کرپشن فری معاشرے کی تشکیل کا مقصد اپنے آئینی دائرہ اختیار میں رہ کر بھی حاصل کیا جا سکتا ہے
چیف جسٹس کا مارشل لاءیا جوڈیشل مارشل لاءکی اجازت نہ دینے اور چیئرمین نیب کا مشرف سمیت متعدد سیاستدانوں کیخلاف انکوائری کا اعلان
چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ وہ اور انکے 17 برادر جج ملک میں کسی کو مارشل لاءنہیں لگانے دینگے اور اگر ایسا ہوگا تو ہم سب گھر چلے جائینگے۔ گزشتہ روز لاہور میں یوم اقبال کی ایک تقریب میں بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عدلیہ مکمل آزاد ہے اور ہم کوئی دباﺅ قبول نہیں کرینگے۔ مارشل لاءکس نے لگانا ہے اور کس نے لگانے دینا ہے‘ جس دن مارشل لاءآئیگا میں اور میرے برادر فاضل ججز نہیں ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں جمہوریت ہے اور رہے گی۔ ہمارے دلوں میں جوڈیشل مارشل لاءکا تصور بھی نہیں۔ ایسی کوئی چیز آئین میں موجود نہیں‘ یہ بعض لوگوں کے ذہنوں کی اختراع ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ عوام کے نہیں‘ پاکستان کے چیف جسٹس ہیں۔ وہ عوام کو انکے حقوق دلا کر جائینگے۔ جس دن ہم سمجھیں گے کہ قوم ہمارے ساتھ نہیں‘ ہم استعفیٰ دے کر چلے جائینگے۔ انہوں نے کہا کہ تنقید کرنیوالے پہلے اپنے گریبانوں میں جھانکیں پھر دوسروں کو دیکھیں۔ میں اپنی عدلیہ کی نگرانی بھی کررہا ہوں‘ میں یہاں وضاحت دینے نہیں آیا مگر اب لاقانونیت بہت بڑھ گئی ہے۔ انہوں نے استفسار کیا کہ کیا صرف عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف فراہم کرے۔ یہ حکومت کی بھی ذمہ داری ہے۔ اگر لوگوں کے مسائل سیکرٹریوں کی سطح پر حل ہو رہے ہوں تو وہ دادرسی کیلئے عدالتوں کا رخ کیوں کریں۔ خواتین سارا دن سیکرٹریوں کے دفاتر کے چکر لگا لگا کر تھک جاتی ہیں‘ اگر ہر کوئی اپنا کام کرے تو عدالتوں پر بوجھ نہ آئے۔ عدالتوں پر اس لئے اتنا بوجھ آیا ہے کہ سرکاری دفاتر اپنا کام نہیں کررہے۔ انہوں نے کہا کہ کاش علامہ اقبال اور قائداعظم قیام پاکستان کے بعد کچھ وقت ہمارے پاس گزار لیتے تو آج پاکستان کا یہ حال نہ ہوتا۔ پاکستان ہمیں خیرات یا تحفے میں نہیں ملا‘ اسکے پیچھے طویل جدوجہد اور قربانیاں ہیں۔
یہ امر واقع ہے کہ پاکستان کا قیام برصغیر کے مسلمانوں کی طویل اور کٹھن جمہوری جدوجہد اور انکی بے مثال قربانیوں کے نتیجہ میں عمل میں آیا تھا جس کا مقصد انگریز اور ہندو کے استحصالی شکنجے سے مسلمانوں کو نجات دلا کر انہیں مذہبی آزادی فراہم کرنا اور اقتصادی خوشحالی سے ہمکنار کرنا تھا۔ مصور پاکستان علامہ اقبال نے انگریز اور ہندو کے مسلط کردہ استحصالی نظام کا ادراک کرتے ہوئے محسوس کیا کہ انگریز سے ہندوستان کی آزادی کے بعد بھی مسلمانوں کا انگریز کے پروردہ ہندو ساہوکاروں کے ساتھ گزارا نہیں ہو سکے گا۔ انہوں نے مسلمانوں کی مذہبی آزادی ہی سلب نہیں کی‘ انہیں اقتصادی ناہمواریوں سے بھی دوچار کر رکھا ہے کیونکہ مسلمانوں پر ملازمتوں کے دروازے بند ہیں جبکہ نجی کاروبار ہندو ساہوکاروں کے قبضے میں ہے۔ چنانچہ انگریز کی غلامی سے نجات کے بعد برصغیر کے مسلمان ہندو کی غلامی میں مزید جکڑے جائینگے۔ اسی تناظر میں علامہ اقبال کے دل میں‘ جو اس وقت آل انڈیا مسلم لیگ کے مرکزی رہنماءبھی تھے‘ اس امید نے جوت جگائی کہ ہم انگریز سے آزادی حاصل کرسکتے ہیں تو ہندوﺅں کی غلامی سے بھی نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔ اگر برصغیر کے مسلمانوں نے اپنی مذہبی اور کاروبار کی آزادی کے ساتھ زندگیاں بسر کرنی ہیں تو اس کیلئے ایک الگ خطہ¿ ارضی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنی اس سوچ کو ہی 1938ءمیں دیئے گئے اپنے خطبہ¿ الہ آباد میں اجاگر کیا اور مسلمانوں کے الگ خطہ کیلئے جدوجہد کی ضرورت پر زور دیا۔ شومی¿ قسمت کہ انکی حیات نے وفا نہ کی اور وہ اسی سال اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ تاہم انہوں نے محمدعلی جناح کی شکل میں برصغیر کے مسلمانوں کو ایک بے بدل قیادت فراہم کردی تھی جنہوں نے اقبال کے خطبہ آلہ آباد کی بنیاد پر مسلمانوں کی آزادی اور الگ خطہ¿ ارضی کے حصول کی جدوجہد کو استوار کیا اور پھر 23 مارچ 1940ءکو مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر لاہور میں منظور کی گئی قرارداد پاکستان سے تحریک پاکستان نے ایک ہمہ گیر تحریک کی شکل اختیار کی جو قائداعظم کی قیادت میں برصغیر کے مسلمانوں کی محض سات سال کی پرامن جمہوری جدوجہد سے کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور برطانوی وائسرائے ہند لارڈ ماﺅنٹ بیٹن برطانیہ کے ہندوستان سے واپس جانے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی تشکیل کے اعلان پر بھی مجبور ہوئے۔
یہ حقیقت ہے کہ قیام پاکستان کے وقت اقبال زندہ ہوتے اور قائداعظم قیام پاکستان کے بعد مزید کچھ عرصہ تک زندہ رہتے تو یہاں نہ صرف انکی آدرشوں کیمطابق اسلامی جمہوری فلاحی معاشرہ مستحکم ہوجاتا بلکہ جمہوریت کی بنیادیں بھی مضبوط ہوجاتیں اور پھر کسی طالع آزماءکو ماورائے آئین اقدام کے تحت جمہوریت پر شب خون مارنے کا موقع ملتا نہ ہماری عدلیہ کی جانب سے ایسے ماورائے آئین جرنیلی اقدامات کو نظریہ¿ ضرورت ایجاد کرکے آئینی تحفظ فراہم کرنے اور انکے جاری کردہ فرامین پر حلف اٹھانے کی نوبت آتی۔ ملک کی اقتصادی بنیادیں بھی مضبوط ہوجاتیں اور انگریز اور ہندو کی چاکری سے سیاست میں وارد ہونیوالے مفادپرست خاندانوں کو یہاں دوبارہ استحصالی نظام مسلط کرنے کا بھی کبھی موقع نہ ملتا۔
آج ہمارے ملک اور معاشرت میں جو بھی خرابیاں درآئی ہیں انہوں نے قائداعظم کی وفات کے ساتھ ہی جنم لے لیا تھا جبکہ مفاد پرست سیاست دانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے گٹھ جوڑ سے یہاں جمہوریت کی درگت بننے لگی تو ان خرابیوں نے سرعت سے پروان چڑھنا شروع کردیا جو آج کرپشن کلچر میں لتھڑے ہمارے معاشرے کا زیور بن چکی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ طالع آزماءجرنیلوں کو عدلیہ سے ملنے والے نظریہ¿ ضرورت کے سہارے اور مفاد پرست سیاست دانوں کی بیساکھیوں سے ہی تقویت ملتی رہی ہے۔ یہ ”سٹیٹس کو“ بالآخر جنرل مشرف کیخلاف شروع ہونیوالی عدلیہ بحالی تحریک کے نتیجہ میں ٹوٹا اور سپریم کورٹ کی فل کورٹ نے مشرف کے ہاتھوں معطل ہونیوالے چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چودھری کو بحال کرتے ہوئے عدلیہ کا وضع کردہ نظریہ ضرورت بھی سپریم کورٹ کے احاطہ میں دفن کرنے کا اعلان کیا۔ اسکے بعد اب تک بے شک جمہوریت ناہموار راستوں پر چلتی سبک خرامی کے تصور سے بعید رہی ہے تاہم جمہوریت کے تسلسل کا ایک دہائی سے زیادہ کا عرصہ طے ہوا ہے تو یہ عدلیہ کی جانب سے نظریہ ضرورت دفن کرنے کے اعلان اور پھر اس اعلان پر کاربند رہنے سے ہی ممکن ہوا ہے۔
