پراپیگنڈے کے زیراثر گئے جبکہ پندرہ پاکستان پیپلز پارٹی اور 14 پاکستان مسلم لیگ کی معروف شخصیات نے عمران خان کی تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ تاریخ اپنے آپکو دہرا رہی ہے۔ ن لیگ سے سیاسی پرندوں کی مہاجرت کا سلسلہ اس کے اہم رہنما¶ں کی صورت میں دوسری پارٹیوں میں شروع ہو گیا ہے۔
تاریخ مائیگریشن کے اس عمل کو دہرا رہی ہے جسے مسلم لیگ ن نے شروع کیا تھا کہ جب دوسری سیاسی جماعتوں کے سرکردہ لیڈر اپنی اپنی پارٹیاں چھوڑ کر اس میں شامل ہوئے۔ اس وقت کئی لوگ اسے (نون لیگ کو) چھوڑ چکے ہیں‘ کئی دوسرے اڑان بھرنے کیلئے پر تول رہے ہیں۔ جلد ہی ہم دیکھیں گے کہ مائیگریشن شپ ایسے لوگوں سے بھر گیا ہے جو نئی امنگوں اور اقتدار کی خواہش لئے نئی نئی منزلوں کی طرف رواں دواں ہیں۔ اب تک ن لیگ کے لگ بھگ 20 ممتاز سیاستدان‘ تحریک انصاف اور مسلم لیگ ق کی صفوں میں شامل ہو چکے ہیں۔
ایسا کوئی قانون نہیں جو پارٹی وفاداریاں بدلنے پر قدغن لگاتا ہو۔ ایسا کرنےوالے اپنے ضمیر کے سوا کسی کے سامنے جوابدہ نہیں۔ آئین میں پارٹی بدلنے والوں کے بارے میں دفعات ہیں لیکن یہ صرف ان پر لاگو ہوتی ہیں جو اسمبلیوں کے منتخب ارکان ہیں لیکن جو لوگ پارلیمنٹ کے ممبر نہیں ہیں ان کیلئے آئین و قانون خاموش ہے۔ آئین کے آرٹیکل 63 الف کے تحت پارٹی بدلنے والا نااہل قرار پاتا ہے۔
یہ کہتا ہے کہ اگر کسی پارلیمانی پارٹی کا ایک رکن اپنی سیاسی پارٹی سے استعفیٰ دے دے یا دوسری پارلیمانی پارٹی جائن کر لے یا اپنی پارٹی کو ووٹ دینے کے موقع پر غیر حاضر رہے تو وہ مرد یا خاتون پارلیمنٹ کا حصہ نہیں رہتے۔
قانون کےمطابق ایسے شخص کی سزا صرف اتنی ہے کہ اپنے پارٹی لیڈر کے سامنے اپنے عمل کی وضاحت کرے‘ اگر اس کی وضاحت غیر تسلی بخش قرار پائے تو معاملہ اس کی نااہلی کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کیلئے پاکستان الیکشن کمشن کو بھجوا دیا جاتا ہے اور چیف الیکشن کمشن سات دن کے اندر اسکی سیٹ خالی قرار دے کر ضمنی الیکشن کرائے گا۔اس طرح کی عارضی سیاسی مائیگریشن سے ایک یا کئی پریشر گروپ وجود میں آتے اور اہمیت حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ ایسے لوگ جن پر ایک پارٹی کی طرف سے بدعنوان اور بددیانت ہونے کا الزام ہوتا ہے‘ بعد میں ان کو پارٹی ٹکٹ جاری کر کے انہیں انعام سے بھی سرفراز کیا جاتا اور انہیں پارٹی کا قیمتی اور شفاف اثاثہ تک قرار دیا جانے لگتا ہے۔ یہ موسمی مائیگریشن کا معاشرے سے خاتمہ ضروری ہے۔ سیاسی ارکان پر انتخابات سے تقریباً ایک سال پہلے تک پارٹی نہ چھوڑنے کی پابندی عائد ہونی چاہئے اور جو اس پابندی کی خلاف ورزی کرے‘ اسے دس سال تک نااہل قرار دیا جائے۔ مزیدبرآں یہ پابندی بھی لاگو ہونی چاہئے کہ کسی پارٹی میں شامل ہونے والا نیا آدمی اس نئی پارٹی میں پانچ سال تک کوئی الیکشن لڑنے کا اہل نہ ہو گا۔ قوم تمام سیاسی پارٹیوں میں اس لوٹا ازم کا خاتمہ چاہتی ہے وگرنہ یہ بات یقینی ہے کہ سنہرے چمکیلے لوٹوں کی ہونےوالی سرگرمیوں کے باعث سیاسی عدم توازن موجود رہے گا اور ان کو وفاقی اور صوبائی سطح پر پریشر گروپ کی حیثیت ہو گی۔ سیاسی شو کیس میں ان کی نمائش ہو گی اور ساتھ ایک لیبل لگا ہو گا۔ اگر خرید سکتے ہو‘ مجھے خرید لو.... اور ہم دیکھیں گے کہ قومی مفاد کے مقابلے میں یہ کہیں زیادہ قیمت پائیں گے۔