کچھ خبریں پورا کالم ہوتی ہیں۔ سراج الحق نے کہا کہ تحریک انصاف کے بقول چیئرمین سینٹ کے لیے اوپر سے حکم ملا تھا۔ تحریک انصاف سے نکالی جانے والی خواتین نے حلفاً کہا کہ ووٹ تحریک انصاف کو دیا تھا۔ عمران خان کے فیصلے اس کے بیانات جیسے ہیں، اس نے کہا کہ 20 ارکان نے غداری کی ہے تو صرف دس کو کیوں نکالا؟
نگینہ خان، نسیم حیات، نرگس علی نے عمران کے الزامات کو مسترد کر دیا۔ خواتین نے کہا کہ سب پرویز خٹک نے کرایا ہے۔ وہ کینہ پرور آدمی ہے۔ اس کی وجہ سے عمران خان کو بہت نقصان ہوا۔
خواتین نے کہا ہے 20 میں سے دس آدمی نکالے گئے۔ دوسرے ارکان کی دھمکی سے پرویز خٹک ڈر گئے۔ وہ کہتی ہیں عمران خان ہم پر جھوٹے الزامات لگاتے ہیں۔ وہ خود بیرونی فنڈنگ کا حساب دیں۔ ہم نے سینٹ میں ووٹ نہیں بیچے۔ لوٹا ازم اور ووٹوں کی خریدوفروخت کا اعتراف عمران خان نے کیا ہے۔
وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کی کارروائی لوگوں میں پسندیدہ ہے اور اگلی دفعہ میں وزیراعظم ہوں۔ عمران نے اب اوپر والوں سے بھی روابط ٹھیک کرنے شروع کر دیے ہیں۔ اوپر والوں سے بنائے رکھنے کے لیے چودھری سرور تحریک انصاف میں آئے ہیں۔ مشاہد حسین غلطی سے ن لیگ میں گئے۔ اب ن لیگ نے اقتدار میں نہیں آنا۔ وہ کہتے ہیں کہ سندھ میں نواز شریف بہت مقبول ہیں۔ وہ کب سندھ گئے۔ کونسا سروے اس سلسلے میں ہوا۔ یہ سب مشاہد حسین کی اندر کی کارروائیاں اور خبریں ہیں۔
سراج الحق کہتے ہیں کہ تحریک انصاف والوں کو اوپر سے حکم آتا ہے تو پھر مشاہد حسین کو ن لیگ میں جانے کا حکم بھی اوپر سے آیا ہو گا۔ مشاہد حسین کو کب پتہ چلا کہ سندھ میں نواز شریف بہت مقبول ہیں۔ اس طرح کی خبریں اچانک مشاہد حسین کو ملنا شروع ہو جاتی ہیں۔ مشاہد حسین کو تحریک انصاف میں جانا چاہیے تھا۔ اس ڈر سے کہ عمران خان مجھے بھی نہ نکال دے لیکن ایک سوال بہرحال موجود ہے کہ چودھری سرور کو کیوں نہیں نکالا۔ پیسوں کے لین دین کے لیے تحریک انصاف کے پرانے اور مخلص ارکان کو نکال دیا۔ انہوں نے گورنر پنجاب کا عہدہ چھوڑ دیا کہ اس طرح شہباز شریف نہیں بنا جا سکتا۔ اس کے لیے شہباز شریف ہونا ضروری ہو گیا ہے۔ چودھری سرور نے تحریک انصاف بہت سوچ سمجھ کر جائن کی ہے مگر یہاں بھی وہ قدرے مایوس لگتے ہیں۔ یہاں بھی پاکستانی سیاستدان کی طرح روپے پیسے چھپا کر رکھنے کی عادت پڑ گئی ہے۔
عمران خان اب روایتی پاکستانی سیاستدان بن گیا ہے۔ سراج الحق نے کہا کہ عمران خان نے بھی اوپر سے حکم آنے پر سینٹ کا ووٹ ڈالا۔ اب اس کے روابط اسٹیبلشمنٹ اور اوپر والوں سے مضبوط ہو گئے ہیں۔ چودھری سرور کا تحریک انصاف میں جانا اس بات کی گواہی ہے۔ یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ چودھری سرور واپس برطانیہ جا رہے ہیں۔ وہاں جا کر تحریک انصاف چلائیں گے۔ ذاتی طور پر چودھری سرور کے اچھا آدمی ہونے میں کوئی کلام نہیں؟
پنجابی کا سہ ماہی ”ککلی“ پروفیسر ڈاکٹر نبیلہ کی زیرادارت صرف عورتوں کا رسالہ ہے۔ عورتوں کی تحریریں بہت زیادہ بہت خاص ہیں۔ اتنی ساری خواتین ادیبوں کی تحریریں دیکھ کر خوشی ہوئی۔ یہ اچھا اقدام ہے۔ دوسرے رسالوں میں عورتیں کم کم نظر آتی ہیں۔ ڈاکٹر نبیلہ شعبہ پنجاب لاہور سٹی اورئنٹل کالج میں پروفیسر ہیں۔ سعدیہ ریاض نے ”پاک ٹی ہاﺅس“ کے نام سے ایک بہت اہم تحریر لکھی ہے۔
”لاہور“ کے نام ایک سے ایک رسالہ باقاعدگی سے ڈاکٹر ندیم الحق گیلانی شائع کرتے ہیں۔ اس میں زیادہ وہ تحریریں ہوتی ہیں جو دوسرے رسالوں میں شائع نہیں ہوتیں۔ ندیم گیلانی بڑا متحرک آدمی ہے۔ اور وہ سب کام ڈیوٹی کی طرح کرتا ہے۔ اس رسالے میں اقبال راہی کے بارے میں خصوصی طور پر کچھ صفحات مختص کیے گئے ہیں۔ اقبال راہی 70 سال کے ہو گئے ہیں۔ ندیم نے اچھا کیا کہ ایک پسندیدہ ادیب شاعر کے لیے رسالے کو مخصوص کیا۔ اقبال راہی فی البدیہہ شاعر ہے۔ اس کے ہونے سے کسی بھی ادبی محفل کو چار چاند لگ جاتے ہیں۔ مشکور حسین یاد مرحوم کے لیے ممتاز راشد لاہور کی بہت خوبصورت تحریر بھی شامل ہے۔
میں حیران ہوں کہ ایک سرکاری پرچہ باقاعدہ سے شائع ہوتا ہے۔ ادیب سرکاری پرچوں کو اہمیت نہیں دیتے مگر ماہنامہ لاہور میں دلچسپی ضرور لیتے ہیں۔
”ام نصرت“ ایک فلاحی تنظیم ہے مگر شعر و ادب پر بھی ان کی نظر ہے۔ مائرہ اور عمیر مل کر یہ تنظیم چلاتے ہیں۔ اب ان کا خیال ایک ایسا پرچہ نکالنے کا ہے جس میں ادبی چاشنی بھی ہو۔ وہاں تھیلسیمیا کے بچوں کو تازہ خون بھی لگایا جاتا ہے۔ سارا دن بڑی گہما گہمی رہتی ہے۔
ایک بہت بڑا ”شعری مجموعہ“ کبھی دیکھ پلٹ کے“ زیرطبع ہے۔ اس میں نثری تحریریں بھی شامل کر دی گئی ہیں۔ یہ ایک نئی روایت ہے جو بہرحال عام ہونا چاہیے۔ ثوبیہ نورین خان نے اپنا یہ جامع مجموعہ مرتب کیا ہے۔ اس کے شائع ہونے کے بعد ایک نئی اشاعتی روایت جنم لے گی۔
٭٭٭٭٭
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024