اس وقت جبکہ مسلم لیگ (ن) کی منتخب جمہوری حکومت اپنی آئینی میعاد کے پانچ سال پورے کرنیوالی‘ بعض حلقوں کی جانب سے چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار کی شروع کی گئی عدالتی فعالیت کے تناظر میں جمہوری نظام کے حوالے سے چائے کے کپ میں طوفان اٹھانے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ تاثر پیدا کیا جارہا ہے کہ عدالتی فعالیت کا مقصد مارشل لاءیا جوڈیشل مارشل لاءکی شکل میں کسی ماورائے آئین اقدام کا راستہ نکالنا ہے۔ پانامہ لیکس کی بنیاد پر حکمران خاندان اور بعض دوسرے سیاست دانوں کی آف شور کمپنیوں کے حوالے سے عدالتی کارروائی کا آغاز جسٹس ثاقب نثار کے چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہونے سے بہت پہلے ہوگیا تھا اور وزیراعظم میاں نوازشریف یہ معاملہ خود سپریم کورٹ لے کر گئے تاہم جب عدالتی کارروائی کی نوبت میاں نوازشریف کی نااہلیت اور انکے اور انکے خاندان کے ارکان کیخلاف ریفرنسز دائر ہونے تک آئی جس میں نئے چیئرمین نیب جسٹس (ر) جاوید اقبال نے نیب کے ادارے کو بھی فعال اور متحرک کردیا تو نوازشریف نے عوام کی عدالت سے رجوع کرلیا جس میں عدلیہ کو اسکے ماضی کے معاملات کے تناظر میں بھی رگیدا اور جمہوری نظام کیخلاف اسٹیبلشمنٹ کی سازش کا تاثر اجاگر کیا جانے لگا۔ چونکہ نیب کے ریفرنسوں میں زیادہ ترحکمران خاندان کی پیشیاں ہوئیں اس لئے اس سے ایک خاندان کو ٹارگٹ کرکے انتقامی کارروائیوں کا الزام لگانا آسان ہوگیا جبکہ چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار کے پبلک مقامات کے اچانک دوروں کے عمل سے اور اس دوران انکی جانب سے عوامی مسائل کا ملبہ حکومت پر ڈالنے اور ان مسائل سے عوام کو نجات دلا کر جانے کے اعلانات سے جمہوریت کیخلاف کسی سازشی تھیوری کو اجاگر کرنے کا بعض حلقوں کو آسان موقع مل گیا۔
اب جبکہ چیئرمین نیب نے سابق جرنیلی آمر پرویز مشرف اور متعدد دوسری سیاسی شخصیات بشمول اکرم درانی‘ علیم خان‘ مونس الٰہی اور آف شور کمپنیوں کے ذریعے کالا دھن بنانے کے الزام میں ملوث بیوروکریٹس اور بنکاروں کیخلاف بھی انکوائری کی منظوری دے دی ہے اور اس تناظر میں وہ کسی کے دباﺅ میں نہ آنے کا بھی عندیہ دے رہے ہیں اور اسی طرح چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار بھی دوٹوک اعلان کررہے ہیں کہ ملک میں ماورائے آئین کسی اقدام کی گنجائش ہے نہ وہ اور انکے ساتھی جج ایسا ہونے دینگے تو جمہوری نظام کیخلاف مبینہ محلاتی سازشوں کے غباروں سے خود ہی ہوا نکل جانی چاہیے۔ جہاں تک کرپشن فری معاشرے کی تشکیل کیلئے عدلیہ اور نیب کے اقدمات کا عمل دخل ہے۔ اگر یہ بے لاگ اور بلاامتیاز ہیں اور انکے ذریعے انتقامی کارروائیوں کے راستے ہموار کرنا مقصود نہیں تو کرپشن سے نجات ملک کے ہر شہری کا مطمح¿ نظر ہے۔ اس کیلئے چیف جسٹس سپریم کورٹ اور چیئرمین نیب پرعزم ہیں تو حکومتی انتظامی مشینری کو انہیں مکمل معاونت فراہم کرنی چاہیے۔ اس معاملہ میں اپنے اپنے آئینی دائرہ¿ کار میں رہ کر بھی وہ مقصد حاصل کیا جا سکتا ہے جو کرپشن فری معاشرے کی تشکیل کیلئے ضروری ہے۔ اگر اس مقصد کیلئے فعالیت جمہوریت کا مردہ خراب کرنے پر منتج ہوتی ہے تو ملک میں جمہوریت کی عملداری کے اعلانات پر کون یقین کریگا۔